عمران خان نے نسلیں گمراہ و بدتمیز کر دی ہیں


پارس جان اپنی کتاب ”لبرل ازم پر مارکسی تنقید“ میں لکھتا ہے ( تھوڑی ترمیم کے ساتھ )

” یہ درست ہے کہ انسانی شعور واقعات کے پیچھے پیچھے چلتا ہے مگر درست نتائج اخذ کرنے کی نا اہلیت کے باعث ہم بعض اوقات مختلف قسم کے پروپیگنڈا کا بہ آسانی شکار ہو جاتے ہیں“ مگر میں یہاں چند ”آپ بیتے“ واقعات ذکر کر رہا ہوں جن کے نتائج میں نے میرے مطابق اخذ کیے ہیں۔ آپ اگر ان واقعات سے کچھ مختلف نتائج اخذ کرتے ہیں تو یقیناً آپ اس کا حق رکھتے ہیں۔

آج سے چند ماہ پیشتر جب خان کی حکومت اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی تھی اور سوشل میڈیا پر میں عمران خان اینڈ ”کمپنی“ پر تنقیدی پوسٹس کر رہا تھا۔

بالخصوص ٹویٹر اور فیس بک پر خان کے ٹائیگرز کی گلوچیانہ یلغار ہو رہی تھی۔ بابا کوڈا اپنے عین عروج پر تھا اور اس کے فیض یافتہ پیروکار اپنی توپوں سے غلاظت اگل رہے تھے۔ کیچڑ کیچڑ کھیلنا مجھے پسند نہیں لہذا میری بلاک لسٹ بڑھتی جا رہی تھی۔ معمولی سی تنقید پر ننگی گالیوں پر مشتمل کمنٹ آتے اور نتیجتاً میرے قلم کی کاٹ بھی بڑھتی گئی۔ کبھی کبھار انہیں کاؤنٹر کرنے کے لئے میں نے بھی جزوی حد پھلانگی ہوگی مگر یقین مانیے کبھی اخلاق سے حد درجہ گری ہوئی تحریر بھی جوابی وار کے طور پر نہیں لکھی۔

تب ایک دن میرے ایک بھتیجے نے انتہائی سنجیدہ لہجے اور درشت الفاظ میں مجھے کہا کہ چاچو! خان کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں ہوگی اور مجھے فیس بک پر بلاک کر دیا۔ بعد ازاں اس سے چھوٹے نے بھی ایسا ہی کیا

انہی دنوں میں میرے دوسرے بڑے بھائی کے انتہائی مؤدب اطوار بیٹے نے ملتان سے مجھے فون کیا اور کچھ تلخ انداز سے مجھے متنبہ کیا کہ چاچو اگر آپ نے خان کی بابت کوئی بھی بات کی تو وہ ناقابل برداشت ہوگی۔ پہلے تو میں کافی حیران ہوا کہ اسے اچانک کیا ہو گیا ہے پھر اس کی کافی اچھی جھاڑ پھونک کر دی مگر اس کا لہجہ بھی کافی بد تمیزانہ ہوتا گیا۔ خیر میں نے کال کاٹی اور اسے فیس بک سے بلاک کر دیا۔ موصوف وٹس ایپ میں آن وارد ہوئے اور دلیل و دلیل کرتے ہوئے وہی سارے ”چور، غدار، کرپٹ“ کی بونگیاں پھینکنے لگے اور یہ کہ عمران خان کو اللہ سب کچھ دے چکا ہے اور عمران خان ہمیں شعور دے چکا ہے۔ انداز اب بھی گستاخانہ ہی تھا میں نے یہاں سے بھی بلاک کر دیا۔

ان ہی دنوں کی بات ہے میرے ایک سے زائد بہترین دوستوں سے آمنے سامنے اچھی خاصی سے بھی ذرا زیادہ تو تو میں میں ہو گئی اور بعد ازاں تعلقات میں سرد مہری بھی پیدا ہو گئی۔

میں کافی عرصے سے پانچ چار سرکاری وٹس ایپ گروپس میں ایڈ ہوں جہاں کافی عرصے سے ہی تا امروز ڈھکے چھپے لفظوں میں اسلامی صدارتی نظام کے فضائل اور خان صاحب کے حق میں جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف تحاریر، وڈیوز پوسٹ ہوتی ہیں۔

گزشتہ چند سال کے دوران فیس بک پر خوبصورت ناموں سے بہت سارے بلکہ سینکڑوں پیجز بنے جو اسلامی صدارتی نظام جمہوریت کو ہی آخری حل کے طور پر پیش کرتے رہتے تھے۔

میں دو عدد مذہبی سیاسی جماعتوں کے گروپس میں بھی ایڈ تھا۔ وہاں تو صورتحال کچھ زیادہ ہی نرالی تھی۔ جو تحاریر شیئر ہوتیں ان کے مصنفین کے قلمی نام سفید پوش، فرشتے، نقاب پوش، جانثار، ادنیٰ سپاہی، انوکھا سپاہی، مارخور مجاہد، کفن بردوش اور اسی قسم کے ہوتے تھے جنہیں میں بوقت حوالہ ٹنڈا سپاہی، لنگڑے فرشتے اور کفن چور کہتا تھا۔

ان تحاریر کا انداز تحریر کافی حد تک ملتا جلتا تھا۔ اکثر اوقات ان مذہبی گروپس میں شیئر کردہ تحاریر سرکاری گروپس میں بھی پوسٹ ہو جاتی تھیں۔ ان میں سے ایک سابقہ کالعدم جہادی اور موجودہ مذہبی سیاسی جماعت کے کچھ اعلیٰ سطحی کارکنان کے ساتھ میری دوستی اور رشتہ داری بھی ہے۔ جو کل تک کوکا کولا اور پیپسی کو حرام کہتے تھے اور کسی دور میں ٹی وی توڑ مہم کے سرخیل تھے اور جمہوریت کو عین کفر قرار دیتے تھے۔

اس جماعت کے لاکھوں کارکن باوجود اس کے کہ دوسری مرتبہ خود الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں عمران خان کو ووٹ دیتے ہیں اور اس کے وہ وہ مناقب اور فضائل بیان کرتے ہیں کہ گویا وہ موجودہ دور کا مجتہد و سید الاولیاء ہو۔

یقین کیجئے کہ عمران خان کے خلاف معمولی تنقید پر وہ کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں اور ناقابل اشاعت گالیاں نوازنے سے بھی ہرگز نہیں کتراتے۔

گزشتہ شام کو دو بھتیجیاں میرے پاس آئیں۔ کتب بینی کے موضوع سے گفتگو شروع ہوئی، تاریخ اور پھر سیاست تک بات آئی ہی تھی کہ 15 / 16 سالہ بچی نے اچانک تیور بدلتے ہوئے کہا کہ چاچو! میں عمران خان کے خلاف کوئی معمولی بات بھی نہیں سن سکتی اور نہ ہی سننا چاہتی ہوں۔

سوشل میڈیا پر میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ باقی سیاسی پارٹیوں کے جملہ کارکنان تمیز دار ہیں۔ یقیناً ان میں بھی کافی میں عدم برداشت، بدتمیزی، بد گفتاری، گالم گلوچ وغیرہ کا عنصر موجود ہے مگر عمران خان کے پیروکار تو ان معاملات میں ہر حد پھلانگ جاتے ہیں۔ ایسا میرا مشاہدہ ہے۔

اچھا اپنے ذاتی مشاہدات میں سے میں نے اکا دکا واقعات یہاں پیش کیے ہیں مگر اپنے ارد گرد کے لوگوں سے بھی بارہا اسی قسم کے بے شمار واقعات سن چکا ہوں۔

ٹھیٹھ مذہبی اور نیم مذہبی، لبرل و سیکولر، پڑھے لکھے اور ان پڑھ ہر قسم کے لوگ خان پر معمولی قسم کی تنقید پر بھی آپے سے باہر ہوتے دیکھے ہیں۔ میں بچوں، نو عمروں اور نوجوانوں کا اپنے والدین اور بزرگوں سے مختلف نقطۂ نظر اور اختلاف رائے کے حق کا بھرپور حامی ہوں مگر میں نے ان میں سے بیشتر کو بدتمیزی اور گستاخی کی حد تک جاتے دیکھا ہے۔ میں نے اس قسم کی بذریعہ ہمہ قسمی ”پروپیگنڈا برین واشنگ“ پہلی بار اس قدر شدت سے محسوس کی ہے۔

میرے ناقص تجزیے کے مطابق اس پروپیگنڈے، برین واشنگ اور گناہ میں ریاست کے جملہ ستون بھرپور انداز سے ملوث رہے ہیں۔ ان کا اسلامی صدارتی نظام کا دس سالہ پروگرام مٹی میں مل چکا ہے اور پہلے سے ہی فرسٹریٹڈ قوم کے ساتھ ساتھ خالقین بھی فرسٹریشن کا شکار ہیں۔

یقین کیجئیے کہ ہم تو اس کے بھیانک نتائج بھگت رہے ہیں مگر بھگتنا انہیں بھی شاید ہماری نسبت زیادہ پڑے گا جو اس کے حقیقی ذمہ دار ہیں کہ شعور کے قحط زدہ معاشروں میں نفسیاتی طور پر صحت مند نسل پروان نہیں چڑھ سکتی اور عمران خان نے نسلیں گمراہ و بدتمیز کر دی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments