اسلامو فوبیا – اسلام کا محاسبہ یورپ سے درگزر


اسلاموفوبیا لفظ ’اسلام‘ اور یونانی لفظ ”فوبیا“ (یعنی ڈر جانا) کا مجموعہ ہے۔ اس سے اسلامی تہذیب اور مسلمانوں سے ڈرنا مراد لیا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے خلاف زہر افشانی سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا۔ جس سے غیرمسلموں کے دلوں میں اسلام کا خوف پیدا ہو، اسے اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے۔

پاکستان اور او آئی سی کی کوششوں سے اسلاموفوبیا کو ایک جرم تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے ہر سال 15 مارچ کو ”اسلاموفوبیا ڈے“ منانے کی قرار داد منظور کی ہے۔

اسلامو فوبیا ایک ایسی اصطلاح ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے وضع ہوئی۔ اس کے استعمال کا آغاز فرانسیسی زبان میں 1910 ء جبکہ انگریزی زبان میں 1923 ء میں ہوا 9 / 11 کے بعد کثرت سے اس لفظ کا استعمال ہوا۔ اسلاموفوبیا کی وجہ سے مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔

برطانوی رائٹر رونیمیڈ ٹروسٹ کا موقف یہ ہے کہ:
»اسلام ایک بے حس و حرکت دین ہے جو ترقی و تبدیلی کو قبول نہیں کرتا۔
»اسلام اور دیگر ثقافتوں کے درمیان میں کوئی مشترک اقدار اور مقاصد نہیں ہیں۔ اس لئے وہ متاثر نہیں ہوتا بلکہ ان پراثر ڈالتا ہے۔
»اسلام سختی اور دشمنی سے متصف ہے جو خطرے میں ڈالتا، دہشت پسندوں کو مضبوط بناتا اور مختلف ثقافتوں سے لڑنے میں طاق ہے۔
»ایک ایسی سیاسی آئیڈیا لوجی جو سیاسی یا جنگی مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

26 ستمبر 2018 ء کو یورپی پارلیمان نے برسلز میں انسداد اسلاموفوبیا ٹول کٹ کا اجراء کیا اور مختلف حکومتوں، سماجی تنظیموں، میڈیا اور دیگر قانون بنانے والوں میں تقسیم کیا۔ اس اقدام کا مقصد اسلاموفوبیا سے لڑنا اور اس کے بڑھتے اثرات کو ختم کرنا تھا۔

اس وقت پوری دنیا میں عمومی اور مغربی ملکوں یورپ و امریکہ میں خصوصی طور پر اسلامو فوبیا کی لہر شدید سے شدید تر ہے، مسلمانوں سے امتیازی سلوک، اسلام کو بدنام کرنے، اس کی مقدس شخصیات و مقامات کی توہین اور اس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے واقعات مغرب میں معمول ہیں۔ اسلامو فوبیا کا اسیر تمام مسلمانوں سے جارحانہ رویہ رکھتا ہے، اور یقین رکھتا ہے کہ اسلام رواداری، مساوات اور جمہوریت کو یکسر مسترد کرتا ہے، اسلامو فوبیا کو نسل پرستی کی نئی شکل قرار دیا جاسکتا ہے، برطانیہ کے ایک ادارہ نے ایک رپورٹ (اسلاموفوبیا، ہم سب کے لئے ایک چیلنج ) کے عنوان سے جاری کی۔

اسی طرح ایک اور فالو اپ رپورٹ بعنوان“ اسلامو فوبیا ایشوز، چیلنجز اور ایکشن ”شائع کی، اس میں اسلاموفوبیا کے کچھ اجزاء وہی ہیں جو رونیمڈ نے بیان کیے ہیں اور کچھ درج ذیل ہیں ( 1 ) اسلام“ تہذیبوں کے تصادم ”کے نظریہ پر عمل پیرا ہے، جو دہشت گردی کو شہ دیتا ہے، ( 2 ) اسلام ایک غیر عقلی، جاہلانہ اور شہوت زدہ مذہب ہے ( 3 ) اسلام پر مغرب کی تنقید تسلیم نہیں کی جاتی ہے ( 4 ) اسلام کا معاندانہ و مخاصمانہ رویہ مسلمانوں کو معاشرہ سے الگ تھلگ رکھنے کا جواز ہے ( 5 ) مسلمانوں کے خلاف مخاصمت قدرتی یا معمول کا رد عمل ہے۔

اسلامو فوبیا اظہار خیال کی آزادی کے نام سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت محمد ﷺکے تضحیک آمیز خاکوں اور اکارٹونز شائع کرنا، اسلام کا مذاق اڑانے والے نام نہاد ادیبوں کی پذیرائی، اور انہیں انعامات و اکرامات عطا کر کے ”سر“ کے خطاب سے سرفراز کرنا، مغرب کا محبوب مشغلہ ہے، سلمان رشدی سے تسلیمہ نسرین تک کے کتنے ہی نام اس کا ثبوت ہیں۔ ہندوستان میں اسلاموفوبیا مہم چلانے والی جماعت بی جے پی نے دہشت گردی کے ہر دائرے کو پار کر دیا ہے۔

انڈیا میں مسلم مخالف تشدد اور دہشت گردی کی گئی، مساجد اور مزاروں کو نشانہ بنایا گیا، خواتین کی عزتیں لوٹیں گئی، اور مسلمانوں کے گھروں کو جلایا گیا، جس کی واضح مثال گجرات، آسام اور برما کے خون آشام مناظر ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ہوائی اڈوں، عدالتوں، تھانوں، اسکولوں، کالجز، کارپوریشنز اور ہسپتالوں وغیرہ میں امتیازی سلوک دیکھا جاسکتا ہے۔ عالمی سطح پر گوانتاناموبے اور ابو غریب کی جیلوں میں مسلمانوں کو ذہنی ذلت کا شکار بنایا گیا ہے ۔ اسلام مخالف فلمیں بنائی گئیں۔

تاریخ پر نظر ڈالیں تو جب مسلمان اپنے دور عروج میں تھے، مغرب میں اسلامو فوبیا اس وقت بھی شباب پر تھا۔ متعصب عیسائی پادری اور رہنما پورے یورپ میں گھوم گھوم کر اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے تھے اور انھیں بتاتے تھے کہ مسلمان ”محمد“ نام کے بت کی پوجا کرتے ہیں اور دیگر بے بنیاد تضحیک انگیز الزامات لگاتے تھے۔

صلیبی جنگیں انھی جھوٹے پروپیگنڈوں کی بنیاد پر مذہبی جوش و خروش سے لڑی گئیں۔ استشراق کی کلاسیکل تحریروں میں اس گمراہ کن پروپیگنڈے کی تفصیل موجود ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انتہا پسندی ہر سماج اور ہر مذہبی اکائی میں موجود ہے۔ جرمنی میں اس کا ظہور نیو نازی ازم تحریک میں ہوا ہے تو امریکہ میں ایونجلیکل فرقہ اس کی نمائندگی کرتا ہے۔ ڈنمارک، نیدرلینڈ اور انگلینڈ میں بعض سیاسی پارٹیاں لیڈر اور کئی مسیحی پادری قرآن جلانے کی مہم میں پیش پیش ہیں۔

کئی پادری اور خواتین ڈبیٹرز کی اسلام مخالف ہرزہ سرائیاں یوٹیوب پر سنی جا سکتی ہیں۔ 9 / 11 کے بعد امریکہ میں ایک اسلاموفوب گروپ نے Bomb The Caaba (کعبہ کو بم سے اڑادو) کا مکروہ نعرہ بھی لگایا۔ فرانس میں الٹرا سیکولر گروپوں اور حکومت کو مسلمان عورت کے حجاب (اسکارف ) سے ڈر لگتا ہے۔ ڈنمارک میں مساجد کے میناروں سے خوف آتا ہے۔ میں پیغمبر اسلام کے استہزائیہ کارٹون بناکراس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مفلس اور خانماں بربادشامی مہاجرین کی یورپ منتقلی سے بھی مغرب میں بعض لوگوں پر دہشت طاری ہے!

اس لے میں میڈیا کے بڑے بڑے گروپ، فرائیڈ مین جیسے اسرائیل نواز صحافی، جیری فالویل جیسے پادری، ڈینیل پائپس اور برنارڈلویس جیسے بڑے مستشرق سر میں سر ملائے ہوئے ہیں۔ فوکس نیوز، سی این این ، سی این بی سی کی رپورٹوں اور تجزیوں میں جانب داری جھلکتی ہے۔ ان کے اکثر اینکر اور رپورٹرز مسلمانوں اور عربوں سے عناد اور اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

اہانت رسول کے بد بختانہ واقعات، ملعون زمانہ کارٹون اور اسی قسم کے شوشے اسلاموفوبیا کا ضروری حصہ ہیں۔

پاکستان کی درخواست اور اسلامی تعاون تنظیم کی تین سال کی کوششوں کے بعد ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2022 ء میں ایک قرارداد کے ذریعے تنظیم کے کیلنڈر میں 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے مقابلے کے دن کے طور پر منانے کی منظوری دی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ 15 مارچ 2019 ء کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک مسلح شخص نے دو مساجد کے نمازیوں پر متعدد ہتھیاروں سے حملہ کر کے 51 افراد کو قتل کر دیا۔ یہ نیوزی لینڈ کی جدید تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام تھا۔

اگر یہ واقعہ عیسائیوں یا یہودیوں کے خلاف ہوتا تو اس کے تذکرے کے بغیر کوئی دن نہ گزرتا اور اس پر دستاویزی اور فکشن فلمیں بن چکی ہوتیں۔ لیکن مغرب اپنے ہاں اسلام دشمنی کے رجحان کو قبول کرنے کو بھی تیار نہیں۔ اور وہ آزادی اظہار کی آڑ میں اپنے ملک میں اسلام مخالف اقدامات کو چھپاتے ہیں۔ اقبال نے اسی لیے کہا تھا۔

باطل کی فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر!

مغرب تو جو کر رہا ہے سو اس نے کرنا ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ ہماری دینی و ملی قیادت بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے، قوم کی تربیت ان خطوط پر کرے کہ وہ قرآنی احکامات اور نبوی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں تاکہ ان کا طرزعمل اسلامو فوبیا کے پروپیگنڈے کے ازالے کا باعث بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments