پروین شاکر کی شاعری میں رقیب کا کردار
ہماری عمومی سماجی زندگی میں بھی ہمیں یہ کردار نظر آتا ہے اس کا کام دو افراد کے مابین، جدائی، رنجش، غلط فہمی اور بدظنی ڈالنا ہوتا ہے ان کی ایک دوسرے کے لئے کی گئی کاوشوں کو پس منظر میں کر دینا اور خود پیش منظر بن جانا اس کردار کا کلائمکس ہے۔ اس کردار کو ہم رقیب کے نام سے جانتے ہیں۔ عام طور پر یہ کردار اپنے مشن میں کامیاب ہوجاتا ہے یہ کردار ایک تیسرے کردار کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ پروین کے یہاں بھی محب اور محبوب کے مابین فاصلوں کو جنم دینے والا یہ کردار نمودار ہوا جس پر پروین شاکر نے ایک نظم رد عمل لکھی ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے شیریں لہجے کو خالص نسائیت سے بھرے لہجے میں بیاں کیا ہے۔
ایک عورت جب زندگی کے اس دور سے گزر رہی ہوتی ہے تو وہ اس کا وجدان بھی اس کے شعور کا حصہ دار بن جاتا ہے۔ اور وہ آہستہ آہستہ اس کردار کے لئے جگہ خالی کرتی جاتی ہے تاہم جب بات پروین شاکر کی ہو توہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اس کردار کی موجودگی پر اسی صبر و ضبط کا بھی مظاہرہ کیا جس سے ان کی خاندانی نجابت کا اندازہ ہوتا ہے۔
گئے موسم کے کسی لمحے میں
تونے اس طرح پکارا تھا مجھے
جیسے مدھم کا بہت میٹھا سر
جیسے شبنم کا اکیلا موتی
عارض برگ حنا چھو جائے
جیسے اک موج ہوا کی صورت
رات کی رانی سے کچھ رات کہے
جیسے بچپن کی سہیلی میری
شوخ لمحے میں تری بات کہے
میں نے شرما کے جھکا لیں پلکیں
اک عجب نشے کے احساس سے میری آنکھیں
خودبخود بند ہوئی جاتی تھیں
دیر تک خواب کے عالم میں رہی
تیری آواز کہ اک گونج بنی جس کے ساتھ
روح ان دیکھے جزیروں میں سفر کرتی رہی
کبھی سمٹی کبھی بکھری کبھی مدہوش ہوئی
چاند میں دشت میں شبنم میں سمندر میں رہی
نیلمیں ریشمیں دنیا میں رہی
آج لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے دیکھا
اسی لہجے اسی انداز کے ساتھ
تیرے ہونٹوں پہ کسی اور کا نام
سوچتی ہوں کہ ترے لہجے کی اس نرمی پر
جانے اس لڑکی نے کیا سوچا ہو
خواب مہتاب گلاب اور شبنم
نیل، آکاش، سحاب اور پونم
چاندنی، رنگ، کرن نگہت گل کا موسم
گیت اور خوشبو لب جو تیرے بدن کا ریشم
یا تیرے ساتھ میں شیزان سے کافی پی کر
تجھ سے اٹھلا کے کہا ہو، کہ میری جان چلو لے آئیں
روبی جیولرز کے ہاں سے کوئی تازہ نیلم! اسی تاثر کی ایک اور نظم آشیر باد، گئے جنم کی صدا، اندیشہ ہائے دور دراز، ڈیوٹی، اتنا معلوم ہے، وہ آنکھیں کیسی آنکھیں ہیں، تیری ہم رقص کے نام، مفاہمت، اوتھیلو، آئینہ، نیا دکھ، نارسائی، ضد، تمہارا رویہ، پروردہ اور آشیر باد ہیں۔ ان کی مشہور زمانہ غزل کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی سدا بہار تاثر رکھتی ہے۔ اسی حوالے سے انہوں نے نظیر صدیقی کے ایک خط کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے لکھا۔
”خوشبو کے حوالے سے جو سوال آپ نے اٹھایا ہے اس کا جواب بھی اسی میں موجود ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا دونوں میں سے کوئی نہ سمجھ سکا۔ بس یوں جان لیجیے کہ (سول سروس) اور محبت میں جیت اول الذکر کی ہو گئی۔ زندگی کے متعلق جب نظریہ تبدیل ہوا تو ارد گرد رہنے والے لوگوں کے بارے میں رائے کی تبدیلی ناگزیر تھی اور میں نے اس فیصلے کے آگے سر جھکا دیا۔ کیونکہ اس نے میری تربیت اسی طرح کی تھی۔”
پروین ایسے نابغہ روزگار تخلیق کاروں نے انسانی زندگی پر انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔
- چار اپریل 1979 سے 6 مارچ 2024 تک - 07/03/2024
- پروین شاکر کی برسی پر خصوصی تحریر - 23/12/2023
- قائدِ طلبا شہید نجیب احمد - 07/07/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).