وہ آکاس سے تارے چرا لایا


طلوع و غروب آفتاب کے ارغوانی مناظر میں سوریا دیوتا کا مندر ایک خونیں کیفیت میں نظر آتا تھا۔ پروہت دونوں وقت دیوتا کے سامنے ملول و غمگین بیٹھا رہتا۔ سوریا کی یہی خونیں رنگت اکلوتی بیٹی کی آنکھوں میں دیکھ کر اس کا دل مٹھی میں آ جاتا۔

وہ نسل در نسل اسی مندر کے خدمت گار تھے۔ جنم کے فوراً بعد ماتا نے دیوتا کے چرنوں ڈال دیا۔ اس نے اسی فرح بخش معبد کی حدود میں پرورش پائی۔

وہ بوڑھا ہو گیا اور اولاد کی نعمت سے محروم تھا۔ کئی بار اس کی امید راستہ میں ہی دم توڑ گئی لیکن اس نے کبھی کسی اور دیوتا کے سامنے ماتھا نہ ٹیکا۔ اب کی بار جب امید نے ایک حسین صورت اختیار کی ہے تو اس نے بچی کو گود میں لے کر دیوتا کے گرد سات چکر لگائے۔ نذر چڑھائی، بخور سلگایا اور پراتھنا کی کہ سوریا اس مورتی کو پھلنے پھولنے کی ہمت دے۔

دعا مانگ کر اس نے غور سے بچی کو دیکھا تو دل بجھ گیا اور وہ پھر دیوتا کے چرنوں میں گر پڑا۔
صد افسوس اس کی آنکھوں میں خون ہی خون تھا، نور نہیں تھا۔
کئی سال گزر گئے۔ وہ جوانی کی پیڑھی پر قدم رکھ رہی تھی۔ بہت خوبصورت تھی۔

شام کو وقت رخصتیں جب سوریا دشت و کوہ پر پڑے اپنے ارغوانی دامن کو سمیٹ لیتا اور ہر طرف اندھیرا چھا جاتا تو پورا مندر اس کے نورانی چہرہ کے عکس سے منور و درخشاں ہو جاتا لیکن آنکھیں اور بھی اندھیری ہو جاتیں۔

ستاروں کی نرم ٹھنڈی شعائیں جب درختوں کو ابریشم کا لباس پہنا دیتیں تو وہ چندرما کی چمک میں اس کے لیے روشنی تلاش کرتا۔ دن کے وقت جب ہر طرف چمک، نور کی برسات اور رنگوں کی بہار رہتی وہ سوریا دیوتا سے پراتھنا کرتا رہتا کہ کچھ نور اسے بھی دان کر دے۔ جتنا وہ دیوتا کو پکارتا اتنا ہی وہ اسے نوازتا لیکن اس کی دلی خواہش پوری نہ ہوئی۔ پراتھنا اس کے درجات بڑھاتی، مراد پوری نہ کرتی۔

ایک رات جب پوری کائنات سو رہی تھی، وہ سوریا کے سات گھوڑوں والے رتھ کے گرد چکر کاٹ رہا تھا۔ چاروں اور موجود عود دانوں سے بخور کی خوشبو بلند ہو رہی تھی۔ چندرما اس کا دکھ دیکھ کر چھپ گیا۔ سحر ابھی بہت دور تھی، وہ پکار رہا تھا،

”سوریا، میرے آقا، میرے دیوتا، ساری عمر میں نے اپنے شیش پر تجھے سنبھالے رکھا، ساری زندگی تیرے چرنوں میں گزار دی۔ میرے بھگوان! اس کے نینوں میں جیوتی کا دیپ جلا دے۔ ان پر چھائی رات کی اندھیری چھت کو الٹا دے ان میں اپنا نور ڈال دے۔“ یہ پکارتے پکارتے وہ سو گیا۔

آنکھ کھلی تو وہ خواب گاہ الوہیت کے سامنے تھا۔ بنات النعش اس کے گرد حلقہ بنائے کھڑی تھیں۔ اوج ثریا پاؤں کے نیچے تھا۔ کہکشائیں جھولا جھلا رہی تھیں۔ خلوت گاہ مقدس میں جھانکا، دیوتا معطر و منور صباحتوں کو اپنی آغوش میں سمیٹے سو رہا تھا۔ اس نے سر جھکا کر پرنام کیا۔ کوئی جواب نہ پایا۔ ہاتف غیبی کی خاموشی نے اس کا دل توڑ دیا۔ وہ مڑا اور آکاس کی وسعتوں میں گھومنے لگا۔ ہر طرف نور ہی نور تھا۔ اگن گولے آوارہ گھوم رہے تھے۔

وہ کبھی کسی کے پاس جاتا کبھی کسی کے۔ بیٹی کی آنکھوں کا نور کہیں دکھائی نہ دیا تو وہ الوہی ہجرے کی طرف لوٹ آیا۔ وہی خاموشی، وہی سکون لیکن اس کا دل بیتاب الجھتا جا رہا تھا۔ دھڑکنیں تیز ہوئیں تو کائنات تھرتھرانے لگی۔ زلزلہ آ گیا، ستارے بکھر گئے۔ وہ دمدار ستاروں کے پیچھے بھاگ کر انہیں پکڑنے کی کوشش کرنے لگا۔

سوریا نے انگڑائی لی، رتھ کے گھوڑے ہنہنائے تو کائنات بھی جاگ اٹھی۔
وہ دھرتی پر واپس آ کر مندر میں دیوتا کے سامنے سرنگوں ہو گیا۔
***
اب وہ بہت خوش تھا۔ راتوں کو نیند بھی ٹھیک آتی۔
پھر ایک گھور اندھیری رات میں ایک دیودوت بڑے بڑے شہپروں میں ملبوس اپنے پرداروں کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا تھا۔

وہ خوفزدہ ہو کر کانپ اٹھا۔ دیودوت بہت غصے میں تھا۔ پرداروں نے اسے گردن سے جکڑ لیا۔

دیودوت چلایا، ”منش جاتی کو ہم نے جہاں بھی رسائی دی اس نے اپنی بونگی خواہشات کی تکمیل کے لالچ میں وہیں کائنات کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس نے کبھی بھی نہ سوچا کہ اس گلدستے سے کوئی ایک بھی چیز نکال لی جائے تو سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔“

وہ بولنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن پرداروں کے پنجے اس کے حلقوم پر اتنا دباؤ ڈالے ہوئے تھے کہ آواز نہ نکل سکی۔

”سارے مندر کی تلاشی لو۔“ دیودوت نے حکم دیا۔

”اس رات الوہی نربان کا غلط استعمال ہوا۔ منش جاتی نے دیوتاؤں کی کرپاؤں کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ کوئی سدیم سے ذرات نور چرا لایا۔ ہم نے پست فطرت پرش کی عادت سمجھ کر نظرانداز کر دیا۔ اب پتا چلا ہے کہ دو ستارے گم ہیں۔“

تھوڑی دیر میں ہی پردار اس کی بیٹی کو پکڑ کر لے آئے۔
”آقا یہ اندھی تھی اب اس کی آنکھوں میں نور چمک رہا ہے۔“

پروہت نے ایک جھٹکے سے اپنی گردن چھڑائی۔ وہ حیران رہ گئے ایک پرش میں اتنی طاقت کہاں سے آئی کہ سورگ کے پرداروں کو دھکیل دیا۔

”یہ نور میرے دیوتا سوریا کی کرپا ہے۔ میری ساری زندگی کی تپسیا کا انعام ہے۔“
بیٹی نگاہیں جھکائے کھڑی تھی۔ وہ آگے بڑھا اور گلے سے لگا کر اس کی آنکھیں چومنا شروع کر دیں۔

پرداروں نے لڑکی کو اس سے چھین کر دیودوت کے سامنے کیا۔ ایک پردار نے پروہت کو پھر جکڑ لیا۔ وہ تکلیف سے بلبلانے لگا تو اس کی بیٹی دیودوت کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ پلکوں کو خوب سے اوپر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگی،
”غور سے ان آنکھوں میں جھانک کر دیکھو اور اپنے ستارے پہچان لو۔“

دیودوت نہوڑا کر ان میں دیکھنے لگا۔ اس نے پرداروں کو بھی بلا لیا۔ سب اسے دیکھ رہے تھے۔ ان میں بحث چھڑ گئی۔ لڑکی پلکیں جھپکاتی ان کی طرف دیکھتے جا رہی تھی۔ پروہت کو انہوں نے چھوڑ دیا۔ وہ بھاگ کر بیٹی سے لپٹ گیا۔ پورے مندر میں بخور کی خوشبو بکھر گئی۔ عود دانوں سے اگلتا دھواں مزید گہرا ہو گیا۔

ایک پردار گھٹنوں کے بل دیودوت کے سامنے جھک کر بولا، ”آقا میں صدیوں سے ان ستاروں کی حفاظت پر معمور ہوں، گرچہ وہ بڑی آب و تاب والے تھے لیکن ان میں اتنی تابانی تھی نہ درخشانی۔ یہ وہ ستارے نہیں۔“
وہ خشمگیں نگاہوں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے واپس چل پڑے۔
بیٹی بھاگ کر باپ سے لپٹ گئی۔

پروہت بے تاباں آنکھیں چومتا جا رہا تھا۔ بیٹی نے حیرانی سے اس سے پوچھا، ”انہوں نے اپنے ستاروں کو کیوں نہیں پہچانا؟“

پروہت نے پھر چوما اور بولا،
”تمہاری چشم شرمگیں میں باپ کی محبت بس چکی ہے جس سے نور کئی گنا بڑھ گیا۔ سماوی مخلوق صرف الوہی نور کی عادی ہے۔ ان کی آنکھیں پلکوں کی اوٹ میں حشر کا یہ تاباں و درخشاں ساماں دیکھ کر چندھیا گئیں اور وہ اپنے ستارے نہ پہچان سکے۔“

(مرکزی خیال ماخوذ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments