تاریخ اور معاشرتی علوم کی تاریخ


حجاج بن یوسف بنی امیہ کا نامی گرامی گورنر رہا۔ 20 سال تک پورے عراق اور آس پاس کے علاقوں کا مختار کل رہا۔ اس کی سب سے بڑی خوبی کہیں یا خامی وہ اپنے مالکوں یعنی بنی امیہ کا خطرناک حد تک وفادار تھا۔ اس کا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا تھا۔ مخالف آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیتا اور اس کے لئے وہی کلیہ استعمال کرتا تھا جو ہر جابر ظالم اپنے ظلم کے اوپر بطور ڈھال استعمال کرتا آیا ہے یعنی مذہب کا چورن۔

وہ اپنی مخالفت اور اس دور کے حکمرانوں کی مخالفت اور ان پر تنقید کو گستاخی خدا کا لباس پہنا کر کچھ نام نہاد ملاں بکاؤ مذہبی شخصیت کو ساتھ ملا کر اپنے ظلم کا مذہبی جواز کا چولا پہنا لیتا تھا۔ اس کے دور ایک لاکھ کے قریب قیدی بغیر چھت کے قید خانوں میں قید تھی ان میں ایک تہائی کے قریب خواتین تھیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سورج کی روشنی کی وجہ سے قیدیوں کا جسم پھٹ جاتا تھا۔

صحابی رسول عبداللہ بن زبیر کے ساتھ جنگ میں حجاج نے مکہ مکرمہ پر اس زمانے کے حساب سے گولہ باری کی اور جب عبداللہ شہید ہو گئے تو دیوار کعبہ پے ان کے بے جان جسم کو باندھ دیا۔ وہ ڈنڈے کا استعمال زیادہ کرتا تھا۔ جزیہ جو ہمیشہ مسلم حکومت کی طرف سے غیر مسلموں سے لیا جاتا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں لوگ جوق در جوق مسلمان ہو رہے تھے۔ اور جزیہ دینے والے کم ہوتے جا رہے تھے حجاج نے اس کا یہ حل نکالا کہ نو مسلموں سے کچھ عرصہ تک جزیہ لیا جائے تاکہ ملکی آمدن میں کمی نہ ہو اور نو مسلموں کو ٹھوک بجا کر دیکھا جائے کہ وہ پکے مسلمان بنے ہیں کہ نہیں۔

حجاج بن یوسف کی یہ پالیسی کی ٹھوک بجا کے تصدیق کرنا کہ وہ ایک نمبر اور درست عقیدہ مسلمان ہیں ماشاءاللہ آج تک جاری ساری ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بزرگ سے حجاج نے کہا کہ مجھے کچھ نصیحت کریں۔ تو بزرگ نے ڈرتے ڈرتے ایک نصیحت نما گزارش کی کہ بزرگو! زیادہ دیر سویا کریں حجاج نے خوش ہو کر کہا یہ تو اچھی بات ہے آپ میرے آرام کے لئے کہہ رہے ہیں حالانکہ راوی فرماتے ہیں کہ بزرگ کا مطمح نظر حجاج کا آرام نہیں بلکہ اس کے سونے سے جو وقت لوگوں کا سکون کا گزرنا تھا وہ پیش نظر تھا واللہ اعلم

کہتے ہیں عباسی خلیفہ ہارون کے دور میں بھی ایک صوبہ کا گورنر حجاج بن یوسف جیسی نابغہ روزگار ہستی تھی۔ ہارون رشید کو بھی ایک بزرگ نے جان کی امان والا تیر بہدف والا جملہ کہنے بعد گزارش کی تھی کہ عالی جاہ گورنر بہت ہتھ چک ہے۔ تبدیل فرما دیں۔ تو راوی کہتے ہیں ہارون نے غصہ میں کہا اتنا نیک پرہیز گار۔ خدا ترس اور متقی گورنر دیا ہے آپ اس کی ذات سے فائدہ اٹھائیں بزرگ بھی شاید ہمارے استاد وسعت اللہ خان جیسا تھا کہنے لگا۔ عالی جاہ اتنا اچھا اور آئیڈیل گورنر ہمارے صوبے کو اپنی خدمات سے حتی الامکان مستفید فرما چکے ہیں اب دوسرے مسلمان بھی محترم گورنر کی خدمات سے محروم نہ ہوں۔ ہارون رشید نے گورنر کا تو ہنستے ہنستے تبادلہ کر دیا لیکن بزرگ کا بعد میں کیا ہوا ہمیشہ کی طرح تاریخ خاموش ہے۔

معاشرتی علوم کی کتابوں میں چونکہ مندرجہ بالا تاریخ یا اس طرح باتیں لکھنے سے بچوں کی ذہنوں کی درست آبیاری نہیں ہوتی بلکہ وہ اور زیادہ سوال و جوابات کرنے لگتے ہیں اور تاریخ کی کتابیں پڑھنے اور سچ جھوٹ کے پردے واضح ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس سب خرافات سے بچنے کے لیے ہمیں اور آپ کو ہمیشہ پڑھایا جاتا ہے کہ

راجہ داہر کے علاقے میں بحری قزاقوں (تاریخ میں نہیں لکھا ہوا کہ راجہ داہر کا اس ڈکیتی سے کوئی بھی تعلق تھا) نے مسلمانوں کے ایک تجارتی بیڑے کو لوٹ لیا اور ان میں موجود ایک مسلمان بہن نے وہاں سے آواز دی جیسے بہار بیگم سلطان راہی مرحوم کو آواز دیتی تھی اور سلطان راہی پلک جھپکتے موقع واردات پر پہنچ جاتی تھے۔ بہرحال حجاج بن یوسف کی راتوں کی نیند اور دن کا چین ختم ہو گیا کہ میری مسلمان بہن قزاقوں کی قید میں ہے (وہ جو 30 ہزار کے قریب خواتین اس کی اپنی بے چھت کی قید میں تھے اس میں حجاج کی بے چینی کا ذکر بالکل نہیں ملتا)

محمد بن قاسم نے مختصر سی فوج لے کر حملہ کر دیا آپ سوچ رہیں ہوں گے محمد بن قاسم نے ان بحری قزاقوں پر حملہ کیا ہو گا جن کے قبضے میں مسلمان تاجر ان کا سامان اور وہ آواز دینے والی خاتون تھیں۔ ہر گز نہیں بلکہ راجہ داہر پے حملہ کر دیا وجہ اس کی یہ تھی کہ راجہ داہر نے کچھ ایسے گستاخ اور حجاج کے مالکوں کے مخالفین کو جو حجاج کی خدمات سے تنگ آ کر بھاگ آئے تھے اور حجاج اور ہمنوا نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان ایک کافر ملک میں رہ کر بد عقیدہ ہو جائیں۔

اگر آپ واقعی چاہتے ہیں کہ آپ تاریخ کے سچ کے بجائے صرف اور صرف اچھی باتیں نہ سچی باتیں پڑھیں تو معاشرتی علوم اور جیسی کتابیں دل لگا کر پڑھیں۔ پھر آپ کو پتہ لگے کہ پاکستان ایک تحفہ ہے اور قیامت تک قائم رہے گا جہاں تک بنگلہ دیش کے الگ ہونے کا سوال ہے تحفہ کا وہ حصہ ہمیں کوئی خاص پسند نہیں تھا۔ باقی باتیں چھوڑیں 65 کی جنگ میں معجزات کی وجہ سے دشمن کے دانت کھٹے کیے تھے اس حساب سے تو ہماری فوج کا تو کردار ہی نہیں۔ بنگلہ دیش چونکہ دور ہے اور ان کا جادو بھی مشہور ہے وہاں ہمارے معجزات کام نہیں آئے۔

باقی باتیں رہنے دیں آپ کو 18 مارچ کا معجزہ بتا دیں۔ پولیس نے تحریک انصاف کے کارکنوں پر آنسو گیس پھینکی تو بجائے کارکن آنسو گیس سے متاثر ہوتے ہوا کا رخ پولیس کی طرف ہو گیا اور پولیس والے کھانستے رہے یہ معجزات نہیں تو اور کیا ہے۔

پس تحریر: اس تحریر کو لکھنے میں تاریخ طبری یعقوبی، تاریخ اسلام از معین الدین ندوی، تاریخ خلفا اور دوسری کتابوں سے استفادہ کیا گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments