کراچی پریس کلب اور حبیب جالب کی باتیں


گو کے اس بات کو گزرے دو ہفتہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ اس کے باوجود کراچی کے نظریاتی، محبوباتی، سیاسی، اور تھوڑے سے ادبی حلقوں میں جالب میلے کی سرگوشیاں گھوم رہی ہیں، چل رہی ہیں۔ ایک دوسرے کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے اس ایک بات پر سب متفق ہیں کہ ایسے پروگرام ہونے چاہیں، وقت کی ضرورت ہیں۔ اپنے پرکھوں کو ہم نہ یاد کریں گے تو کون کرے گا۔ زندگی کے نخلستان میں چلتی پھرتی نسلوں کو آگاہی دینے کے لئے یہ بہت ضروری ہے۔

کیا ضروری ہے اور کیا غیر ضروری ہے اس بات کو بھی جانے دیں۔

قابل توجہ یہ بات ہے کہ شہر کراچی اور اس کے پریس کلب میں تقریباً دو دہائیوں کے بعد عوامی شاعر کے لئے کسی عوامی تقریب کا انعقاد ہوا۔

یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ جالب ڈرائینگ روم اور بند کمروں کے نہ تو شاعر تھے اور نہ ہی ان کی شخصیت۔ وہ ایک آزاد منش، ہوا کے دوش پر، پرندوں کے پروں پر سرسراتے، بادلوں کے سنگ اڑتے، گلی گلی گونجتے شاعر تھے۔

ان کی شاعری جہاں لہو کو گرماتی تھی وہیں ذہن کو سوچنے پر بھی مجبور کرتی تھی۔ یہ بات وہی کہہ سکتے تھے کہ ”ایسے دستور کو صبح بے نور کو۔ میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا“ ۔

ایک وقت تھا کہ کراچی پریس کلب ہر قسم کی کھلے ذہن، کھلے دل، اور لہو کو گرما دینے والی تقریبات کا گڑھ ہوتا تھا۔ اس کے بام در جالب، جوش، فراز سے لے کر نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو تک بہت ساری کھڑکی توڑ تقریبات کے چشم دید گواہ ہیں۔ جب کہ کچھ بے چارے تو کراچی پریس کلب آنے کی خواہش میں ہی دنیا چھوڑ گئے۔

لیکن!

جب سے اکیسویں صدی کا آغاز ہوا ہے۔ لگتا کچھ یوں ہے کہ زندگی سے سکون اطمینان رخصت ہو گیا ہے۔ اس مسئلے کو بے لاگ ہو کے بھی سوچا کہ کیا یہ ہماری عمر بڑھنے کی نشانی ہے کہ ہم اطراف کو قنوطی عینک سے دیکھنے لگے ہیں، دل دماغ سے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا کہ نظروں کے سامنے تو ہر شخص بھاگتا دوڑتا ہی نظر آتا ہے۔ کون کس کے پیچھے بھاگ رہا ہے کوئی نہیں جانتا۔ لوگوں کے پاس رکنے، بیٹھنے اور بیٹھ کے بات سننے کا کوئی لمحہ نہیں۔

شاعروں ادیبوں کی شامیں راہ دیکھتے گزر جاتی ہیں کوئی تو ہو جو بات سنے۔

ایسے میں کسی شاعر، ادیب کے ساتھ پروگرام کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا کہ پریس کلب اور اس کے معزز ارکان بھی ہمہ وقت کسی انجانی افراتفری کا شکار رہتے ہیں۔

سچ پوچھیں تو کلب کے در و دیوار کوئی دو دہائیوں سے کسی ایسے پروگرام سے محروم ہیں جو سوچنے، بولنے پر مجبور کر سکے۔ قصہ مختصر 26 فروری کی شام کو جالب میلہ ہوا اور خوب دھوم دھڑکے سے ہوا۔

نعرے لگے، نغمے بجے، اشاروں کناروں کی زباں سے کلام جالب کو زباں دی گئی اور مدتوں بعد لگا کلب جاگ گیا ہے، زندہ ہو گیا۔ احباب جالب اور پریس کلب کی نو منتخب انتظامیہ دونوں کے لئے یہ ایک خوش آئند روایت کا آغاز ہے۔

جالب صاحب! مجھے یقین ہے کہ اس شام آپ نے بھی اوپر خلاؤں یا آسمانوں سے اپنے عاشقوں کو دیکھ کے خوب جشن منایا ہو گا۔

اور اپنی مترنم آواز میں گایا ہو گا۔
آج اس شہر میں کل نئے شہر میں۔ اڑتے پتوں کے پیچھے اڑاتا رہا شوق آوارگی

میرا یقین کامل ہے کہ ملتے جلتے رہنے میں بڑی زندگی ہے۔ انسانی میل جول سے صرف دل ہی نہیں ملتے، نظریات، خیالات اور بھی بہت کچھ ملتا ہے اور ملتے رہنے سے ساتھ ساتھ دھڑکنے بھی لگتا ہے۔ بے نام نفرتوں اور رنجشوں کا خاتمہ ہوتا ہے اور چار دن کی زندگی اچھی لگنے لگتی ہے۔

پتہ نہیں کتنے لوگوں کو یاد ہے کہ 80 کی دہائی میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان بے نام اختلافات اور رنجشوں کی خلیج کو پاٹنے کے لئے، درمیانی گرمی کو کم کرنے کے لئے، لوگوں کا لوگوں سے رابطہ بڑھانے کے لئے کرکٹ کے میچوں سے لے کر، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے ملاپ کا آغاز ہوا تھا۔ تب ہی انڈیا پاکستان امن کمیشن جیسے پلیٹ فارم بنے اور خوب پھلے پھولے کہ دونوں جانب کے امن کمیشنوں نے ملاقاتوں باتوں اور مل بیٹھ کے سوچنے کے سینکڑوں مواقع فراہم کیے تھے۔

اسی سلسلے کے ایک قافلے کے ساتھ مجھے بھی کلکتہ جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ اپنے پرکھوں کی زمیں کو آنکھوں سے دیکھنے اور سانسوں سے سونگھنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ دوستی کے اس ڈائی لاگ میں پاکستان سے جانے والوں کے علاوہ مقامی اور انڈیا بھر سے آئے درجنوں افراد نے ایک دوسرے مل کے دیکھا ہم سب ایک جیسے تھے اور ایک عام آدمی کو اپنے جیسے دوسرے عام آدمی سے کوئی گلہ شکوہ نہ تھا۔

وہ بھی ہماری طرح دال چاول اور اچار کھا کے خوش ہیں۔ ان کے بھی وہ ہی خواب ہیں کہ زندگی کے میلے میں ان کے بچوں کے قد ان سے بلند مقام پر ہوں۔ انھیں بھی آدھے مہینے سے آنے والے ماہ کی فکر لگ جاتی ہے اور وہاں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کے پرکھوں یا بزرگوں کا تعلق لاہور، لائلپور، حیدرآباد اور کراچی سے رہا ہے۔

مجھے یاد ہے اس ملاقات محبت یا بھائی چارے کا اختتام دونوں طرف کے دانشوروں، صحافیوں، ادیبوں، شاعروں اور کچھ نیم سیاسی لوگوں کے اس عہد کے ساتھ ہوا تھا کہ اس ملاقات کا مقصد محبت، خلوص کے دیے جلاتے رہنا اور پھول کھلاتے رہنا ہے۔

لیکن پھر کچھ ہوا یوں کہ منافقتوں، غلط فہمیوں کی ایسی آندھیاں چلیں اور کچھ یوں چلیں کہ امن و اخوت کے آنگن میں لگے سارے پھول پودوں کو اڑا لے گئیں، دیے گل ہو گئے، سبزہ جل گیا اور دھول اڑنے لگی بجھے دیوں کی راکھ رہ گئی۔ ٹھنڈی گرم راکھ گزشتہ بہت سالوں سے سرحدوں کی دونوں جانب اڑے جا رہی ہے۔

آسی راکھ کے پس منظر میں ہولی دیوالی اور عید بقرعید جیسے تہواروں پر منافقتوں سے بھرے ٹو کروں کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا ہے اور جو کوئی بھولا بھٹکا نامور آدمی کسی آنے بہانے سے سرحدوں کے ادھر ادھر چلا جائے تو اسے گھیر گھار کے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔

نفرتوں، رنجشوں کے بیج ڈالتے رہنے کا یہ دھندا دونوں جانب سے بلا تخصیص جاری ہے۔

چند سال پہلے جب پاکستانی حکومت نے کرتارپور جیسے سوئے ہوئے منصوبے کو مکمل کرنے کا بیڑہ اٹھایا تو نجانے کیوں امید کے پودے نے انگڑائی لی اور لگا کہ اس بار کچھ نہ کچھ اچھا ہو رہے گا۔ خیالوں ہی خیالوں میں رنگ برسنے لگے اور اودے اودے نیلے پیلے پھول کھلنے لگے۔

کرتارپور کے دروازے کھلنے سے اور تو کچھ نہ ہوا البتہ سکھ یاتریوں کی تمنائیں بر آئیں اور بھارت کے کونے کونے سے سکھ یاتری صبح دم سرحدوں کی لکیر ٹاپتے ہیں، دن گرو کے چرنوں میں گزارتے ہیں اور شام ڈھلنے سے پہلے پہلے لکیر کے اس پار چلے جاتے ہیں۔ یاتریوں کے آنے جانے کا یہ سلسلہ دن بھر جاری رہتا ہے۔

بڑے دنوں بعد گزشتہ ماہ انڈیا پاکستان امن کمیشن کے حوالے سے ایک ملاقات کرتارپور میں ہونا قرار پائی تو پاکستان میں انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے کام کرنے والی مختلف تنظیموں کے ممبران نے کرتارپور کا رخ کیا اور اسی حوالے سے انڈیا سے آنے والے افراد سے ملاقات کی گو کہ بہت سے احباب کو ویزے نہ مل سکے۔

اس سب کے باوجود گوردوارے کے بیچوں بیچ انسانوں کا انسانوں کے ساتھ مل بیٹھ کے بھائی چارے کی باتیں کرنا، بانہوں میں بانہیں ڈال کے امن کے گیت گانا، ایک دوسرے کے گلے لگ کے تصاویر بنانا، معصوم تحائف کا تبادلہ کرنا، لنگر خانے میں شانہ بشانہ بیٹھ کے پرشاد کھانا، ایک دوسرے کے ساتھ نگاہوں کے ٹکراؤ کی صورت میں مسکرانا بہت ہی دل کو چھونے والا تجربہ تھا۔

ملاقات کے اختتام پر پہلے کی طرح محبت، رواداری، بھائی چارے، انسانیت، جنگ سے نفرت، انسانی حقوق کی علمبرداری اور ایسی ہی دوسری اچھی اچھی باتوں پر مشتمل عہد نامہ تیار ہوا اور جاری ہوا۔

شام ڈھلے سرحد نامی لکیر کے دونوں جانب سے آئے انسانیت کے پیارے لوگ گزرے دن کی یادوں میں جھولتے واپس ہو گئے۔

کاش ان حکمرانوں کو یہ بات سمجھ آ جائے کہ اربوں کھربوں روپیہ بارود اور لوہے کی خریداری پر ضائع کرنے کے بجائے جیتی جاگتی انسانیت پے خرچ کر کے کچھ نیکی کما لیں، کچھ جیون سنوار لیں، کچھ عاقبت بنا لیں، کچھ تازہ پھول لگا لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments