جوان موت


اللہ باری تعالیٰ کسی بھی ماں باپ کو اولاد کی موت یا دکھ نہ دکھائے۔ یہ ایک ایسا دکھ ہے جس سے میرے نبی کریم ﷺ کی آنکھیں مبارک بھی نم ہو گئیں تھیں۔ ماں باپ اولاد کے جنازے اٹھائیں اللہ تعالی یہ دن کسی بھی ماں باپ کو نہ دکھائیں آمین۔ علی بلال بوڑھے ماں باپ کا بیٹا کل لاہور میں سیاست کی نظر ہو گیا دل خون کے آنسو رویا۔ یاد رکھنا اولاد ماں باپ کی ہوتی ہے کسی سیاستدان کی نہیں۔

میں سارے ماں باپ کی اولاد کی خیر مانگتا ہوں۔ وہ اولاد میری ہو یا آپ کی ، عمران خان کی ہو یا آصف علی زرداری کی، وہ نواز شریف کی ہو یا فضل الرحمن کی اولاد تو اولاد ہوتی ہے۔ کچھ کم عقل دوسرے سیاستدانوں کو بد دعا دے رہے ہیں کہ تمھاری اولاد مرے گی تو احساس ہو گا۔

بطور والد میری روح ہل جاتی ہے جب کوئی نامعقول انسان اس طرح کی دعا کرتا ہے۔

اس درد کو سب سے زیادہ نصرت بھٹو صاحبہ نے دیکھا، شوہر، بیٹے اور پھر بیٹی سب ہی تو چلے گئے۔ پشاور سے اطلاعات کے وزیر تھے میاں افتخار حسین صاحب کا جوان سال بیٹا بم دھماکے میں شہید ہو گیا۔ بلور فیملی کے لوگ بھی دھماکوں میں شہید ہوئے، ڈاکٹر شیرافگن کا جوان بیٹا کار حادثے میں جان بحق ہو گیا۔ شیرپاؤ فیملی کی قربانیاں۔

سوچتا ہوں تو دل دہل جاتا ہے جب لوگ کسی کی اولاد کے لئے بددعا کرتے ہیں، اللہ کے واسطے رحم کیجئے، سیاسی وابستگی میں حد سے مت گزریے۔

میرے سامنے والے دو گھروں میں دو جوان بچے اللہ کی پیارے ہو گئے، تیمور جو یو فون کا افسر تھا، کا کینسر جان لیوا ثابت ہوا۔ کئی برس بیت گئے تیمور بھائی کی بیوی، بچوں، ماں، بہنوں سے آج تک میں نظریں چراتا ہوں کیونکہ ان کو دیکھتے ہی میری آنکھیں بھر آتی ہیں، ان کے ساتھ والے گھر میں آنٹی ثریا کا جوان سال بیٹا بھی طبعی طور پر فوت ہو گیا تھا ان سب سے بھی نظریں ملانے کی میری ہمت نہیں ہے سوچتا ہوں تو ہچکی بند جاتی ہے۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے سابقہ ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر مصطفی مندوخیل صاحب کا بھی جواں سال بیٹا قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گیا۔ میری تو کبھی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ میں مندوخیل صاحب کا سامنا کر سکوں بس نظر آ جائیں آنکھیں چھم چھم برسنا شروع ہوجاتی ہیں۔

شاید میری زندگی کا یہ کمزور پہلو ہے۔

آج سارا دن سوشل میڈیا پر ان لوگوں کو ان فرینڈ کیا جو سیاسی مخالفت میں دوسروں کے بیٹوں کے مرنے کی بددعا کر رہے تھے۔

سیاستدانوں کو خاص طور الیکشن کے قریب ہر جنازے میں شرکت کرتے دیکھا ہے۔ لیکن میاں اسلم جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ ہر جنازے شرکت کرتے ہیں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قبر بنانے والے ان کو اطلاع کر دیتے ہیں۔ اللہ ان کو ان کی نیکی کا، اجر عظیم عطا فرمائے آمین۔

کم ہی اسلام آباد میں جنازے دیکھے جن میں میاں اسلم صاحب موجود نہ ہوں۔

باقی سیاستدان نہ جا سکیں تو اپنی پارٹی کے لیڈروں کو شرکت کے لئے بھیج دیتے ہیں کچھ سیاستدانوں کو جنازوں پر شرکت کی اجازت نہیں ہے، وہ لواحقین کو گھر بلا کر دعا کر لیتے ہیں۔

مجھے یاد ہے جب میرے والد فوت ہوئے کچھ دن بعد میں دفتر گیا تو ایک ڈائریکٹر نے اپنے عملے سے کہا اظہر صاحب آئے ہیں آئیں ان کے والد کی دعا کرتے ہیں مجھے اچھا نہیں لگا کیونکہ میں ان کے دفتر گیا تھا۔ اگر وہ میرے گھر نہیں آسکتے تھے تو کم از کم میرے دفتر دعا کے لئے آسکتے تھے چلو کوئی بات نہیں کچھ لوگ عادت سے مجبور ہیں۔

لیکن اس سے لواحقین کی دل آزاری ہوتی ہے
سیاست ضرور کیجئے پر کوئی بھی سیاسی پارٹی برائے مہربانی لاشوں پر سیاست مت کرے۔

اللہ سب والدین کی اولاد کو سلامت رکھے آمین۔ اور بددعا دینے والے کم عقلوں کو ہدایت عطا فرمائے آمین۔ بے شک وہ ہی بہتر ہدایت دینے والے ہیں۔ کم ظرف کبھی بھی لیڈر نہیں ہو سکتا ۔ 1999 میں جھنگ میں آئل ٹینکر حادثے میں تقریباً 200 افراد ہلاک ہو گئے میں نے اپنی آنکھوں سے قاضی حسین احمد کو جنازہ پڑھاتے دیکھا۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو دوسروں کے جوان بیٹوں کی موت کی بددعا کرتے ہیں۔ یا باری تعالی آسانی کا معاملہ کر دیجئے آمین

 

محمد اظہر حفیظ
Latest posts by محمد اظہر حفیظ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments