میری دھرتی میرے لوگ


11 مارچ کی شام پاک ٹی ہاؤس کا سارا ماحول ایک درد انگیز تاثر میں ڈوبا ہوا تھا۔ اردو ادب کو اپنے تخلیقی اور تحقیقی کاوشوں سے حد درجہ امیر کرنے والی شخصیت ساکت انداز میں سٹیج پر ڈاکٹر جعفر حسن زیدی، ڈاکٹر غلام حسین ساجد اور پروین ملک کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ منظر آنکھوں کو بھگونے کے لیے کافی تھا۔

احمد سلیم کی حال ہی میں چھپنے والی اہم کتاب ”میری دھرتی میرے لوگ“ پر ایک بھرپور نشست کا اہتمام جاوید آفتاب اور مدثر بشیر نے کیا تھا جس کے لیے ان کی منہ بولی بیٹی ڈاکٹر حمیرا اشفاق اسلام آباد سے انہیں لے کر آئی تھی۔ اس بچی پر بھی آفرین ہے کہ جس نے احمد سلیم کی معذوری سے لڑنے اور انہیں اپنے حفاظتی حصار میں رکھنے کا عزم کر رکھا ہے۔

میری ان سے ملاقاتیں، ٹیلی فونک باتیں سبھوں کی ذہنی یلغار تھی۔ زندگی کی بے بسی سے بھری ہوئی یہ سٹیج ان کے لیے اور ان کے چاہنے والوں کے لیے بہت اذیت ناک تھی۔ سارا ماحول ان جذبات کا عکاس تھا۔

یہ اہم کتاب جسے بصد زور ان سے لکھوایا گیا جو آپ بیتی سے زیادہ جگ بیتی ہے۔

”میری دھرتی میرے لوگ“ ایک نئے رنگ اور ایک نئے آہنگ کی کتاب ہے۔ جو آپ بیتیوں اور سوانح عمریوں کے مروجہ چلن سے یکسر ہٹ کر تحریر ہوئی ہے۔ چار حصوں پر مشتمل یہ کتاب جس کا ہر حصہ اپنے وقت کی تاریخ، اس دور کے سیاسی اور سماجی رویوں، اس کے رہتل اور وسیب کا آئینہ دار ہے۔ یہ مصنف کے بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے سیدھے سبھاؤ اور انداز و اطوار کا عکاس نہیں۔ بلکہ ان سب پگڈنڈیوں کی کہانیاں سناتا ہے جن پر لکھنے والا مسلسل چلتا رہا۔ نظریاتی جدوجہد کے پھول کانٹوں سے دامن بھرتا رہا اور پھر جب تقاضا ہوا کہ زندگی میں جو دیکھا ہے، جو بیتا ہے، جو سہا ہے اور جو بھگتا ہے اسے لکھ دو۔ ان کا کہنا ہے کہ۔

” پھر جب جب میں نے ماضی کا کوئی دریچہ کھولا میرے وہ زخمی لمحے مسافتوں کی دھول سے گردنیں اٹھا اٹھا کر مجھ سے یوں مخاطب ہو گئے کہ جیسے وہ اسی بات کے تو منتظر تھے کہ میں کب انہیں آواز دیتا ہوں۔“

احمد سلیم ماضی میں جھانکتا، حال میں جیتا، مشاہدے اور تجربے سے فیض یاب ہوتا رہا۔ یہ رنگا رنگ تجربات کبھی اشعار میں، کبھی نثری شاعری میں اور کبھی کہانیوں کی صورت ظاہر ہوئے تھے۔ ”نال میرے کوئی چلے“ ان کا یہ ناولٹ پنجاب کے دیہی کلچر اور انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے جیسے مکتب فکر کا بہترین ناول ہے۔ ان کی نثر، ان کی شاعری اپنے وقت، اپنے دور، اپنے عہد اور اس عہد میں وقوع پذیر ہونے والے اہم اور غیر اہم واقعات کی نمائندہ ہے جنہیں احمد سلیم نے سچ کے آئینے میں اس انداز میں اتارا ہے کہ ان کی شخصیت کا ہی بھرپور تاثر ابھر کر سامنے نہیں آیا بلکہ اس وقت نے بھی مجسم تصویر کا روپ دھار لیا ہے۔

کتاب میں ”میرے لوگ“ احمد سلیم کی تخلیقی کاوش کا سب سے زیادہ خوبصورت حصہ ہے۔ اس حصے کی پہلی چیز جو فوراً متوجہ کرتی ہے۔ وہ ان شخصیات کو دیے گئے دل کش عنوانات ہیں جو دامن دل کو کھینچتے ہیں۔ ذرا سی جھلک ملاحظہ ہو۔ مسعود کھدر پوش ”مٹی چڑھ گئی اے آسما نے۔“ انور سجاد، ”پر نور صبحیں، پر کیف شامیں“ نذیر عباسی ”پراگ میں آگ“ ، جام ساقی ”چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی منو بھائی، احمد راہی تتلیوں اور جگنوؤں کے دیس کا راہی“ شیخ ایاز ”یوں نہ مریں گے ہم“ ۔

شفقت تنویر مرزا، نذیر عباسی، سارا ملک منصور، جی ایم سید، آئی اے رحمان، جالب، سارا شگفتہ، پروین شاکر، ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ۔ سب کے سب بھرپور انداز میں پیش ہوئے۔ فیض صاحب اس حصے کا مرکزی کردار ہیں۔ فیض صاحب بطور شاعر اور بطور انسان، ان کی شخصیت، ان کا کردار، ان کے نظریات کا جو اثر انہوں نے قبول کیا وہ ان کی تحریر میں بہت نمایاں ہے۔ محبت، چاہت اور کہیں کہیں عقیدتوں کے بے شمار رنگوں میں لپٹے ان مضامین میں یہ کردار پوری توانائیوں سے چمک رہے ہیں۔

ان میں پاکستانی ادب اور تاریخ کی یہ اہم شخصیات اختصار کے ساتھ ساتھ تفصیلات کی بھی نمائندہ ہیں۔ ”اجے قیامت نئیں آی“ منو بھائی پر لکھا گیا وہ شاہ پارہ ہے جس کو پڑھنے سے، ان سے وابستگی کی ساری یادیں تازہ ہوتی ہیں۔ میرے ملک دے دو خدا۔ لا الہ تے مارشل لا۔ جہاں استاد دامن کی شخصیت اور فن کا ہر پہلو دل کش انداز میں کھلتا ہے۔ بٹوارے پر ان کی وہ شہرہ آفاق نظم ”لالی انکھیاں دی پئی دسدی اے“ آنکھوں کو بھگوتی ہے۔ ان کے ساتھ اپنی قربتوں کا ذکر قاری کس محویت سے پڑھتا ہے۔

سارا شگفتہ کو انہوں نے ایک نئے انداز سے پورٹریٹ کیا ہے۔ ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور بانو آپا کا ذکر ملتا ہے۔ ان کی تحریر، ان سے محبت کی آئینہ دار ہے۔

”ایاز شیخ یوں نہ مریں گے“ جس انداز میں لکھا گیا ہے وہ نئی نسل کی رہنمائی کے لیے بہت کافی ہے۔ ان کی شاعری، ان کی پیشہ ورانہ مہارت، ان کی اپنی قوم سے بے پناہ محبت یہ سب پہلو اختصار نما تفصیل کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ جام ساقی اور آئی اے رحمان پر مضامین بھی اپنی نوعیت کے کمال کے ہیں۔

تیسرا حصہ ”محبتوں کے سفر کا“ ہے جو دراصل کہانی ہے بنگلہ دیش اور ہندوستان کی۔ اس حصے سے نمایاں کردار امرتا پریتم، راجندر سنگھ بیدی، کیفی اعظمی، شوکت اعظمی، اجیت کور اور بالی وڈ کے بے شمار دیگر لوگ بھی نمودار ہوتے ہیں جو قارئین کے لیے بے حد دلچسپی کا باعث ہیں۔ ہاں بنگلہ دیش پر لکھنے کا بھی ان کا اپنا انداز ہے۔ جس میں ان کی یادوں اور ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی تاریخ اپنی محبتوں، دکھوں اور تلخیوں کے درمیان سفر کرتی ہے۔ آخر میں منتخب خطوط پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ ان کی اور ڈاکٹر انور سجاد کے تعلقات اور محبت کا اظہار ہیں۔ انتخاب کلام میں پنجابی شاعری کا بہت اہم حصہ شامل ہوا ہے جو واقعات، شخصیات اور گہرے احساسات و جذبات کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔

احمد سلیم کے لیے ہماری محبتیں اور دعائیں۔ پیاری ڈاکٹر حمیرا اشفاق کے لیے پیار و دعائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments