سیاسی کارکنوں کے لیے ایک کہانی


اوریانا فلاشی ایک کہنہ مشق صحافی اور ادیبہ تھیں جن کی وجہ شہرت ان کی کتاب ”تاریخ سے انٹرویو“ (Interview with history) ہے جس میں بین الاقوامی سیاسی شخصیات کے معرکۃ الآرا انٹرویو ہیں۔ تاریخ، سیاست اور صحافت کے طالبعلموں کے لئے یہ ایک شاندار کتاب ہے۔ اس میں ذوالفقار علی بھٹو، سابقہ اسرائیلی خاتون وزیر اعظم گولڈا مائیر اور یاسر عرفات سمیت دنیا کے بڑے راہنماؤں کے انٹرویوز ہیں۔ پچھلے دنوں اوریانا فلاشی کا تحریر کردہ ایک ناول ”ایک آدمی“ (A man) پڑھنے کا موقع ملا جس کے مرکزی کردار کا انجام ہماری سیاسی جماعتوں میں پائے جانے والے جیالوں اورانصافیوں یا پارٹی کے انتہائی وفادار قسم کے سیاسی ورکروں سے ملتا جلتا ہے۔

اس ناول کی کہانی یونان کے ایک مزاحمتی ہیرو کی کہانی ہے جو فوجی آمر کو بم سے اڑا دینے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ پکڑا جاتا ہے۔ بے پناہ تشدد کا نشانہ بنتا ہے اور پھر اس پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلتا ہے۔ جب استغاثہ اس پر الزام ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو وہ خود بیان صفائی میں اپنے اوپر لگے ہوئے الزام کو انجام دہی فرض قرار دیتے ہوئے اس کا اعتراف کر لیتا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں۔

”میں اپنا دفاع نہیں کرنا چاہتا۔ بلکہ میں تو آپ پر الزام لگانا چاہتا ہوں۔ آپ نے میرے خلاف جعلی دستاویزات تیار کی ہیں اور انہی سے اس مقدمے کے مقاصد عیاں ہو جاتے ہیں۔ یہ اہم دستاویزات ہیں۔ لیکن ان تمام ملکوں میں جہاں قانون اور آزادی کا خون بہا دیا جاتا ہے اسی طرح کے مقدمات قائم ہوتے ہیں اور ایسی ہی دستاویزات ان کی بنیاد بنتی ہیں۔ آہ! اس حکومت کے ملازمین کتنے جاہل ہیں۔ کہتے ہیں جہالت اور بربریت پہلو بہ پہلو چلتے ہیں۔

ہاں! معززین فوجی عدالت، آپ جانتے ہیں کہ جعلی دستاویزات کا استعمال قانونی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ چونکہ یہ مقدمہ جعلی دستاویزات پر گھڑا گیا ہے اس لیے یہ میرا حق ہے کہ اس مقدمے کو ماننے سے انکار کر دوں۔ لیکن میں ایسا نہیں کروں گا کیونکہ میں نہیں چاہتا آپ یہ سوچیں کہ میں ان الزامات کا سامنا کرنے سے خوف زدہ ہوں۔ میں ان الزامات کو تسلیم کرتا ہوں۔ میں نے انھیں کبھی بھی نہیں جھٹلایا۔

تفتیش کے دوران بھی اور آپ کے سامنے بھی۔ اور اب میں فخر سے ان کو دہراتا ہوں۔ ہاں میں نے آتش گیر مادہ بچھایا تھا۔ میں نے وہ بارودی سرنگیں بچھائی تھیں اور ایسا میں نے اس لیے کیا تھا کہ اس آدمی کو مار سکوں جسے آپ صدر مملکت کہتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اسے مارنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ تین ماہ! جو میرے لیے سب سے بڑی اذیت کے تین ماہ تھے! تین ماہ سے میں خود سے دکھ کے ساتھ ایک ہی سوال کرتا رہا ہوں کہ میں کہاں غلط ہو گیا؟

میں اپنی روح تک دے سکتا ہوں واپس اس مقام تک جانے کے لئے تاکہ کامیاب ہو سکوں۔ میں غنڈہ یا جرائم پیشہ شخص نہیں۔ میں ہمیشہ سے بہتر یونان، بہتر کل اور ایسے معاشرے کے لئے جد و جہد کرتا رہا ہوں جو انسان پر یقین رکھتا ہو اور یہ جدوجہد میں ہمیشہ کرتا رہوں گا۔ انسان پر یقین رکھنے کا مطلب ہے اس کی آزادی پر یقین رکھنا۔ آزادی سوچنے کی، بولنے کی، تنقید کرنے کی، مخالفت کرنے کی، ہر اس چیز کی جسے فاشسٹ پاپا ڈوپس کی آمرانہ بغاوت ایک سال پہلے ختم کر چکی ہے۔ اب ہم آتے ہیں پہلے الزام پر جو مجھ پر لگایا گیا ہے۔

پہلا الزام یہ ہے کہ تعزیرات یونان کی دفعہ 509 کے تحت میں نے ریاست کے خلاف بغاوت کی کوشش کی۔ کیا یہ ایسا نہیں کہ جو لوگ مجھ پر یہ الزام لگا رہے ہیں اصل میں یہ وہی ہیں جنھوں نے 12 اپریل 6791 کو دفعہ 905 کے تحت میں نے ریاست کے خلاف بغاوت کی کوشش کی۔ کیا یہ ایسا نہیں کہ جو لوگ مجھ پر یہ الزام لگا رہے ہیں اصل میں یہ وہ ہی ہیں جنھوں نے 12 اپریل 6791 کو دفعہ 905 کی خلاف ورزی کی تھی؟ پھر اس پنجرے میں کس کو ہو نا چاہیے؟

مجھے یا انھیں؟ کوئی بھی شہری جس میں ذرا سا عقل و شعور اور ہمت ہو گی کہے گا ”انھیں“ اور وہ یہ اضافہ بھی کرے گا جو اب میں کرنے جا رہا ہوں۔ ایک باغی بنتے ہوئے، ایک آمر اور غدار کے اقتدار کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے میں نے دفعہ 905 کا احترام کیا ہے۔ اس کی حفاظت کی ہے۔ مجھے اس بات کا یقین نہیں کہ آپ میری یہ بات سمجھ سکیں گے۔ اگر فوجی بغاوت ناکام ہو جاتی تو نہ صرف آمر بلکہ آپ بھی اس پنجرے میں ہوتے اور تب آپ میری بات سمجھ سکتے۔

اب میں دوسرے الزام پر چلتا ہوں اور وہ ہے فوج سے بھگوڑا ہونے کا! یہ سچ ہے میں بھاگا تھا۔ فوجی بغاوت کے چند روز بعد میں نے اپنی یونٹ چھوڑی اور جعلی پاسپورٹ پر بیرون ملک چلا گیا۔ مجھے یہ بغاوت والے دن ہی کرنا چاہیے تھا چند دن بعد نہیں لیکن اس دیر کے لئے میں قصور وار نہیں۔ بغاوت والے دنوں میں ترکی کے ساتھ یونان کی کشیدگی چل رہی تھی اور اگر جنگ چھڑ جاتی تو ایک یونانی ہونے کے ناتے میرا فرض یہ ہوتا کہ ملک کا دفاع کروں نہ کہ فوج سے بھاگ جاؤں اور ٹھیک بات یہ ہے کہ جب جنگ نہیں ہوئی اور اس کا خطرہ ٹل گیا تو میں نے اپنا دوسرا فرض نبھانے میں جلدی کی اور فوج سے بھاگ گیا۔ معززین فوجی عدالت! ایک فوجی آمر کی فوج میں خدمات سر انجام دینا غداری ہوتی ہے اور میں نے غدار بننے سے بھگوڑا بننا پسند کیا۔ مجھے اپنے انتخاب پر فخر ہے۔

مجھ پر تیسرا الزام جو آپ کے لئے سب سے اہم ہے۔ وہ ہے ریاست کے سربراہ کو قتل کرنے کی کوشش۔ میں اس بات سے ابتدا کرتا ہوں کہ تشدد کرنے والوں کی بربریت کے برعکس میں طاقت کے اندھے استعمال کو نا پسند کرنے والا شخص ہوں۔ تشدد سے نفرت کرنے والا۔ میں سیاسی قتل بھی پسند نہیں کرتا۔ جب سیاسی قتل کسی ایسے ملک میں ہوتا ہے جہاں پارلیمنٹ ہے، لوگوں کو سوچنے، بولنے اور اختلاف کرنے کی آزادی ہے تو میں غصے اور دکھ سے اس کی مذمت کرتا ہوں لیکن جب ایک حکومت طاقت کے ذریعے عوام پر مسلط کر دی جائے اور وہ عوام کو تشدد کے ذریعے آزادی اظہار، آزادی اختلاف بلکہ سوچنے تک کی آزادی سے محروم کر دے تو طاقت کا استعمال ضروری بلکہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔

اس بات کو میری نسبت یسوع مسیح اور گاندھی آپ کو بہتر سمجھا سکیں گے۔ کوئی اور راستہ رہ ہی نہیں جاتا اور یہ سچائی کہ میں ناکام ہو گیا ہوں کوئی معنی نہیں رکھتا۔ دوسرے میرے راستے پر چلیں گے اور کامیاب ہوں گے۔ تیار ہو جائیں اور ان کے خوف سے کانپتے رہیں۔ نہیں صدر عدالت مجھے روکیے نہیں۔ میں چوتھے الزام کی طرف آتا ہوں اور جلد ہی آپ اس بات کا اعلان کر سکیں گے کہ آپ خوف زدہ نہیں ہیں۔

چوتھا الزام ہے۔ آتش گیر مادہ رکھنا۔ میں جو پہلے کہہ چکا ہوں اس کے علاوہ اس الزام پر کیا کہہ سکتا ہوں۔ میں آپ کو بتا چکا ہوں، میرے مقدمے کے دو ساتھی جانتے تھے کہ میں کسی حملے کی تیاری کر رہا ہوں مگر کیسے حملے کی یہ انھیں معلوم نہ تھا۔ میں ان بم دھماکوں کی ذمہ داری جو اس دن ایک پارک اور اسٹیڈیم میں ہوئے قبول کرتا ہوں۔ میں بتا چکا ہوں کہ وہ صرف ایک تنبیہ تھی ایک مظاہرہ تھا اور انھیں اس طرح چلایا گیا تھا کہ اس سے کسی کو نقصان نہ ہو۔ اگر میرے ساتھی اس سے مختلف بات کرتے ہیں تو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان سے وہ بیانات تشدد کے تحت لیے گئے ہیں۔ اگر مجھے تشدد کرنے والوں پر تشدد کی اجازت ہو تو میں انھیں اعتراف کرنے پر مجبور کر سکتا ہوں کہ ان کی مائیں طوائفیں تھیں اور ان کے والد بھڑوے تھے۔

آپ کے گواہوں نے کہا ہے کہ میں انا پرست ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو میں آرام سے باہر رہ سکتا تھا۔ اس کی بجائے میں اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر واپس آ گیا۔ میں جانتا تھا کہ میری زندگی کو خطرہ ہو گا ایسے ہی جیسے اب میں جانتا ہوں، آپ مجھے کیا سزا دیں گے۔ اصل میں مجھے معلوم ہے آپ مجھے سزائے موت دینے والے ہیں لیکن میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ معززین فوجی عدالت! حقیقت تو یہ ہے کہ میں اس سزا کو پہلے ہی ذہنی طور پر قبول کر چکا ہوں کیونکہ کسی بھی جدوجہد کرنے والے کے لئے سب سے خوبصورت نغمہ وہ آوازیں ہوتی ہیں جو وہ اس وقت منہ سے نکالتا ہے جب آمر کا مسلح دستہ اسے گولیاں مارتا ہے۔ ”

اس بیان پر اسے سزائے موت ہو جاتی ہے جو فی الحقیقت وہ خود ہی اپنے لیے طلب کرتا ہے لیکن فوجی آمر اس کی سزا کم کر کے عمر قید میں بدل دیتا ہے۔ حالات بدلتے ہیں ملک میں جمہوریت بحال ہوتی ہے۔ حکومت اس کی سزا معاف کر دیتی ہے۔ یہ قومی ہیرو رہا ہوتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ اس کی پارٹی ملک کے عوام کی امنگوں کی بات نہیں کر رہی تو اس کی قیادت کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ پارٹی اسے نکال دیتی ہے۔ حکومت پھر اس کے خلاف ہو جاتی ہے۔

الیکشن آتے ہیں۔ ملک کی کوئی قابل ذکر پارٹی اسے ٹکٹ نہیں دیتی لہٰذا وہ خود اپنی ایک پارٹی بنا کر الیکشن لڑتا ہے اور دھوم دھام سے الیکشن ہار جاتا ہے لیکن متناسب نمائندگی کے قانون کے مطابق بچے ہوئے ووٹوں کی بنیاد پر ممبر پارلیمنٹ بن جاتا ہے۔ جمہوری حکومت کی پالیسیوں پر پارلیمنٹ میں اتنی تنقید کرتا ہے کہ وہ حکومت اسے ایک کار ایکسیڈنٹ میں مروا دیتی ہے۔

کیا ہماری تمام سیاسی جماعتیں جمہوری جدوجہد کرنے والے اپنے تمام سیاسی کارکنوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک نہیں کرتیں اور ہماری سیاست میں بھی اصول پرست سیاسی کارکنوں کا انجام اس کہانی سے مماثلت نہیں رکھتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments