عمرانی فرقہ کو”ضیا بیطس” لاحق ہو گئی


 ضیاء بیطس کا استعارہ میرا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ یہ میں نے شاہد بلوچ سے مستعار لیا ہے،ذہنی دیانت کا تقاضا ہے کہ جو جس کا ہے کریڈٹ بھی اسی کو جانا چاہیے۔
  اسی طرح سے ہمیں عمرانی بندوبست کا پورا کریڈٹ بھی انہی خداوندان نظام کی بصیرت و فہم کو دینا چاہیے جن کا یہ انوکھا شاہکار تھا۔
 ہماری سرزمین فرقوں کے لیے بہت سازگار ہے، بس کسی طاقتور کے دست شفقت کی ضرورت ہوتی ہے کوئی بھی بےروزگار یا ویہلا اور سائیں اپنا فرقہ کھڑا کرسکتا ہے، اس کے لیے کسی بھی قسم کی قابلیت و تعلیم کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہوتی اور ہر شاطر اپنے لئے اچھی خاصی روزی روٹی کا بندوبست کر سکتا ہے، بلکہ آنے والی سات نسلوں تک کا صدقہ جاریہ لگ جاتا ہے۔
عقل و شعور دشمن سماج میں شعبدہ بازوں کا راج ہوتا ہے جو اپنی باتوں کے مایا جال سے “خیالی کبوتر” نکالتے رہتے ہیں اور عوام “واہ واہ، سبحان اللہ اور بے شک”  جیسے روایتی جملے دہرانے میں لگے رہتے ہیں۔
 فرقوں کی پنیری لگانے کا سلسلہ مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوا، فرقہ واریت کے نام پر ایک دوسرے سے شدید نفرت و تعصب کا زہر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس قوم کی رگوں میں انڈیلا گیا۔ جہاں مذہبی فرقوں کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی وہیں ادبی فرقوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی اور ادب کے نام پر ایسے مہان لوگ سامنے لائے گئے جو جذباتی منجن بیچنا خوب جانتے تھے،جن کی روحانی نگاہیں میدان جنگ میں سبز عماموں والے بزرگان دیکھ لیا کرتی تھیں جو ایٹمی اوزار اور بمب کو بلاسٹ ہونے سے پہلے ہی اپنے روحانی ہاتھوں میں تھام کر دشمن پر چلا دیا کرتے تھے۔
 اور انہی ادبی صوفیاء نے ایک طویل عرصہ تک لوگوں کی کریٹیکل تھنکنگ کو جذباتیت و روحانیت کے انجکشن لگا کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا اور انہیں معجزاتی سوچ پر لگا دیا۔ جس کے نتائج ہم آج بھگت رہے ہیں۔
ہمارے برائے نام قسم کے پڑھے لکھے لوگوں کو کوئی بھی ریشنل بات ہضم ہی نہیں ہوتی اور انہیں ایک پلے بوائے میں “اسٹیٹس مین” دکھائی دینے لگتا ہے، جس کی اپنی پوری زندگی یوٹرن کی حکایت اور چوں چوں کا مربہ ہے اور اس نے کمال مہارت سے خود کو وقت کا دیوتا ثابت کرکے ان ممی ڈیڈی کلاس کو اپنے حصار میں جکڑ لیا جن کی خود کی سیاسی فہم ابھی پالنے میں ہے اور ابھی اس نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھنا ہیں۔ جنہوں نے آنکھ کھلتے ہی عمران خان کو دیکھا ہو انہیں ماضی کا منظرنامہ جاننے میں ابھی کافی وقت درکار ہے۔
 اسی لئے تو کوئی بھی رنگ باز انہیں روحانیت کا منجن بیچ کر اپنا الو سیدھا کر لیتا ہے۔
ادبی میدان میں جنہوں نے عوام کو “جذباتی چوہے” بنانے میں اپنا کردار خوب نبھایا ہے ان میں سرفہرست شہاب نامہ والی سرکار صوفی قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، اشفاق احمد المعروف تلقین بابا اور بانو قدسیہ شامل ہیں۔  ان کو قدرت کی طرف سے وہ بلند نگاہی حاصل رہی جو شاید کرہ ارض پر کسی کو بھی نصیب نہ ہو۔
 ان ہستیوں کی صوفیانہ نگاہوں نے وہ مبارک و مخفی منظرنامے دیکھے جن کے یہ خود ہی گواہ تھے اور الفاظ کی صورت میں اپنا روحانی مشاہدہ پیش کردیا کرتے تھے۔
 اسی روحانی تسلسل کو ہم آج بھی مشاہدہ کر رہے ہیں، موجودہ دور کا عمرانی فرقہ اسی روحانی سلسلے کی ایکسٹینشن ہے اور اسی میجیکل تھنکنگ کا “پرتو” ہے وہی جذباتی ایندھن ہے جو اپنے کلٹ لیڈر کے اردگرد اپنی فیملی حتی کہ خود کی زندگی کو بھی داؤ پر لگا کر عقیدت کا حصار بنائے ہوئے ہے۔ جنہیں خود سے زیادہ اپنے فراڈیے گرو یا لیڈر پر بھروسہ ہے اور یہ وہی جذباتی چوہے ہیں جنہیں بڑی محنت سے تیار کیا گیا ہے اور ان کے ذہنوں کو مذہبی حدت و حرارت پہنچانے کے لیے طارق جمیل، مفتی سعید، نور الحق قادری اور اوریا مقبول جیسوں کا اہتمام کیا گیا جو عمرانی فرقہ کے سربراہ کو مذہبی حصار فراہم کرتے رہے۔ اس قسم کی ڈھال ہر اس معاشرے میں دستیاب ہوتی ہے جہاں عوامی رائے کو فوقیت دینے کی بجائے “راہنما” تجرباتی لیبارٹریوں میں تیار کیے جاتے ہیں اور سسٹم ان کی نگہبانی کرتا ہے۔
لمحہ موجود میں سلسلہ عمرانیہ کے سربراہ کو بھی خداوندان سسٹم نے اپنی لیبارٹری میں ہی تیار کیا تھا جس کی تشکیل میں درجنوں اتالیق کی محنت و ریاضت شامل ہے اور یہ منصوبہ ہماری تاریخ کا مہنگا ترین پروجیکٹ تھا جسے بہت آگے تک لے جانے کا بندوبست تھا مگر پونے چار سال میں ہی ٹھس ہو گیا۔
 جب سارا وزن ہی بیساکھیوں  پر آجائے تو وقتی سہارے بھی ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔
 اب ایسے طفیلی رہنما کی ممکنہ شیلف لائف آخر کتنی ہوسکتی تھی جس کی بھرپور جوانی “مخملیں ماحول” میں بسر ہوئی ہو اور عین بزرگی میں نادیدہ قوتوں نے گود لے لیا ہو؟ جوانی کی عادتیں یا خرمستیاں  بڑھاپے میں زیادہ قبیح ومکروہ صورت میں سامنے آنے لگتی ہیں۔
 ظاہر ہے جو سامنے آئیں اور سب نے دیکھا کہ کیسے ایک تجرباتی لیڈر اپنی”علتوں” کو مساج کرتا ہے اور کس حد تک جاتا ہے؟
 آرٹیفیشل بناؤ سنگھار اور جان توڑ قسم کی ایکسرسائز ایک حد تک ہی سہارا دے سکتی ہے نا؟ بہادر ہونے یا بہادر دکھنے میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ تجرباتی چوہے موٹے ضرور ہوتے ہیں مگر اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ ایسے رہنما کی بہادری یا ٹیپ ٹاپ وقتی سی ہوتی ہے اور اگر سسٹم اس وقتی فارمولے کی ترسیل روک دے تو تجرباتی لیڈر دھڑام سے گر جاتا ہے۔
 ہائبرڈ اور جینئون میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
ہائبرڈ کو عوام سے کوئی غرض نہیں ہوتی،اس کی نظر میں تو صرف اپنی ذات کی اہمیت ہوتی ہے، جیسے ہی اس کی ذات پر کوئی خطرہ منڈلانے لگتا ہے تو وہ شرارتی گڈریے کی طرح “المعروف شیرآگیا شیرآگیا” چلانے لگتا ہے۔
 اب تو حد ہی ہوگئی ہے اعجازالحق کو بھی اپنے مرحوم والد کی شبیہ عمران خان میں نظر آنے لگی ہے، انہوں نے نہ صرف تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی بلکہ ببانگ دہل یہ تک کہہ ڈالا کہ
 “عمران خان کی قیادت میں جنرل ضیاء الحق کے نا مکمل مشن کو پورا کروں گا”
 کھلے لفظوں میں کہیں تو منظرنامہ کچھ یوں بنتا ہے کہ تحریک انصاف “مشرف بہ ضیاالحق” ہو چکی ہے۔
 اعجاز الحق سے ہمارا اتنا پوچھنا تو بنتا ہے نا کہ آخر آپ کے والد ضیاء الحق کا مشن کیا تھا؟
 آخر وہ کون سا مشن ادھورا چھوڑ گئے جسے آپ عمران خان کے ذریعے پورا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ قوم اسی باقیات کے آفٹر شاکس ہی تو آج تک بھگتتی آرہی ہے اب اس قوم کو کون سے نئے امتحان میں ڈالنا ہے؟ نجانے کب اس قوم کا امتحان  ختم ہوگا؟ کسی کو بھی مذہبی لبادہ اوڑھا کر سیاسی اکھاڑے میں اتار دیا جاتا ہے، کیونکہ مذہب و روحانیت کا منجن خوب بکتا ہے۔
حالانکہ جو لوگ قرب ایزدی یا فنافی القدرت کا حد سے  زیادہ دعویٰ و اعلان کرتے رہتے ہیں دراصل وہ اتنے ہی قدرت سے بے نیاز یا دور ہوتے ہیں،جنہیں رانگ نمبر کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
جو  دوسروں کو تو قدرت کے عذاب سے ڈراتے رہتے ہیں مگر خود بڑی بے خوفی اور دیدہ دلیری سے زندگی کی رنگینیوں کو انجوائے کر رہے ہوتے ہیں۔ پارسائی کے یہ سب دعویدار اصل میں نارسسٹ یا فاشسٹ ہوتے ہیں، جنہیں اپنی ذات پر کسی بھی قسم کی چوٹ گوارا نہیں ہوتی اور خود کو ماورائے تنقید سمجھنے کے ساتھ ساتھ ایک دور فاصلاتی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔
 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سسٹم نے جتنی گنجائش و سہولت لمحہ موجود کے اس کاغذی ٹائیگر کو دی ہے کیا کبھی تاریخ میں کسی اور کو بھی دی گئی؟ کیا پہلے بھی کبھی کسی نے ریاست کے ساتھ اس قدر کھلواڑ کیا تھا؟
 عوام کو بتایا جانا چاہیے کہ آخر ایک ایسے بندے کو برداشت کی آخری سطح تک چانس دئیے جانے کے پیچھے کیا منطق ہو سکتی ہے؟
 جو بات بات پہ غلط حوالے دیتا ہو، جغرافیہ تبدیل کر دیتا ہو، ذرا سا وقت گزرنے پر یوٹرن لے لیتا ہو اور جسے چند گھنٹوں پہلے کہی گئی بات یاد نہ رہے؟
 ویسے ہمارے بھی کیا نصیب ہیں کہ ایک ایسا بندہ پونے چار سال تک مذہب کے نام پر حکومت کرتا رہا جس کا مذہب سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments