مجھے عمران خان ہی کیوں اتنا ناپسند ہے


یہ سوال ویسے کرنا تو نہیں چاہیے کہ ہر شخص کی ذاتی پسند ناپسند ہوا کرتی ہے اور آپ کو یہ جمہوری حق حاصل ہے کہ آپ اپنے پسندیدہ امیدوار کا چناؤ کر سکیں، یہی جمہوریت ہے حتی کہ ایک عورت کسی مرد سے صرف اس بنا پہ خلع لے سکتی ہے کہ ”تیری بوتھی مینوں پسند نہیں“ ہر لکھنے والے کی بھی ایک پسند ناپسند ہوتی ہے مگر ہم لکھنے والوں کی ذمہ داری دہری ہوتی ہے کہ ہم نے حالات کا اپنی عقل و فہم اور سیاسی بصیرت سے ایماندارانہ تجزیہ کر کے ذہن سازی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے اور اپنی ذاتی پسند ناپسند سے اوپر اٹھنا ہوتا ہے۔

تو ایسے حالات میں سوال تو بنتا ہے، ایسے وقت میں تو خاص طور پہ اٹھتا ہے جب موجودہ حکومت کی کارکردگی بہت ہی مایوس کن ہے، گو کہ مجھے یہ ادراک بھی ہے کہ عمران خان کے ترجمان شیخ رشید نے ببانگ دہل اعتراف کیا تھا کہ ہم ان کے لیے بارودی سرنگیں بچھا کر جا رہے ہیں، یہ سوچے اور احساس کیے بغیر کہ ان بارودی سرنگوں کی زد میں ہم جیسے عوام چوہوں کی طرح مارے جائیں گے مگر شاید ہم مرنے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ ان تمام سور نما حکمرانوں کے لئے جو ہمارے کھیت اجاڑتے ہیں اور ہم ان کی پرستش کرتے ہیں جب تک ہم اپنی پسند کے بت کی پرستش کرتے رہیں گے اور ان کے سب قصور معاف کر کے انہیں اپنے کھیت اجاڑنے دیں گے ہمارے ساتھ یہی ہو گا۔

بات ہو رہی تھی پی ڈی ایم کی ناقص کارکردگی کی، یہ جانتے تھے کہ بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں اگر اہلیت نہیں تھی ان سے بچنے کی تو نہ سنبھالتے حکومت پھر بہت سا وقت اسحاق اور مفتاح کی لڑائی نے برباد کر دیا یعنی مجموعی طور پہ ناقص کارکردگی رہی تو پھر میری نظر میں صرف عمران ہی کیوں معتوب ہے جبکہ الزامات کا تقابل کیجیے تو اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔

اگر زرداری و نواز شریف پہ کرپشن کے الزامات ہیں تو عمران کے دور میں آٹا، چینی سکینڈلز، فرح گوگی سے منسلک ہوشربا انکشافات، توشہ خانہ و دیگر مالی بے ضابطگیاں ہیں جن کی فہرست طویل ہے اور جو بچے بچے کی زبان پہ زد عام ہے۔

اس کی ناپسندیدگی کی وجہ اس کی جنسی بے ضابطگیاں، بے راہ روی بھی نہیں ہیں، اس کی مبینہ ناجائز اولاد ٹیریان وائٹ بھی نہیں۔
کیونکہ میں جانتی ہوں یہ سب بگڑے شہزادے ہی ہوتے ہیں ان کو سیاسی عمل سدھارتا اور سدھاتا ہے ورنہ اکثریت یہی کچھ کرتی ہے۔
اس کو شدید ناپسند کرنے کی وجہ اس کا سوشل میڈیا پر نشئی مشہور کیا جانا بھی نہیں ہے۔

اس کو ناپسند کرنے کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ وہ فوجی نرسری میں اگایا گیا کیونکہ مارشل لاء کی ظلمت اس ملک کے آسمان پہ اندھیرے کی طرح چھائی رہی تو یہ ممکن نہیں تھا کہ سیاستدان فوجی راہداریوں سے گزر کر نہ آتے۔

تو پھر آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس سے اس قدر بدظن اور نا امید ہونے کی کیا وجہ ہے؟

وجہ یہ ہے کہ میں اسے سیاستدان ہی تسلیم نہیں کرتی۔ جی ہاں عمران خان سیاستدان نہیں ہے۔
وہ سیاسی فہم و بصیرت سے عاری ایک احمق، متکبر، فاشسٹ اپروچ اور اقتدار کے حصول کے لیے ہر انتہا کو چھونے والا شخص ہے۔

اس کی انتہا ہر سیاسی اور ریاستی ادارے کا انہدام ہے۔
آج پارلیمنٹ بے توقیر و بے حیثیت ہے۔
آج عدلیہ منقسم، منتشر اور عمران کا بھونپو بن چکی ہے۔
آج میڈیا جتنا بے توقیر ہے اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔
اور آج فوج جیسا ادارہ بھی منقسم ہے اور جس کی مثال بھی پہلے نہیں ملتی۔

گو کہ فوج کی اس تقسیم میں اکیلا عمران گناہ گار نہیں فوج نے گلی کے ایک پلے بوائے، ایک کھلاڑی کو اٹھایا منتخب کیا، گدھوں کے فارم میں اس کی پرورش و ناز برداری کی اور سارے ریاستی ہتھکنڈے اور پتے اس کو اقتدار اور قوت دینے کے لیے جھونک دیے، سوشل میڈیا، یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز، پیڈ سلیبریٹییز، ریٹائرڈ آرمی افسر ز، مذہبی حلقے غرض دشت تو دشت صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے۔ اور نتیجہ کیا ہوا۔ نتیجہ سامنے ہے لانے والے جان گئے کہ اس کے ہوتے ہمارا راشن پانی بند ہو جائے گا اور وہ پیچھے ہٹ گئے اور اب ان کا گدھا صرف انہیں ہی نہیں ہر کسی کو دولتی جھاڑ رہا ہے۔

آج ہر ریاستی ادارہ منقسم و منتشر ہے۔ کیوں؟ صرف عمران کی ہوس اقتدار کی وجہ سے۔

اس کا دور حکومت بھی اس بات کا آئینہ دار تھا کہ کوئی نہ بچے، کوئی نہ جانے پائے، کوئی نہ بولے، پیس دو، رگڑ دو، یعنی سونجھاں ہو جان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔

اس نے دوران حکومت بھی حکومت کرنے کی بجائے انتقام اور ”اوئے نواز شریف“ کی پالیسی اپنائے رکھی جس نے سیاست کو رنڈی بازار بنا دیا، تماشے ہوئے پہلے بھی نواز اور بے نظیر کے بیچ مگر جو رواج اور غلاظت کا طومار عمران نے باندھا اس کا سہرا بھی ہمیشہ اس کے سر بندھے گا کہ سہرا باندھنے کا شوق بھی اسے بہت ہے۔

اور آج وہ جب حکومت کے ایوانوں سے باہر ہے، مان لیجیے عمران کا بیانیہ کہ سازش ہوئی مگر جو ہوا آئین کے مطابق آئینی طریقے سے ہوا تو وہ ہوس اقتدار میں مسلسل ملک کے ہر ادارے کو منتشر، مقسم کر رہا ہے وہ اقتدار کے لیے ہر انتہا سے گزر جانے کو تیار ہے سوائے سیاسی عمل و مفاہمت اور صبر و سکون سے سیاسی استحکام کی ترویج کے۔

کیا آپ کو اس بات میں کوئی شک ہے کہ معیشت کا پہیہ سیاسی استحکام پہ کھڑا ہوتا ہے؟ میں فیصل آباد جیسے انڈسٹریلسٹ شہر سے تعلق رکھتی ہوں، میرا شوہر ایک انڈسٹریلسٹ ہے پڑھا لکھا آدمی ہے مگر آپ اس شہر کے کسی ان پڑھ تاجر یا دکان دار سے پوچھئے وہ آپ کو بتادے گا کہ سیاسی عدم استحکام معیشت کو کیسے کھا گیا ہے؟

میرے نزدیک عمران خان کا سب سے بڑا جرم دولے شاہ کے چوہوں کی پروموشن ہے اس نے ایسے گروہ کو جنم دیا ہے جو اسے پیغمبر، ولی، اوتار اور قائد اعظم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔

میرے نزدیک اس سے نفرت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے اقتدار کی جنگ کو معرکہ حق و باطل بنا دیا ہے، اس نے مجھ جیسے لوگوں سے میرے چناؤ، انتخاب اور اختلاف کا حق چھین کر ہمیں غدار، بکاؤ، اور کافر بنا دیا ہے۔

مجھے وہ اس لیے بھی ناپسند ہے کہ وہ جب سے آیا ہے ہمیں سکون کا سانس نصیب نہیں ہوا، سیاسی عدم استحکام اعصاب کو ختم کر رہا ہے، مسلسل انتشار اور انتشار اور ہنگامہ آرائی کسی سیاستدان کا مزاج نہیں ہوا کرتا، یہ کسی ضدی بچے کا مزاج ہوتا ہے جو کھلونا نہ ملنے پہ اسے توڑ دیتا ہے۔

اس نے آخری حربے کے طور پہ صوبائی اور لسانی بنیادوں پہ عوام کو تقسیم کر دیا ہے۔
وہ سیاسی لیڈر کے طور پہ نہیں ایک کلٹ، ایک عذاب الہی اور متشدد و منتقم مزاج کے طور پہ ابھرا ہے زمان پارک بار بار نائن زیرو اور لال مسجد کی یاد دلاتا ہے۔

اور حرف آخر کے طور پہ اگر عمران خان کے پاس عوام کی اتنی بڑی اکثریت ہے، اتنا بڑا ووٹ بینک ہے تو وہ کیا وجہ ہے جو اسے نچلا نہیں بیٹھنے دے رہی، کیا اسے ڈر اور خوف ہے کہ سال چھ مہینے بعد ہونے والے الیکشنز میں یہ ووٹ بینک کہیں ہوا میں تحلیل ہو جائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments