ہم خواب کس زبان میں دیکھتے ہیں؟


محترم ڈاکٹر خالد سہیل صاحب
آداب و تسلیمات

امید ہے آپ بخیر ہوں گے اور موسم سرما کے برفیلے موڈ سے ”لطف اندوز“ ہو رہے ہوں گے جس سے اپنی استطاعت کے مطابق میں بھی ”استفادہ“ کر رہا ہوں۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہاں کینیڈا میں ہمیں موسموں کی شدت کا سامنا کرنے لیے مناسب سہولیات دستیاب ہیں ورنہ پاکستان سمیت دنیا کے کتنے ہی ممالک میں ان ضروری سہولیات کی کمی کے باعث کافی جانی نقصان ہوجاتا ہے۔

میں نے گزشتہ دنوں چھوٹے بھائی ماجد کو لاہور فون کیا تو اس نے بتایا کہ شدید سردی ہے اور بجلی بھی آنکھ مچولی کھیل رہی ہے۔ میں نے موضوع بدلنے کی غرض سے لاہور کی ادبی تقریبات کی گہماگہمی کے بارے میں سوال کیا۔ بتانے لگا کہ لاہور میں ادبی فیسٹیول چل رہا تھا۔ ایک رونق فیض امن میلہ نے بھی لگا رکھی تھی۔ اور مادری زبان کے عالمی دن یعنی اکیس فروری کی مناسبت سے بھی کئی خصوصی تقریبات کا انعقاد شہر میں کیا گیا تھا۔ جن میں پنجابی زبان کو اس کا جائز حق دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

ڈاکٹر صاحب، مادری زبان کے حوالے سے یہ مباحث میں بچپن سے سن پڑھ رہا ہوں مجھے یاد نہیں اس بات کا پہلے آپ سے ذکر ہوا ہے یا نہیں کہ میں ریڈیو پاکستان لاہور سے کئی سال ایک گھنٹہ دورانیے کا پنجابی پروگرام ہر روز لکھتا اور پیش کرتا رہا ہوں۔ اور میرا ایک شعری مجموعہ ”رات دی نیلی چپ“ برسوں پہلے لاہور ہی سے شائع ہو چکا ہے۔ مجموعہ کی اشاعت سے بھی برسوں پہلے پاک ٹی ہاؤس میں دوستوں سے گفتگو کرتے ہوئے میرے دوست غضنفر علی ندیم نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:

یار، تمہیں زبان کا کیا مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے۔ تم تو یزدانی جالندھری صاحب کے بیٹے ہو اور اردو تمہاری مادری زبان ہے۔ ہمیں تو گھروں میں ایسا ماحول نہیں ملا۔

اس پر میں نے اسے بتایا کہ ہم بشمول والد صاحب گھر پر پنجابی بولتے ہیں تو وہ کچھ حیران دکھائی دیا۔ تاہم میرے ایسے دوست بھی تھے جن کا اوڑھنا بچھونا اردو زبان تھی۔ حالاں کہ ان کے والدین پنجاب ہی سے تھے۔ تو یہ، بحث وقفے وقفے سے سامنے آتی رہی۔ انہی دنوں ہمارے ایک استاد نے کہا کہ ’مادری زبان وہ ہوتی ہے جس میں تم خواب دیکھتے ہو۔‘ ۔ ہم سب کو یہ مقولہ خوب صورت لگا اور ہم وقتاً فوقتاً اسے دوہراتے بھی رہے۔ دوسری جانب ہمارے من پسند شاعر حضرت غالب خواب در خواب سمٹتی اور بکھرتی زندگی کی حیرتوں سے ہمیں مسحور کرتے چلے آرہے ہیں :

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

مشکل تب پیش آئی جب ایک صبح ناشتے پر امی جان نے انکشاف کیا کہ میں سوتے میں انگریزی بولا کرتا ہوں۔ تو میں سوچنے لگا کہ کیا میں انگریزی میں خواب دیکھتا ہوں؟ تو اس اعتبار سے کیا میری مادری زبان انگریزی ہوئی۔ ظاہر ہے یہ سوچ خود میرے لیے بھی مضحکہ خیز تھی۔

گزشتہ دنوں یہاں میرے ایک پنجابی دوست مجھے بتار ہے تھے کہ وہ خواب عربی زبان میں دیکھتے ہیں اور انھیں کچھ ایسا گمان بھی گزرنے لگا تھا کہ یہ الہام وغیرہ کی کوئی صورت ہے وغیرہ وغیرہ۔

پہلے سوشیالوجی میں اور پھر یہاں کینیڈا میں سوشل ورک میں ماسٹرز ڈگری مکمل کرتے ہوئے اگرچہ مجھے سماجی نفسیات اور ڈویلپمنٹل سائکالوجی کے مضامین لازمی طور پر پڑھنا پڑے۔ سو، کچھ آشنائی نفسیاتی موضوعات سے ہے ضرور مگر آپ چوں کہ ایک مستند نفسیات دان ہیں اس لیے سوچا کیوں نہ آپ سے پوچھا جائے کہ شاعرانہ تصور سے ہٹ کر یعنی سائنسی لحاظ سے :

کیا آپ اس مقولے سے متفق ہیں کہ ہماری مادری زبان وہی ہوتی ہے جس میں ہم خواب دیکھتے ہیں؟
کیا خوابوں کی بھی کوئی زبان ہوتی ہے؟
اگر ہوتی ہے تو اس کا تعین کیسے کرتے ہیں؟

کیا کوئی بھی پسندیدہ زبان جس میں اظہار خیال میں انسان زیادہ سہولت محسوس کرے اس کی (مرکزی) ’زبان‘ کہلانے کی حق دار نہیں؟

ڈاکٹر صاحب، مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر یہ کچھ بکھرے بکھرے سے خیالات اور سوالات خواہ مخواہ ذہن میں گردش کرنے لگے جو اب آپ کی خدمت میں پیش کر دیے ہیں۔ امید ہے ادبی معاملات کی طرح اس موضوع پر بھی آپ رہنمائی فرمائیں گے۔ شکریہ۔

آپ کا ادبی دوست
حامد یزدانی
واٹر ڈاؤن، کینیڈا
ستائیس فروری سن دو ہزار تئیس
…………………
خالد سہیل کا جواب
………………..
حامد یزدانی صاحب!

میں اپنے سائیکو تھراپی کلینک میں بیٹھا آپ کو خط لکھ رہا ہوں اور باہر برف کا طوفان آیا ہوا ہے۔ اور جب چند گھنٹوں کے بعد میں اپنے مریضوں سے فارغ ہو کر گھر جانے کی تیاری کروں گا تو اس وقت تک کئی انچ برف گر چکی ہوگی اور گلیوں اور بازاروں ’کاروں اور گھروں کو برف کی چادر اوڑھا چکی ہو گی۔

اس برف کے طوفان میں بھی ایک بات باعث طمانیت قلب ہے اور وہ یہ کہ درویش کی کٹیا میں جو گاڑی کی پارکنگ ہے وہ زیر زمین ہے اس لیے جب میں زیر زمین گاڑی پارک کروں گا تو طوفان سے بے نیاز ہو جاؤں گا کیونکہ کل صبح مجھے اپنی گاڑی پر جم ہوئی برف کھرچ کھرچ کر صاف نہیں کرنی ہوگی۔ میں شدید برفباری میں وہ منظر بھی دیکھ چکا ہوں کہ ایک شخص نے بڑی محنت سے ایک گھنٹے میں گاڑی صاف کی تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ اپنی گاڑی نہیں کسی اور ہمسائے کی گاڑی صاف کر رہا تھا۔

جہاں تک خوابوں اور مادری زبانوں کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ جو شخص ساری عمر اپنے گاؤں یا شہر میں اپنی ایک ہی مادری زبان بولتا ہے تو اسے خواب بھی مادری زبان میں ہی دکھائی دیں گے لیکن اگر کوئی انسان کالج یا یونیورسٹی میں یا ہجرت کے بعد اپنی مادری زبان سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ کسی اور زبان کی زلف کا بھی اسیر ہو جائے تو پھر وہ اپنی نئی محبوب زبان میں بھی خواب دیکھ سکتا ہے جیسا کہ آپ انگریزی میں خواب دیکھ کر بڑبڑائے۔
حامد یزدانی صاحب!

چونکہ اب آپ سے دوستی پکی ہو رہی ہے اور بے تکلفی بڑھ رہی ہے اس لیے اب میں آپ سے چند اعترافات کرنے جا رہا ہوں۔

میں گھر میں والدین سے پنجابی بولتا تھا
لکھتا اردو میں تھا
کونوینٹ سکول میں دوستوں سے انگریزی بولتا تھا۔

بعض لوگ ہر انسان سے اپنی مادری زبان میں بات کرتے ہیں میری کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے کی زبان میں بات کروں تا کہ نئی زبان سیکھ سکوں۔

اسی لیے خواب میں بھی جو شخص دکھائی دیتا ہے اس سے اسی کی زبان میں بات کرتا ہوں۔ مجھے خواب پنجابی اردو اور انگریزی تینوں زبانوں میں آتے ہیں۔

آپ نے پوچھا کہ خوابوں کی کیا زبان ہے تو عرض ہے کہ سگمنڈ فرائڈ نے ہمیں بتایا کہ خوابوں کی زبان لاشعور کی زبان ہے جس میں تصاویر زیادہ اور الفاظ کم ہوتے ہیں۔ اسی لیے خوابوں میں ہمیں مختلف مناظر دکھائی دیتے ہیں۔

لاشعور کی منطق شعور کی منطق سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ ایک مثال حاضر خدمت ہے۔

فرائڈ کے پاس ایک مریض آیا کہنے لگا میں نے خواب میں ایک کتے کو ٹھوکر ماری۔ ٹھوکر کے بعد کتے نے سر موڑا تو میں نے دیکھا کہ اس کی گردن پر میرے والد کا سر تھا۔

فرائڈ نے تحلیل نفسی کے بعد اسے بتایا کہ تمہارے لاشعور میں اپنے والد کے خلاف بہت غصہ اور نفرت کے جذبات بھرے ہوئے ہیں لیکن جب تم جاگتے ہوئے ان کے بارے میں سوچتے ہو تو احساس گناہ کا شکار ہو جاتے ہو کیونکہ تمہارا مذہب تمہیں سکھاتا ہے کہ ہم سب کو اپنے والد کی عزت کرنی چاہیے لیکن چونکہ تمہارے باپ نے بچپن میں تمہارے ساتھ زیادتیاں کی ہیں اس لیے تمہارے لاشعور میں غصہ بھرا ہوا ہے۔ خواب میں تم نے اپنے باپ کو کتا بنا دیا اور اسے ٹھوکر ماری۔ ٹھوکر مارنے سے تمہارے غصے کا اظہار ہو گیا اسی لیے اس کے بعد پتہ چلا کہ کتے کا سر تمہارے باپ کا سر تھا۔

حامد یزدانی صاحب! میں نے یہ مثال اس لیے شیر کی ہے تا کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ خوابوں کی زبان اور ان کی تفہیم کافی گنجلک اور پیچیدہ ہے۔ خوابوں کے بارے میں یہ جاننا بھی اہم ہے کہ فرائڈ خوابوں کا سلسلہ ماضی سے جوڑتے تھے کیونکہ ان کے بہت سے مریض نفسیاتی الجھنوں کا شکار تھے۔

فرائڈ کے مقابلے میں کارل ینگ کہتے تھے کہ ہمارے خواب ہمیں مستقبل کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لاشعور شعور سے زیادہ دانا ہوتا ہے اور اگر آپ کی اپنے لاشعور سے دوستی ہو تو آپ اپنے لاشعور میں چھپے ایک مرد دانا سے مل سکتے ہیں جو آپ کو مستقبل کے بارے میں مفید مشورے دے سکتا ہے۔

مذہبی لوگ خوابوں کا تعلق خدا اور فرشتوں سے جوڑتے ہیں جبکہ لا مذہبی ماہرین نفسیات ان کا تعلق انفرادی اور سماجی لاشعور سے جوڑتے ہیں۔

حامد یزدانی صاحب!

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ میں پنجابی بول تو سکتا ہوں لیکن اپنی ماں بولی لکھ پڑھ نہیں سکتا اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ میں پنجابی میں ان پڑھ ہوں۔

آپ کا پنجابی کا مضموں میں نے پڑھنے کی کوشش کی تو بہت اٹک اٹک کر پڑھا۔
آئیں آج میں آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سناؤں۔

کئی سال بلکہ کئی دہائیاں پیشتر مجھے ایک صاحب نے ٹورانٹو سے فون کر کے بتایا کہ ان کا نام بلبیر سنگھ مومی ہے۔ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور پھر ہندوستان ہجرت کر گئے تھے اور اب چندی گڑھ میں رہتے ہیں۔ کہنے لگے میں آپ کے افسانے ہندوستان لے جانا چاہتا ہوں اور ان کا پنجابی میں ترجمہ کر کے چھاپنا چاہتا ہوں۔

میں نے کہا زہے نصیب۔

چنانچہ وہ میرے اردو کے افسانے کینیڈا سے ہندوستان لے گئے ان افسانوں کا پنجابی میں ترجمہ کروایا۔ امرتا پریتم کے محبوب امروز سے سرورق بنوایا اور جب واپس لوٹے تو ان کے پاس میرے افسانوں پر مشتمل ایک کتاب “اک پیر وچ زنجیر” تھی جو انہوں نے مجھے تحفے کے طور پر دی اور مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے ہی اردو افسانوں کے پنجابی تراجم نہیں پڑھ نہیں سکتا۔

مجھے اس دن پتہ چلا کہ پنجابی دو رسم الخط میں لکھی جاتی ہے گرمکھی اور شہ مکھی۔

اردو اور فارسی زبانیں جاننے کی وجہ سے میں شاہ مکھی تو اٹک اٹک کر پڑھ سکتا ہوں مگر گرمکھی بالکل نہیں پڑھ سکتا۔

مہاجروں کا شعور ہی نہیں لاشعور بھی بدلتا رہتا ہے۔ کینیڈا میں تیس برس گزارنے کے بعد میں نے انگریزی میں لکھنا شروع کیا اور اتنا لکھا کہ اردو میں لکھنا کم ہوتا گیا۔ وہ تو خیر ہو۔ ہم سب۔ کی کہ مجھے دوبارہ اردو میں لکھنے کی تحریک دی اور میں دوسری محبوبہ انگریزی سے دوبارہ اپنی پہلی محبوبہ اردو کی طرف لوٹ آیا۔
حامد یزدانی صاحب!

یہ موضوع کافی وسیع ہے میں بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ مہاجروں کی زبانوں اور خوابوں کے رشتے ہجرت نہ کرنے والوں کی نسبت زیادہ گمبھیر ہوتے ہیں۔

آپ کا ادبی دوست
خالد سہیل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments