جمہوریت کا لبادہ اوڑھے فسطائیت


یہ غالباً تپتے جون کی 19 تاریخ تھے اور سال تھا 2019 جب نیب کی ٹیم گرفتاری کے وارنٹ لیے پیپلز پارٹی کے صدر و سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے ان کی رہائش گاہ ایف ایٹ اسلام آباد پہنچی۔ اس وقت ہنستے مسکراتے آصف علی زرداری نے “ایف ایٹ پہنچو” کے پیش ٹیگ سے کوئی ٹویٹر پیغام نہیں دیا، نہ ہی وڈیو کے ذریعے اپنے کارکنان کو اشتعال دلایا کہ اگر مجھے گرفتار کر لیا گیا تو خدا نخواستہ پاکستان پہ کوئی برا وقت آ جائے گا یا پاکستان کی سالمیت استحکام پہ کوئی کاری ضرب لگ جائے گی یا خدا نخواستہ ہماری آزادی کمپرومائز ہو جائے گی اس لیے پورے ملک کے کارکنان جتھوں کی صورت میں میری گرفتاری اور ملک کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کرنے والی قوتوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں، انہیں حقیقی آزادی کا وہ سبق سکھا دیں جو اس سے پہلے انہیں کسی نے نہ سکھایا ہو۔

آصف علی زرداری نے نیب ٹیم کو اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر انتہائی عزت و احترام سے ان سے وارنٹ گرفتاری وصول کیے قانونی تقاضے پورے کیے اپنے ساتھیوں اپنی عزیز از جان بیٹی آصفہ بھٹو اور بلاول سے گلے مل کر مسکراتے ہوئے جیل جانے کے لیے رخصت ہوئے۔ آصف علی زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی ساری قیادت نے قانون کے آگے ہمیشہ سر تسلیم خم کیا کبھی قانون شکنی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ کبھی اپنی ذات کے لیے اپنے کارکنان اور اپنے وطن کو آزمائش میں نہیں ڈالا نہ کشت و خون میں نہلانے کی کوئی قبیح کوشش کی۔

اسی طرح ایک اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جو لاہور سے اسلام آباد جا رہے تھے کو نیب ٹیم نے گھیر لیا انہوں نے اپنی گاڑی میں بھٹے نیب ٹیم کے سربراہ سے کہا کہ اگر گرفتار کرنے آئے ہیں تو وارنٹ دکھائیں ابھی ساتھ چلتا ہوں اور پھر ایسا ہی ہوا وارنٹ دیکھ کر شاہد خاقان عباسی بھی ہنستے مسکراتے نیب ٹیم کے ہمراہ ہو لیے ۔

ایسی کئی مثالیں موجود ہیں عید کی رات ہسپتال میں زیر علاج پیپلز پارٹی خواتین ونگ کی مرکزی صدر ایم پی اے فریال تالپور کو زبردستی جیل بھیجا گیا انہوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی کسی کو پیغامات نہیں بھیجے کہ ہجوم اکٹھے ہو جاؤ اور گرفتار کرنے والوں کی بینڈ بجا دو، میاں نواز شریف، مریم نواز، خورشید شاہ مطلب کہ کتنے ہی سیاسی رہنماؤں نے بنا کسی مزاحمت اور اشتعال انگیزی کے بنا کوئی شر اور فساد پھیلائے گرفتاریاں دیں اور جیل کاٹی۔

یہ سب کچھ ملک کے سب سے بڑے جمہوریت پسند، ملک کو ریاست مدینہ بنانے اور خلفائے راشدین کے نقش قدم پہ قانون و انصاف کا بول بالا کرنے کے دعویدار سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں ہوا۔

خان صاحب پاکستان کو ریاست مدینہ تو نہ بنا سکے مگر ہٹلر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسے ایک فسطائی ریاست کا روپ ضرور دے چکے تھے، جہاں حق بات کہنا، سچ کہنا، تنقید کرنا ریاست کے خلاف بغاوت جیسا جرم ٹھہرایا گیا۔ آزادی اظہار رائے پہ قدغن لگا کر سچ کہنے اور سچ لکھنے والوں پہ عرصہ حیات تنگ کیا گیا۔

پھر وقت نے بہت جلد کروٹ لی اور خان صاحب اقتدار سے بے دخل ہوئے۔ اقتدار سے بے دخلی سے لے کر زمان پارک پہ مبینہ آپریشن تک عمران خان صاحب جمہوریت کے لبادے میں ایک بے رحم فسطائیت پسند آمر نظر آئے۔ اپنے کارکنوں پیروکاروں کو ذاتی مفادات کے لیے جس طرح خان صاحب نے پچھلے دو ماہ سے استعمال کیا ہے وہ بھی اپنے آپ میں ایک ملکی ریکارڈ ہے جس پہ اس سے پہلے الطاف حسین صاحب کا قبضہ تھا آج خان صاحب بھی ان کی ہم عصری میں شامل ہو گئے۔

خان صاحب کو جیل جانے سے بہت ڈر لگتا ہے یہ تو ہمیں معلوم تھا مگر وہ جیل سے اتنے خوفزدہ ہوں گے یہ حقیقت اب پوری دنیا کے سامنے آشکار ہو چکی ہے۔ ایک شخص جو خود کو نہ صرف جمہوریت کا چیمپیئن کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہو، جو اپنے آپ کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے والوں کے نقش قدم پہ چلنے والا عالم اسلام کا لیڈر سمجھتا ہو وہ اپنی ہوس اقتدار، اپنی انا کی تسکین کی خاطر ہٹ دھرمی کی اس حد تک جائے کہ ملک کا استحکام سالمیت امن خطرے میں پڑ جائے، عام شہریوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی زندگیاں داؤ پہ لگ جائیں، سرکاری و نجی املاک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے وہ شخص کسی بھی طور کسی مہذب قوم کا رہنما نہیں ہو سکتا۔

عمران خان صاحب نے پچھلے کچھ عرصے میں یہ ضرور ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس ملک کے سب سے طاقتور ترین شخص ہیں، ادارے ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، حکومت ان کی ریشہ دوانیوں کے آگے گھٹنے ٹیکے دکھائی دیتی ہے۔ یہ بات اب تک سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر ایسی کون سی طاقتیں خان صاحب کی پشت پر ہیں جن کی شہ پہ خان صاحب کسی کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے پیروکار کھلے عام پاکستانی فوج اور اس کی قیادت کو گالیاں دے رہے ہیں۔

ان کے ساتھی اور کارکنان ہر سیاسی مخالف، ہر مخالف سوچ، رائے رکھنے والے کی ماں بہن ایک کرنے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ اور شرم محسوس نہیں کرتے۔ وہ جب چاہتے ہیں قانون کو اپنے پاؤں تلے روند دیتے ہیں، کسی عدالتی حکم کو گھاس ڈالنے کے لیے تیار نہیں، آخر وہ کون سی غیر مرئی طاقت ہے جو انہیں اب تک پاکستان کا سب سے زور آور شخص بنائے ہوئے ہے۔ کیوں عدالتیں ان کی سہولت کاری کر رہی ہیں، ایک شخص اپنی ہوس اقتدار میں ملک کو کشت و خون میں نہلانے پہ تلا ہوا ہے کیوں عدالت عظمیٰ اس پہ سوموٹو لینے سے اب تک گریزاں ہے، کیوں عمران خان کو ملک میں انتشار، افراتفری اور فساد پھیلانے کی کھلی آزادی حاصل ہے۔ اس کیوں کا اب تک جواب نہیں مل رہا۔

خان صاحب چاہے کتنے ہی طاقتور، کتنے ہی مقبول شخص کیوں نہ ہوں وہ لیڈر اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک وہ ملک و قوم کے مفادات کو اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات سے بالاتر رکھیں۔ خان صاحب نے اپنی گرفتاری کے ناقابل ضمانت وارنٹ کے معاملات کو جس بھونڈے طریقے سے نمٹنے کی کوشش کی ہے اس نے ان کی لیڈرشپ کی صلاحیتوں پہ سوال کھڑے کر دیے ہیں، ان کی فہم و فراست کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے، ان کی جمہوریت پسندی کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے۔

خان صاحب نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہ تو قانون کا احترام کرنے والے سیاسی رہنما ہیں نہ ہی انہیں عدلیہ کی آزادی سے کوئی غرض ہے۔ خان صاحب قانون جو ان کی سہولت کاری کا سبب بنے وہ قانون لگتا ہے، انہیں وہ انصاف، انصاف لگتا ہے جو ان کی ہر بات کو درست مانے، دراصل عمران خان صاحب جمہوریت کا لبادہ اوڑھے پاکستان کی تاریخ کے پہلے بدترین فاشسٹ جماعت کے سربراہ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments