آٹا مہنگا خون سستا آخر ذمہ دار کون؟


رواں سال 9 جنوری کو پاکستان میں طلوع ہونے والا سورج اپنے ساتھ ایک ایسا واقعہ لے کر غروب ہوا ’جسے جان کر انسانی روح تک لرز اٹھے۔ اگر خالق ارض و سماء پتھر کو استعداد دیتا تو وہ بھی اس واقعہ پر ضرور اشک بہا اٹھتا۔ میرپور خاص کا رہائشی ایک مزدور باپ‘ 9 جنوری کے دن اپنے بھوکے بچوں کو ایک آس دے کر گھر سے روانہ ہوا۔ بلاشبہ پیاسے شخص کو دی گئی آس پانی کے علاوہ کیا ہو سکتی تھی۔ مگر باپ کی واپسی کا انتظار گھنٹوں سے دنوں اور پھر دنوں سے عمر بھر میں بدل گیا۔

دراصل وہ مزدور باپ گورنمنٹ کی طرف سے ملنے والے سستے آٹے کے حصول کی خاطر ایک بے قابو ہجوم میں جا پہنچا ’بس پھر اس ہجوم نے مزدور باپ اور بچوں کی امید دونوں اپنے پاؤں تلے کچل دیے۔ یقیناً یہ حادثہ معمولی نہیں تھا‘ غربت کا سرعام قتل تھا۔ اور اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں موجودہ سسٹم اور اس سسٹم کو چلانے والی اشرافیہ ہے۔ اشرافیہ جو کل آبادی کا تقریباً ایک فیصد بنتا ہے ’جرنیلوں، ججوں، وزیروں مشیروں، جاگیرداروں، سیاستدانوں، صنعت کاروں اور میڈیا مالکان پر مشتمل ہے۔

اشرافیہ کے اس طبقہ کا نہ کوئی ملک ہے اور نہ ہی کوئی شہر نہ صوبہ۔ اس طبقہ کی وفاداریاں محض طاقت، دولت اور اقتدار کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاکستان میں طاقت کا اصل سرچشمہ‘ حقیقت میں یہی طبقہ ہے۔ اور اس نے باہمی اشتراک اور مک مکا سے پاکستان پر ایک ایسا سسٹم مسلط کیا ہوا ہے کہ دولت ہو یا طاقت اور ملکی وسائل ہو یا اقتدار سبھی ان کے تابع ہیں۔ اور اس استحصالی سسٹم میں ڈاکٹر کا بچہ ڈاکٹر، جنرل کا جنرل اور جج کا ہی جج بنتا ہے۔

یہ طبقہ تو خود کو قانون سے بالا تر سمجھتا ہے ’بلکہ اپنے فائدے کے لئے قانون بناتا اور جب چاہیے توڑتا ہے۔ ان کا لائف سٹائل ایک نہیں دو پاکستان کی واضح منظرکشی کرتا ہے‘ جو عربی شہزادوں سے زیادہ شہانہ نہیں تو کسی صورت کم بھی نہیں۔ ان کی سیرگاہیں یورپ اور تعلیمی ادارے امریکہ میں ہیں۔ ان کے سکول، ہسپتال، شاپنگ مال اور یہاں تک کہ رہائشی کالونیاں بھی عوام سے الگ ہیں۔ اور وی آئی پی کلچر تو سوسائٹی میں پیداوار ہی ان کی ہے۔

Tim Hortons مشہور کینیڈین کافی برانڈ جو پندرہ سے زائد ممالک میں تقریباً 5352 ریسٹورنٹس کے ساتھ اپنی خدمات فراہم کر رہا ہے ’اس نے پاکستان میں اوپن ہونے والی اپنی پہلی شاخ کے پہلے ہی دن نہ صرف ریکارڈ سیل کی بلکہ اپنی ہی تاریخ کا 58 سالہ ریکارڈ توڑ کر ساری دنیا کو حیران کر دیا۔ کہ وہ ملک جو ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے‘ اس کی اشرافیہ کس قدر فضول خرچ اور بے حس بن چکی ہے۔ ماہرین تو پاکستان کی موجودہ معاشی ابتری کا ذمہ دار بھی اس 1 فیصد اشرافیہ کو قرار دے رہے ہیں۔

ان کے مطابق فیصلہ سازی ہو یا قومی پالیسیاں بنانا ’سبھی ان کے اختیار میں ہے۔ اور ان کے تمام تر فیصلے اپنے مفادات اور مراعات کے گرد گھومتے ہیں۔ اور یہی طبقہ ”سٹیٹس کو “ کا سب سے بڑا بینیفیشری ہے۔ تبدیلی جس کا پاکستان کے 99 فیصد لوگ خواہاں ہیں‘ ان کے لیے ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ زرعی اصلاحات ہوں، ٹیکس یا گورننس کی اصلاحات ’ان میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی طبقہ ہے۔ ایک طرف تو یہ طبقہ ٹیکس چوری کرتا ہے دوسرا گورنمنٹ میں وسیع اثر و رسوخ ہونے کی وجہ سے اربوں کی سبسیڈیز بٹورتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا 22۔ 2021 کا تجارتی خسارہ تقریباً 48.66 بلین ڈالر تھا‘ یعنی پاکستان کی درآمدات برآمدات سے 48.66 بلین زیادہ تھیں۔ اور اگر دیکھا جائے تو ان درآمدات میں ایک بڑی تعداد اسی اشرافیہ کے استعمال کی اشیاء تھیں مثلاً لگژری امپورٹڈ گاڑیاں، موبائل فون اور کاسمیٹک کا سامان وغیرہ۔ یہاں تک کہ ان کے پینے کا پانی اور پالتو جانوروں کی خوراک بھی امپورٹ ہو کر آتی ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کو اس تجارتی خسارہ کو پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف جیسے اداروں کے دروازوں پر دستک دینا پڑتی ہے ’کیونکہ جو ٹیکس اکٹھا کیا جاتا ہے ان میں زیادہ تر ملٹری بجٹ یا پھر قرضے اتارنے میں کھپت ہو جاتا ہے۔

اور بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ پاکستان کو پچھلے قرضے اتارنے کے لئے نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ اور آئی ایم ایف جیسے ادارے ان قرضوں کا بوجھ اشرافیہ کی بجائے عام لوگوں پر بجلی، گیس اور پٹرول پر ٹیکسز لگا کر ڈال دیتے ہیں۔ اور ان غریب دشمن ٹیکسز کی وجہ سے ہی موجودہ مہنگائی کی شرح پچھلی پانچ دہائیوں کا ریکارڈ توڑتے ہوئے 31.6 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ ملک ڈیفالٹ ہو رہا ہے‘ حکمران طبقہ اور افسران ہیلی کاپٹر اور درجنوں گاڑیوں کے پروٹوکول کے بغیر سفر کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

ان کے بیرونی ممالک کے شائئئئئئہانہ دورے تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ دوہری شہریت کا کلچر تو ان میں روایت پکڑ چکا ہے۔ مثلاً میڈیا رپورٹ کے مطابق 2002 کی قومی اسمبلی کے 35 کے قریب ارکان صرف امریکی نیشنیلٹی ہولڈر تھے۔ اگر دوسری طرف پاکستان کے 99 فیصد لوگوں کی حالت دیکھی جائے تو متعدد بین الاقوامی تنظیمیں دعوی کرچکی ہیں ’پاکستان میں نہ صرف روزانہ لاکھوں بچے بھوکے سوتے ہیں بلکہ 22 ملین کے قریب بچے تو اب تک سکولوں کا منہ تک نہیں دیکھ سکے۔

Human Development Index جو کسی بھی ملک کے لوگوں کی تعلیم، صحت اور معیار زندگی کو ظاہر کرتا ہے‘ پاکستان اس میں 191 ممالک کی فہرست میں سے 161 نمبر پر ہے ’جو اس خطہ کے دوسروں ملکوں کی نسبت کم ترین ہے۔ شاید اس کی وجہ بجٹ میں ایک معمولی سی رقم کا صحت اور تعلیم کے لیے مختص ہونا ہے۔ اگر آج اس اشرافیہ کے بچے گورنمنٹ اداروں میں پڑھتے یا علاج کرواتے ہوتے‘ یقیناً یہ ادارے نہ عدم توجہ کا شکار ہوتے اور نہ ہی ان کے معیار آج جیسے نظر آتے۔

پاکستان میں روزانہ میر پور خاص، بارکھان اور ناظم جوکھیو جیسے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں ’کچھ میڈیا کی زینت بنتے اور کچھ طاقت کے زور پر دبا دیے جاتے ہیں۔ بلکہ پاکستانی عوام تو ان واقعات کو ایک کان سے سنتی اور دوسرے کان سے نکال دیتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم قوم نہیں ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اور ہماری تو وفاداریاں ملک سے نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں اور شخصیات کے ساتھ جڑ چکی ہیں۔ اور یہ ہماری اخلاقی اور قومی پستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

خیر وقت اب بھی پاکستان پر مہربان نظر آتا ہے۔ شاید وہ ہمارے سو سال بعد قوم بننے کا انتظار کر رہا ہے۔ اور اگر ہم پھر بھی باہمی اتفاق رائے سے انصاف پر مبنی ایسا قومی طرز نہیں اپناتے جس میں تمام طبقوں کی نمائندگی اور یکساں وسائل کی تقسیم نہ ہو۔ تو وہ دن دور نہیں جب ہم دور کھڑے ہو کر پاکستان کو دیکھ کر ”کاش“ جیسے لفظوں کی تسبیح میں گم ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments