’میں ساری زندگی گھٹیا لوگوں کے سامنے ناچتی رہی، لیکن میری بیٹی ایسا نہیں کرے گی‘


معاشرے کے رائج اصولوں کے برعکس یہاں لوگ لڑکی کی پیدائش پر جشن مناتے ہیں۔ لیکن بیٹیوں کی مائیں اس جشن میں شریک نہیں ہوتیں، وہ ماتم کناں ہوتی ہیں۔ یہ جگہ سنگیت باڑی ہے۔ یہاں کولہاٹی اور دلت برادریوں کی خواتین روایتی لاونی (انڈیا کی مغربی ریاست کا فوک رقص) کرتی رہی ہیں۔

یہ خواتین یہیں رہتی ہیں۔ کھانا پینا، سونا اور لاونی یہ ہی ان کی ساری زندگی ہے۔ لیکن وہ اس ماحول سے اپنی بیٹیوں کو نکالنا چاہتی ہیں۔ یہ اپنے خاندان میں روزی روٹی کمانے والی واحد خاتون ہوتی ہیں۔ ان کے خاندان کا کوئی دوسرا فرد کام دھندا نہیں کرتا۔

یہ کہانی ان خواتین اور ان کی بیٹیوں کی ہے

مہاراشٹر کے احمد نگر اور بیڈ شہر کو جوڑنے والی شاہراہ ایک چھوٹے سے شہر جام کھیڑ سے گزرتی ہے۔ دھول سے بھرا یہ شہر دن میں سست روی کا شکار نظر آتا ہے، لیکن یہاں کی راتیں بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ آس پاس کے قصبوں اور شہروں کے مرد خواتین کی خوبصورتی دیکھنے کے لیے رات کو یہاں جمع ہوتے ہیں۔

صرف جام کھیڑ میں تفریح کے لیے 10 تھیٹرز ہیں، جن میں رنگا رنگ پرفارمنس، پیسوں کی بارش اور پرائیویٹ شوز کی کہانیاں ہیں۔ کئی نسلوں سے یہ خواتین مردوں کو خوش کرنے کے لیے ان تھیٹروں میں لاونی رقص پر پرفارم کرتی رہی ہیں۔

اس کی آڑ میں اکثر مرد ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات بھی عام ہیں اور بعض اوقات غربت انھیں جسم فروشی میں دھکیل دیتی ہے۔

یہ خوف انھیں ستاتا رہتا ہے کہ کہیں ان کی بیٹیاں بھی جسم فروشی میں نہ پھنس جائیں۔ ان کی شادی نہیں ہوتی، وہ اکیلی مائیں ہوتی ہیں۔ اب تک ان کی بیٹیاں یہ پیشہ اپناتی رہی ہیں۔ لیکن اب وہ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دینے کے لیے زمین آسمان ایک کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ہماری ملاقات یہاں گیتا برڈے سے ہوئی۔ 18 سالہ گیتا نرس بننا چاہتی ہیں۔ وہ اپنی ڈانسر ماں کو اس پیشے کی بیڑیوں سے آزاد کرانا چاہتی ہیں اور دونوں کے لیے عزت کی زندگی جینا چاہتی ہیں۔ لیکن یہ آسان نہیں ہے۔

لاونی ڈانسر کی بیٹیوں کا درد

بیٹیوں کا اپنی ماں کے ساتھ رہنا ہی ان کی پریشانی کا سبب ہے۔ کام کی جگہ پر ہی رہنے کے سبب ان کا گاہک کی نظروں میں آجانا فطری ہے اور اس طرح ان کے لاونی رقص کے میدان میں آنے یا جسم فروشی کے دھندے میں گھسیٹے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔

گیتا کو ایک شام یاد ہے۔ جب پرائیویٹ ڈانس پارٹی کا اہتمام کیا گیا تھا اور ان کی والدہ کو اس میں ڈانس کرنا تھا۔ اس دن بارش ہو رہی تھی اس لیے وہ کمرے میں بارش کے رکنے کا انتظار کر رہی تھیں۔

سنگیت باڑی ایک ایسا تھیٹر ہے جہاں لاونی کا ہر وقت اہتمام ہوتا ہے۔ یہاں ناچنے والی خواتین طویل عرصے تک رہتی ہیں۔ یہ ایک طرح کا ہاسٹل ہے، جہاں آپ کھا سکتے ہیں اور سو سکتے ہیں، ساتھ ہی لاونی بھی کر سکتے ہیں۔

ہر تھیئٹر میں آٹھ سے دس ڈانس گروپس ہیں، اور ہر گروپ میں ایک گلوکار، ایک میوزک پلیئر اور چار سے پانچ خواتین ڈانسرز شامل ہیں۔ یعنی ایک سنگیت باڑی میں کم از کم 70-80 لوگوں کے لیے جگہ ہوتی ہے۔

خواتین ہر رات سجتی سنورتی ہیں۔ سنگیت باڑی کا لوہے کا بڑا گیٹ کھول دیا جاتا ہے اور وہ اپنے گاہکوں کا انتظار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماں سے دور رہنا ہی بیٹیوں کو محفوظ رکھنے کی قیمت ہے۔

گیتا کی والدہ اوما نے اپنے شوہر کی موت کے بعد لاونی رقص کرنا شروع کیا۔ اپنے دو بچوں کی پرورش کی ذمہ داری ان پر تھی۔ بڑھتی عمر کی وجہ سے اوما کو روزانہ طعنے اور گالیاں سننی پڑتی ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ اب وہ گیتا سے ڈانس کروائے۔

اوما کہتی ہیں کہ ’میں ان لوگوں کے دانت توڑنا چاہتی ہوں جو ہم پر ہنستے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک کمزور عورت ہے، دو بچوں کی پرورش کرنے والی اکیلی ماں۔ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کیا کر سکتی ہے؟‘

یہ ایک مشکل فیصلہ ہے، لیکن ان خواتین کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے انھیں خود سے دور رکھنا ہی بہتر ہے۔

لاونی کرنے والی خواتین

لاونی رقص کرنے والی یہ خواتین کئی دہائیوں سے رقص کر رہی ہیں

سنگیت باڑی کی دنیا

سنگیت باڑی کی اپنی ایک پیچیدہ دنیا ہے۔ رقص کے ساتھ منسلک مرکزی برادری کولہاٹی قبیلے سے ہے جو ایک مادر شاہی روایت کی پیروی کرتی ہے۔ برادری کے مطابق، یہ خواتین ہی ہیں جو خاندان کے تمام فیصلے کرتی ہیں اور جائیداد کوسنبھالتی ہیں۔

لیکن حقیقت میں یہ عورتیں لاونی کر کے پیسے کماتی ہیں اور اپنے گھر والوں کا بھی خیال رکھتی ہیں لیکن ان کی عزت، آبرو اور حقوق سب چھین لیے جاتے ہیں۔ وہ گھر چلانے کا کردار ادا کر رہی ہیں لیکن بااختیار نہیں ہیں۔ ان کی محنت کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، خاندان کا کوئی دوسرا فرد روزی روٹی کے لیے کوئی کام نہیں کرتا۔

لاونی رقص کرنے والی یہ خواتین کئی دہائیوں سے رقص کر رہی ہیں۔

ببیتا اککل کوٹکر ایک ادھیڑ عمر کی رقاصہ اور ڈانس گروپ کی مالک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ کسی کو کام کرنا چاہیے، کچھ پیسہ کمانا چاہیے۔ میرے بھائیوں کو کم از کم اپنے پیسوں سے نمک کا ایک پیکٹ خریدنا چاہیے۔‘

سنگیت باڑی یا لاونی پیش کرنے والے تھیٹر تماشا پارٹیوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ اگرچہ لاونی دونوں جگہوں پر پیش کی جاتی ہے۔ تماشا پارٹیاں اپنے تمام فنکاروں اور سازوں کے ساتھ گاؤں گاؤں سفر کرتی ہیں اور ہر شام پرفارمنس ہوتی ہیں۔

پہلے لاونی کو تفریح کا ایک وسیع ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ تماشائی آتے اور معمولی قیمت پر ٹکٹ خریدتے، لاونی پیش کرنے والی خواتین کا رقص دیکھتے اور چلے جاتے۔ لیکن اب ایسے تھیٹروں میں پیسہ ایک بڑا عنصر بن گیا ہے۔

پیسہ زیادہ اب ’پرائیوٹ شوز‘ سے آتا ہے جہاں یہ خواتین چھوٹے کمروں میں بند دروازوں کے پیچھے لاونی پیش کرتی ہیں۔ اس طرح کے شوز کی قیمت کمرے کی شان و شوکت، شو کے دورانیے اور سب سے اہم بات، رقاصاؤں کی عمر کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔

ایک نوجوان رقاصہ زیادہ کماتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں کی خواتین بھی اپنی بیٹیوں کے لیے ڈرتی رہتی ہیں۔

لتا کہتی ہیں کہ ’اگر میں اپنی بیٹی کو اپنے پاس رکھتی تو وہ یہاں کے کلچر سے متاثر ہوتی۔ کم عمری میں لڑکیوں پر بہت زیادہ اور جلدی اثر ہوتا ہے، وہ ہمیں کلائنٹس کے ساتھ دیکھتی ہیں، میک اپ کرتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ بہت سی خواتین نے اپنی بیٹیوں کو برباد ہوتے دیکھا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نہیں چاہتی تھیں کہ میری بیٹی کے ساتھ ایسا ہو اس لیے میں نے اُسے خود سے دور رکھا ہے۔‘

لاونی کرنے والی خواتین

ایک نوجوان رقاصہ زیادہ کماتی ہے

یہاں سے باہر نکلنے کا راستہ

اب ان میں سے کچھ خواتین نے مل کر اپنی کمائی سے پیسے بچا کر ایک ہاسٹل میں اپنا حصہ ڈالا ہے جہاں ان کے بچے بالخصوص بیٹیاں محفوظ ماحول میں رہ رہی ہیں اور سکول جا کر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ یہ خواتین اپنے بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے تحائف جیسے نئے کپڑے، ہنر کی اشیاء وغیرہ کے لیے رقم بھی جمع کرتی ہیں۔

ہم اس ہاسٹل کے ڈائریکٹر ارون جادھو سے ملے۔

انھوں نے بتایا کہ ’سندھو گلاب جادھو، کانتا جادھو، الکا جادھو جیسی رقاصاؤں نے مل کر یہ ہاسٹل بنایا ہے۔ انھوں نے ہوسٹل کے لیے اپنے گاہکوں سے مالی مدد مانگی ہے۔ پونے میں ایک آرٹ سینٹر ہے جس کا نام آریہ بھوشن ہے وہاں کی ایک رقاصہ سویتا ہیں۔ وہ اپنے پرائیویٹ ڈانس سیشنز کے دوران اس کے لیے چندہ اکٹھا کرتی تھی، وہ ہر گاہک سے 500 روپے لیتی تھیں، وہ اکیلی 50 سے 60 ہزار روپے اکٹھا کرتی تھیں۔

سنگیت باڑی کے اندر ان خواتین کے رہنے کی جگہ تنگ ہے۔ رقاصاؤں کے ہر گروپ میں ایک یا دو کمرے ہوتے ہیں۔ خواتین صرف ان کمروں میں سوتی ہیں۔ مرد موسیقاروں کے لیے الگ کمرے ہیں۔

یہاں کے خوبصورت بڑے کمرے نجی شوز کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ میں ایئر کنڈیشنر ہیں اور کچھ میں ایئر کولر ہیں۔ ان میں آرام دہ گدوں کے ساتھ ساتھ چمکتی ہوئی ٹائلیں لگی ہوئی ہیں۔ خواتین اپنے دن کا آغاز صبح دیر سے کرتی ہیں۔ کبھی کبھی ان کا دن دوپہر سے شروع ہوتا ہے۔

ہر منڈلی میں ایک باورچی اور ایک صفائی کرنے والی خاتون ہوتی ہے۔ لاونی کرنے والی خواتین بھی کام کرنے والی خواتین ہیں اور انھیں گھر کے کاموں میں بھی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ خواتین شام چار بجے کے بعد تیار ہونے لگتی ہیں۔ پھر وہ سامنے کے برآمدے میں گاہکوں کے انتظار میں بیٹھ جاتی ہیں۔ بہت سے گاہک اپنے چہرے چھپا کر آتے ہیں۔ وہ اپنی پسند کی ڈانسر کا انتخاب کرتے ہیں اور پرائیویٹ شو بک کرواتے ہیں۔

یہ لوگ اکثر رقاصاؤں پر پیسے کی بارش کرتے ہیں۔ شو صبح چار بجے تک جاری رہتا ہے۔ کبھی کبھی ایک رقاصہ اپنے کلائنٹ کے ساتھ ‘باہر’ بھی جاتی ہے۔ یہ سیکس کے لیے ہے۔ اس کے لیے وہ زیادہ پیسے لیتی ہیں۔ جسم فروشی سے حاصل ہونے والی رقم کو تھیٹر کے مالک یا موسیقاروں کے ساتھ بانٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔

لاؤنی

ایک ختم ہونے والا فن

لاونی کو مہاراشٹر کا لوک رقص سمجھا جاتا ہے۔ کتھک کے ساتھ اس کی بہت سی مماثلتیں ہیں۔ چہرے کے تاثرات، اداکاری اور ہاتھ کی حرکات کی خوبصورت ہم آہنگی کی وجہ سے اس میں مہارت حاصل کرنا ایک مشکل ہے۔

لاونی رقص کو برسوں تک شہوانی یا شہوت انگیز سمجھا جاتا رہا۔ اس کے باوجود اس میں مہارت حاصل کرنے والے رقاص آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ لیکن اب یہ فن معدوم ہو رہا ہے۔ موسیقار اپنی تال کھو رہے ہیں، رقاص اپنی تال کھو رہے ہیں اور وہ مہارت بھی نہیں دکھا پا رہے ہیں۔

سینئر رقاصہ اور گلوکارہ لتا پربھنیکر کہتی ہیں، ’ایک وقت تھا جب سامعین ہمارے فن کی قدر کرتے تھے۔ اب وہ صرف جسم کی نمائش دیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے کوئی بھی فن سیکھنے کی زحمت نہیں کرتا۔‘

اگرچہ لاونی کرنے والی خواتین اس سے باہر نکلنا چاہتی ہیں لیکن ہر کوئی باہر نہیں نکل سکتا، ہر کسی کی مدد کے لیے مائیں نہیں ہوتیں۔

یہاں کی بہت سی لڑکیوں کو گھر میں غربت، بدسلوکی اور امتیازی سلوک کے چکر سے نکلنے کے لیے پیسے کمانے کی ضرورت ہے۔ ایسی لڑکیوں کے لیے سنگیت باڑی ہی واحد راستہ ہے۔

جئے امبیکا کلا کیندر کی یہ ایک اور شام ہے، یہاں بہت شور اور ہنگامہ ہے۔ تیار ہوئی خواتین اپنے گاہکوں کا انتظار کر رہی ہیں۔ لوہے کا دروازہ کھول دیا گیا ہے۔ یہاں سے بہت دور ہاسٹل میں بچے شام کی عبادت کر رہے ہیں۔ اور یہ خواتین اپنے آپ سے وعدہ کر رہی ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو کبھی اس دہلیز پر قدم نہیں رکھنے دیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32470 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments