چشماٹو


‎اوائل عمری میں ہی ہمیں عینک کا بوجھ اٹھانا پڑ گیا۔ ابھی میٹرک کا امتحان پاس کیا ہی تھا کہ دور کے مناظر دھندلانا شروع ہو گئے۔ عینک ساز سے رجوع کیا تو اس نے نظر کی عینک تجویز کی، اور وہ بھی ڈیڑھ نمبر کی۔ بادل نخواستہ آنکھیں دو سے چار کرنا پڑ گئیں۔ شروع شروع میں ایک عجیب سی جھجک اور دوستوں کی جگتوں کا خوف، عینک اور اس کے باقاعدہ استعمال میں حارج رہا۔ آخر کار جب پہلے دن عینک پہن کر سکول پہنچے تو مشٹنڈے ہم جماعتوں کو ٹھٹھا لگانے کا موقع مل گیا۔

بابر کرامت مجھے دیکھتے ہی ہانکا ”چشماٹو ای اوئے! چشماٹو ای اوئے“ اور ساتھ ہی زور زور سے قہقہے لگانے شروع کر دیے۔ اس کی اس دعوت عام پر باقی ہم جماعتوں نے بھی ”میر عالم“ بننے میں دیر نہ لگائی اور جگتوں کا طومار باندھ دیا۔ سلیم کھنڈے نے ایک آنکھ دباتے ہوئے جملہ کسا ”بھائی جی! اے کھوپے کیہڑے کوہلو توں چکے جے۔“ نثار بولا (بہرہ) کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔ اس نے اپنے دائیں ہاتھ کو مائیک کی شکل دی اور اپنے منہ کے قریب لاتے ہوئے لہک لہک کر گانا شروع کر دیا ”بھئی حافظ جی دی امداد کری جاؤ، بھئی حافظ جی دی امداد کری جاؤ“ ۔ الغرض جتنے منہ اتنی جگتیں۔ لیکن ہم بھی اپنی کلاس کے مانیٹر تھے اور کبھی کبھار استادوں کے ‎ تفویض کردہ اختیار سے تجاوز بھی کر جاتے تھے۔ اس دن پھر ہم نے انگریزی اور ریاضی کے پیریڈ میں ان تینوں نالائقوں کے ساتھ خاص طور پر حساب چکتا کیا۔ یہ صورت حال کچھ دن چلتی رہی۔ پھر آہستہ آہستہ ہماری جھجک بھی جاتی رہی اور ہمارے ہم جماعت بھی ہمیں عینک میں دیکھنے کے عادی ہو گئے۔

‎لڑکپن میں ہمیں ایک تو اپنے ننھیال کے راوی کنارے واقع گاؤں جانا بہت مرغوب تھا اور دوسرا اپنی پھوپھو کے گاؤں جانا۔ مؤخرالذکر گاؤں نارووال کے نواح میں واقع تھا۔ گاؤں کے شمال کی جانب کوئی دو کلومیٹر کے فاصلے پر مریدکے۔ نارووال روڈ گزرتا تھا اور جنوب کی طرف اتنی ہی فاصلے پر لاہور۔ نارووال ریلوے سکشن پڑتا تھا۔ گاؤں کا نام بھی بڑی رومانوی تھا۔ بالیاں۔ کسی گھنگریالے بالوں، سندوری مکھڑے اور گالوں میں ڈمپل لیے گاؤں کی گوری کے کانوں میں پڑی ہوئی بالیاں۔

‎اس گاؤں کے لیے کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے نہ صرف ”وٹو وٹی“ ہونا پڑتا تھا بلکہ اکثر اوقات جوتا بغل میں دینا اور شلوار ٹخنوں تک چڑھانا پڑتی تھی۔

‎ہم سارا سال منتظر رہتے تھے کہ کب گرمیوں کی چھٹیاں ہوں اور ہم اڑ کر پھوپھو کے گاؤں پہنچ جائیں۔ اس گاؤں میں اپنے ہم عمر پھوپھی زاد بھائیوں کے علاوہ بھی ہمارے لیے کشش تھی۔ قریباً پچاس گھروں پر مشتمل یہ گاؤں چاروں طرف سے سبزے میں گھرا ہوا تھا۔ جیسے دور کہیں گہرے سمندر میں کوئی چھوٹا سا جزیرہ اگ آئے۔ سب گھر مل کر ایک بڑے گھر کا منظر پیش کرتے تھے۔ امن و امان کے اعتبار سے یہ گاؤں مثالی تھی۔ چونکہ سب خاندان کئی پشتوں سے یہاں آباد تھے اور ایک دوسرے کی اوقات سے بخوبی آگاہ تھے لہذا لڑائی جھگڑے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی۔

‎یہ 1991ء کی گرمیوں کی چھٹیوں کی بات ہے۔ ہم اس وقت گیارہویں جماعت میں تھے اور بنے سوچے سمجھے ایف۔ ایس۔ سی پری میڈیکل کر رہے تھے۔ ہمارے ایک عینک ساز عزیز کو جب ہماری نظر کی کمزوری کی خبر ہوئی تو اس نے ہمارے لیے ایک ہلکی پھلکی اور آرام دہ عینک بنوا دی۔

‎ان دنوں مریدکے سے نارووال جانے کے لیے مریدکے سے بسیں چلتی تھیں۔ کرایہ ادا کرنے والی سواریوں کو بس کے اندر جگہ مل جاتی تھی لیکن ہمارے جیسے مفت خورے ”سٹوڈنٹس“ کو چھت کے اوپر چڑھا دیا جاتا تھا۔ اور پھر یہ ساٹھ ستر کلومیٹر کا سفر سڑک کنارے موجود کیکر کی شاخوں سے کبھی لیٹ کر ، کبھی دائیں جھک کر اور کبھی بائیں جھک کر ایسے ہی گزرا کرنا پڑتا جیسے میدان جنگ میں فائرنگ سے بچنے کی ترکیب کی جا رہی ہو اور ذرا سی غفلت جان لیوا ثابت ہو سکتی ہو۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ سفر ہمارا من بھاتا تھا۔

‎ایسے ہی پر خطر سفر کے بعد جب ہم مانک سٹاپ پر اترے تو سہ پہر کے کوئی چار بج رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح سٹاپ پر کوئی تانگہ یا دیگر سواری موجود نہ تھی۔ لہذا اللہ کا نام لیا اور اپنی ٹانگوں کے بل بوتے پر سفر کو چیلنج کر دیا۔ جب ہم عین بس سٹاپ اور بالیاں کے درمیان پہنچے تو احساس ہوا کہ ہماری عینک شاید کسی کیکر کی شاخ سے بچنے کی کوشش کی نذر ہو گئی ہے۔ دل ایک دم بجھ کر رہ گیا اور احساس زیاں نے قدم بوجھل کر دیے۔

خیر! مایوسی کے عالم میں سفر جاری رکھا۔ چلتے چلتے ہمارا منہ غروب ہوتے ہوئے سورج کی طرف ہو گیا اور دھوپ سیدھی ہمارے چہرے پر پڑنی شروع ہو گئی۔ ہمارے بالوں سے پسینے کے چند قطرے نکل کر ماتھے پر آ گئے۔ ہم نے پسینہ صاف کرنے کے لیے پینٹ کی جیب سے رومال نکالا اور ہاتھ ماتھے کی طرف بڑھادیا۔ لیکن یہ کیا، ہمارا ہاتھ چہرے پر موجود کسی سخت چیز سے ٹکرایا تھا۔ ہائیں! یہ کیا۔ ہماری گم شدہ عینک تو ہمارے چہرے پر موجود تھی۔ بس صاحبو! ہم وہیں رک گئے اور اس طرفہ تماشے پر کافی دیر تک ہنستے رہے۔ خود پہ ہنسنے کا بھی اپنا ہی لطف ہے۔ ہم سب زندگی میں کچھ نہ کچھ حماقتیں ضرور کرتے ہیں لیکن ہم ہنستے دوسروں کی حماقتوں پر ہی ہیں۔

جب خوب جی بھر کر ہنس لیے تو یک دم خیال آیا کہ کوئی ہمیں اس طرح اکیلے ہنستا دیکھ کر پاگل ہی نہ سمجھ بیٹھے۔ فوراً دائیں بائیں نظر دوڑائی، کسی کو آس پاس نہ پا کر سکھ کا سانس لیا اور باقی ماندہ سفر مکمل کرنے کے لیے چل پڑے۔

ان دنوں مجھے ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے مریدکے میں دن پورے چوبیس گھنٹے کا ، ہفتہ پورے سات دن کا اور مہینہ پورے اکتیس دنوں کا ہوتا تھا جبکہ پھوپھو کے گاؤں میں دن چند گھنٹوں کا ، ہفتہ ایک دن کا اور مہینہ ایک ہفتہ کے برابر ہو جاتا تھا۔ بس ایک ہفتے میں ہی پورا مہینہ گزر گیا اور ہمارا واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ بوجھل قدم، مغموم دل، ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ واپسی کا سفر اتنا ہی کٹھن تھا جتنا گھٹنوں آتی ریت میں پیدل چلنا۔

ہمارا اور ہماری عینک کا یہ ساتھ سولہ سال تک رہا۔ اس عرصہ میں عینک رنگ، روپ اور مختلف شکلیں تو بدلتی رہی لیکن ہم سے کبھی جدا نہیں ہوئی۔ گردش ایام 2006 ء میں ہمیں سیالکوٹ لے آئی۔ یہاں ہم بطور سب رجسٹرار تعینات ہوئے اور چند ہی مہینوں میں شہر بھر میں مقبول ہو گئے۔ بعض اہالیان سیالکوٹ کی نظر میں اب تک ضلع بھر میں سب سے اہم دفتر سب رجسٹرار کا ہے اور سب سے اہم افسر سب رجسٹرار ہے۔

سیالکوٹ ہمارے لیے شہر فیض ہے۔ بے پناہ محبتوں، شفقتوں اور پیار کا شہر۔ یہاں ہمارا جو بھی تعلق بنا وہ خدا کی عطا اور ہمارے لیے باعث رحمت و برکت ثابت ہوا۔ یہاں کے خاکروبوں سے لے کر بڑے بڑے کاروباری افراد ہمارے ساتھ ایک خلوص کی ڈوری میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہاں کا سارا سٹاف ہمیں آج تک اپنے گھر کے افراد کی طرح سمجھتا ہے اور ان کے لیے ہمارے جذبات چنداں مختلف نہیں ہیں۔

ہمارا تجزیہ ہے کہ ہر کلاس کی ایک ایلیٹ کلاس ہوتی ہے۔ جیسے نائب قاصدوں میں بھی کچھ لوگ نہایت شاندار کردار کے حامل ہوتے ہیں اور کلرکوں میں بھی۔ خاکروبوں میں بھی کچھ لوگ انتہا درجے کا احساس ذمہ داری لیے ہوتے ہیں اور ڈرائیوروں میں بھی۔ سیالکوٹ میں ایسے ہی دو شاندار افراد ہمیں بطور ڈرائیور میسر آئے۔ ان میں سے ایک کردار رفاقت شاہ کا تھا اور دوسرا صفدر شاہ کا ۔ شروع میں رفاقت شاہ نے ہمارے ساتھ بطور ڈرائیور فرائض سرانجام دیے تھے۔ پورے شہر میں ہم لوگ جدھر سے گزرتے تھے لوگ ہمیں سلام کرتے تھے۔ ہم اتنے کم عرصے میں اپنی شاندار مقبولیت پر خوش ہونے کے ساتھ ساتھ حیران بھی تھے۔ وہ تو بعد میں ڈاکٹر علی عمران سے گپ شپ کے دوران یہ عقدہ کھلا کہ لوگ ہماری بجائے رفاقت شاہ کو سلام کرتے تھے۔

ایک دن رفاقت شاہ اپنے ساتھ ایک بڑی شاندار شخصیت کو لے کر ہمارے کمرے میں آیا اور ان کا تعارف بطور ڈاکٹر کرایا۔ رفاقت شاہ نے بتایا کہ ڈاکٹر طارق صاحب سیالکوٹ شہر کے سب سے اچھے ماہر امراض چشم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی سادگی اور معصومیت ہمیں بہت پسند آئی اور بہت جلد ہماری ان کے ساتھ گہری دوستی ہو گئی۔

تعارف کے کچھ عرصہ بعد ہمیں نظر چیک کرانے کی حاجت محسوس ہوئی۔ ہم ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے آنکھوں کے تفصیلی معائنے کے بعد ایک خوش کن مشورہ دیا۔ کہنے لگے کہ اگر آپ لیزر سرجری کروا لیں تو آپ کو عینک سے نجات مل سکتی ہے۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق ہم فوراً ان کا مشورہ مان گئے۔ طے یہ پایا کہ اگلے جمعہ کے دن ڈاکٹر صاحب ہمیں اپنے ساتھ لاہور لے کر جائیں گے اور وہاں لیزر سے آنکھوں کی جراحی کا عمل سرانجام دیا جائے گا۔

حسب پروگرام ہم فیصل ٹاؤن لاہور میں واقع لیزر سرجری سنٹر پہنچے۔ سرجری سرجری ہی ہوتی ہے چاہے وہ لیزر سے ہو یا نشتر سے۔ لہذا ہم بھی اندر سے ڈرے ہوئے تھے۔ ہمارے ننھیال کا گھر یہاں سے چند ہی کلومیٹر دور تھا۔ اور ماموں عبدالستار کی موجودگی ہمارے لیے ہمیشہ باعث تقویت ثابت ہوتی تھی۔ ہم نے ماموں عبدالستار کو فون کیا اور ان سے سرجری کے وقت وہاں آنے کے لیے کہہ دیا۔

ڈاکٹر صاحب نے کوئی آدھے گھنٹے میں نہایت مہارت سے جراحی کا سارا عمل مکمل کیا، چند ماہ کے لیے ادویات اور آئی ڈراپس تجویز کیے اور ہمیں واپسی کی اجازت دے دی۔ ہم ماموں کے ہمراہ اپنے پاؤں پر چل کر گاڑی کے پاس پہنچے، دروازہ کھولا اور پھر ہمارا رابطہ اس دنیا سے منقطع ہو گیا۔

کوئی آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد جب ہمیں ہوش آیا تو خود کو ہسپتال کے بستر پر پایا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہم گاڑی کے دروازے پر ایک دم سے لڑکھڑا کر نیچے گرنے ہی والے تھے کہ ماموں اور ان کے ایک دوست نے ہمیں تھام لیا۔ ہمیں سٹریچر پر ڈال کر اندر لایا گیا اور بے ہوشی سے نکالنے کی ترکیب کی گئی۔

ہماری اس حالت پر سب لوگ حیران و پریشان تھے کیونکہ آنکھوں کی لیزر سرجری کے نتیجے میں کسی مریض کے بے ہوش ہونے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ اور پوری زندگی میں بے ہوش ہونے کا یہ ہمارا بھی پہلا اور آخری موقع تھا۔ جب ہم بے ہوش تھے تو ہم کہیں بھی موجود نہیں تھے۔ ابسولوٹلی بلینک۔ جیسے ہم اپنی تخلیق کے مرحلے سے پہلے کہیں نہیں تھے۔ ہمیں کبھی کبھی لگتا ہے کہ شاید آخری سانس کے بعد بھی ایسا ہی ہو گا۔ ابسولوٹلی بلینک۔ ہمیں یہ بھی لگتا ہے کہ وہ وقت سکون کا ہو گا، شانتی کا ہو گا، امن اور چین کا ہو گا، نہ کوئی دکھ ہو گا اور نہ کوئی تکلیف ہوگی۔ بالکل ابسولوٹلی بلینک پیریڈ کی طرح۔

ڈاکٹر صاحب کا ہماری اس کیفیت پر پریشان ہونا قدرتی امر تھا۔ وہ مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے خون کے ساتھ ساتھ اعضائے رئیسہ کی مختلف ٹیسٹ کروانے پر مصر تھے۔ لیکن ہم نے ان کی یہ پریشانی چٹکی بجا کر حل کردی۔ ہوا دراصل یہ کہ ان دنوں ہمارے سر پر وزن کم کرنے کا بھوت سوار تھا اور ہم ایک سخت قسم کے ڈائٹ پلان پر عمل پیرا تھے۔ اس ڈائٹ پلان کے مطابق ہم صبح نیم گرم پانی کے ایک کپ میں ایک چمچ شہد ملا کر پیتے تھے۔

اور سرجری والے دن ہم یہ ایک کپ پانی پینا بھی بھول گئے تھے اور خالی پیٹ سرجری کروانے چلے آئے تھے۔ دوران سرجری تو لوکل انیستھیزیا کہ وجہ سے جسم کو تکلیف کا احساس نہیں ہوا لیکن جیسے ہی انیستھیزیا کے اثرات ختم ہونے شروع ہوئے ہمارا جسم سرجری کی تکلیف کو برداشت نہیں کر پایا اور ہم وجود سے عدم وجود کے سفر پر روانہ ہو گئے۔

بعد ازاں لیزر سرجری کا یہ تجربہ ہماری زندگی کا ایک خوشگوار باب ثابت ہوا۔ سرجری کے نتیجے میں ہماری نظر پوری طرح بحال ہو گئی۔ لوگوں کے چہرے زیادہ بارونق اور کائنات زیادہ رنگین لگنے لگی۔ جیسے دھند اتر جانے کے بعد کسی روشن دن میں ہر چیز اجلی اجلی اور روشن روشن ہو گئی ہو۔ ہم نے جدید سائنس اور ڈاکٹر طارق صاحب کی مسیحائی کی بدولت دنیا کو پندرہ سال تک بغیر عینک کے دیکھا۔

سرجری کروا کر ہم واپس سیالکوٹ لوٹ آئے۔ اگلے دن جب ہم تیار ہو کر بغیر عینک کے دفتر روانہ ہونے لگے تو ہمارے کچن کا مالک جاوید بھی ہماری عینک ہاتھ میں لیے ہمارے پیچھے لپکا۔ ”سر جی اج عینک گھر ای پل چلے او؟“ ”او نہیں یار ہن ایدھی ضرورت نہیں رہی، کسے ضرورت مند نوں دے دے۔ شام کو جب ہم دفتر سے لوٹے تو بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑی عینک منہ بسورتے ہوئے بول اٹھی“ میں نے سنا تو تھا انسان فطرتاً بے وفا ہے، آج ثابت ہو گیا۔

مجھے اس طرح اپنی زندگی سے مت نکالو، ہو سکتا ہے کل کلاں پھر سے میری ضرورت پڑ جائے۔ میں طنزیہ مسکراتے ہوئے بڑبڑایا ”جانے دو بی بی، پہلے ہی بڑی مشکل سے جان چھوٹی ہے تم سے۔ “ اور میں نے عینک بی بی کو اپنے دفتر کے ایک ضرورت مند اہلکار کے سپرد کر دیا۔ پچھلے سال پھر سے منظر دھندلانے شروع ہو گئے۔ پھر سے اپنے مسیحا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسیحائی کی استدعا کی۔ مسیحا نے تفصیلی معائنے کے بعد فرمایا کہ اب کی بار مناظر کا دھندلانا بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات کی وجہ سے ہے اور سرجری سے خاطر خواہ بہتری کے امکانات بہت کم ہیں۔ لہذا دنیا کو پھر سے اپنے اصلی رنگ میں دیکھنے کے لیے عینک کا استعمال ہی بہتر حل ہے۔

ہم ڈاکٹر صاحب کو کیا بتاتے کہ گزرے وقت نے ہماری بصارت کو تو کمزور کر دیا تھا لیکن ہماری بصیرت کو توانا کر دیا تھا جس سے ہم دنیا کو اس کے ”اصلی رنگ“ میں اب بہتر طور پر دیکھ سکتے تھے۔

بحر کیف، ڈاکٹر صاحب کے مشورے کے مطابق ہم نے کل پھر سے عینک بنوا لی ہے۔ اب کی بار جب ہم نے عینک کو اپنے ہاتھ میں لیا تو اس بار ہماری بجائے اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ ”میں نے کہا تھا نا کہ مجھے اپنی زندگی سے اس طرح مت نکالو، ہو سکتا ہے کل کو پھر سے میری ضرورت پڑ جائے۔“ ہم نے مسکراتے ہوئے عینک بی بی کو سر آنکھوں پر بٹھا لیا۔ وہ مسکرا اٹھی اور اس کی مسکان کے ساتھ ہی دنیا پھر سے اجلی اجلی اور روشن روشن ہو گئی۔

تو جناب اس سارے قصے کا لب لباب یہ ہے کہ ہم پھر سے ”چشماٹو“ ہو گئے ہیں لیکن اب کی بار ہمارے کان ترس رہے ہیں کہ کاش کسی کونے سے بابر کرامت پکار اٹھے ”اوئے چشماٹو ای اوئے، کاش کہیں سے میرے کانوں میں سلیم کھنڈے کی آواز پڑے“ پائی جی، کھوپے کیہڑے کوہلو توں چکے جے ”، کاش نثار بولا ہی کہیں سے آواز لگا دے“ بھئی حافظ جی دی امداد کری جاؤ ”۔ میں قسم کھا کر یقین دلاتا ہوں کہ اب کی بار میں اپنے“ مانیٹر ”ہونے کا فائدہ نہیں اٹھاؤں گا اور انہیں سزا دینے کی بجائے سینے سے لگا لوں گا۔ اے کاش کوئی تو پکارے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments