مذہب اور سوشل میڈیا


سوشل میڈیا نے زندگی کے ہر پہلو کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اس کا ایک نمایاں عکس مذہبی زندگی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ 1992 ء میں داخل ہوا، 2007 ء سے اس میں برق رفتار تیزی آنا شروع ہوئی اور کرونا کے بعد یہ روابط حتیٰ کہ مذہبی زندگی اور رسومات تک میں اہم حصہ بن گیا ہے۔ کسی بھی سوشل میڈیا ایپ کو دیکھ لیں آپ کو مذہبی اقوال، بحث اور گفتگو سب مل جائے گی۔ یوٹیوب پر باقاعدہ چینل موجود ہیں جن میں عام زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ یہی سوشل میڈیا کا وہ انقلاب ہے جس کا تصور چند سال پہلے ممکن نہیں تھا۔

سوشل میڈیا نے مذہبی زندگی سے علماء کے عمل دخل کو کم کر دیا ہے۔ آپ کوئی بھی کیوں نہ ہوں مذہب پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں جس کے لئے آپ کو کسی ادارے، مذہبی تنظیم اور سربراہ کی سند درکار نہیں۔ اپنا مواد بنائیں اور اسے نشر کر دیں وہ جتنا زیادہ جاذب نظر ہو گا لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے گا۔ اگر آپ کے فالورز کی تعداد بڑھتی جائے گی تو کوئی بھی آپ کو روک نہیں سکتا۔ کسی بھی صورت آپ اپنی مذہبی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔

اس سے معیار پر بڑا فرق پڑا ہے، مذہبی تعلیم کے لئے طویل مدت صرف کرنے والے لوگوں کی رائے جتنی مستند بھی ہو وہ خیالات جو اکثریت کی رائے سے ہم آہنگ ہوں گے وہی وزن رکھتے ہیں۔ کتاب مقدس کی کوئی بھی آیت، علماء کی کوئی بھی بات سیاق و سباق سے نکال کر پیش کر دیں کوئی سند کا سوال نہیں اٹھائے گا۔ اس نے جہاں مذہبی معاملات میں ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری کو چیلنج کیا ہے اس سے کئی زیادہ غلط فہمی اور جنونیت کی راہ ہموار کر دی ہے۔ بہت سی مذہبی انتہا پسند تنظیمیں انٹرنیٹ کو اچھا نہیں سمجھتی لیکن اپنے تمام پیغامات اسی کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتی ہیں۔ یہ تضاد سوشل میڈیا کی تصویری دینا کا ایک حصہ ہے۔

ایمرس شومیکر نے صوبہ پنجاب کے تین شہروں میں 2014۔ 15 ء کے دوران ڈیجیٹل فیتھ کے نام سے تحقیق میں مشاہدہ کیا کہ سوشل میڈیا کے متعلق تاثر کہ یہ ’سیکولر ازم‘ کو پروان چڑھانے کا سبب بنے گا درست ثابت نہیں ہوا۔ پاکستان میں اس کا استعمال مذہبی شناخت کو مستحکم کرنے میں زیادہ ہے۔ اس ضمن میں میری ذاتی رائے ہے کہ سوشل میڈیا ایک طرح سے ’سیکولر‘ نظریے کو ترویج دینے کا سبب ضرور بنا ہے۔ سیکولرازم کوئی مربوط اور ہما گیر تصور نہیں ماہر انسانیات طلال اسد اسے معاشرتی صورتحال اور تاریخی حقائق سے جڑا دیکھتے ہیں۔

وہ سیکولرازم جو مغرب میں وجود میں آیا اس سے مختلف ہے جو جنوبی ایشیاء میں پنپ رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے مذہب کو عمل اور معاشرتی زندگی سے جدا کر دیا ہے جو چارلز ٹیلر کے نزدیک سیکولرازم کی ایک صورت ہے۔ آپ کے سوشل میڈیا کی مذہبی زندگی حقیقت سے جدا اپنی الگ دنیا بنانے کے مترادف ہے۔ مسیحیت میں اس نے سب سے انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔ اکثر مسیحی اتوار کے روز گھر پر سوشل میڈیا پر عبادت میں شریک ہو جاتے ہیں جو مذہبی رسومات کی ادائیگی کا ایک متبادل بنتا جا رہا ہے۔ یہ مذہب کی ایک پرائیویٹ صورت کو تشکیل دے رہا ہے جو خاص سیکولرازم کے اثرات سے منسلک ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت پہلی مرتبہ مذہبی معاشرے میں مذہب کی نجی صورت ابھر رہی ہے۔

اس کا سب سے سنگین پہلو مذہب کی صارفیت پسندی ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت مذہبی زندگی صارفیت کی ایک صورت بن گئی ہے۔ ایک بڑی مارکیٹ کی طرح من پسند وعظ و نصیحت منتخب کریں اور مستفید ہوں۔ اس سے مذہب زندگی اخلاقی دائرہ سے باہر ہو جاتا جا رہا ہے۔ جو عالم آپ پر اخلاقی نقطہ چینی کرے اسے بدل دیں خود کو بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے پہلے پند و نصائح کا مقصد لوگوں کو خدا کی جانب راغب کرنا ہوتا تھا اب لائک اور فالورز بڑھانا ہے۔

یوٹیوب پر کوئی بھی خاص مذہبی پہلو پیش کرنے کے بعد سامعین سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ان کے چینل کو لائک کر دیں۔ ایسی صورت میں کون کس کے متعلق کوئی بات کرے جس سے فالورز کی تعداد کم ہو؟ مزید آپ کو اپنا بھی کچھ پیش کرنے کی ضرورت نہیں کسی کا خیال کہیں سے بھی حاصل کر لیں اور اسے لوگوں کو پیش کر دیں اس سے بھی آپ مذہبی زندگی کی ایک تصویر بنا لیں گے جو عملی زندگی سے دور آپ کی اپنی دنیا بن جائے گی۔

ایک دلچسپ رجحان مذہبی اداروں اور تنظیموں کا پرسنل ایپ اور ویب سائٹ متعارف کروانا ہے تاکہ لوگوں سے رابطے میں رہیں۔ دعا بھی ڈیجیٹل دنیا میں شامل ہو چکی ہے جو ٹک ٹاک پر بھی سنی جا سکتی ہے۔ یعنی مذہبی زندگی انٹرٹینمنٹ کی انداز میں ڈھلتی جار ہی ہے۔ اس سے مذہب کا عملی زندگی میں کیا حصہ رہ جاتا ہے قابل تحقیق موضوع ہے۔ سوشل میڈیا کے مذہبی زندگی میں اس قدر گہرے تعلق نے مذہب کو ایک تصویر کی حد تک محدود کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments