خلیل زاد، عمران خان صاحب اور سکرپٹ لکھنے والے


آج کل پاکستان سیاسی منظر اتھل پتھل ہو رہا ہے۔ روز کوئی نیا زلزلہ ملک کی عمارت کو ہچکولے دے رہا ہوتا ہے۔ کوئی عدالتوں کی طرف دوڑتا ہے، کوئی سڑکوں پر نعرے لگاتا ہے، کوئی شام کو ٹی وی کی کسی پروگرام پر بول کر دل کی بھڑاس نکالتا ہے۔ اور تمام سیاستدان صبح شام ایک دوسرے کے گریبان تار تار کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ لیکن حکومت پرایک پتھر بالکل غیر متوقع سمت سے چلایا گیا ہے۔ زلمے خلیل زاد صاحب نے اوپر تلے دو ٹویٹ جاری کیے ہیں جس میں پاکستان کی موجودہ حکومت پر کچھ اظہار برہمی فرمایا گیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت نے تو عمران خان صاحب کو ملک کا دشمن نمر 1 بنا دیا ہے۔ اس طرح تو ملک کے سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی کے بحران میں اضافہ ہو جائے گا۔ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ اس بات کے شواہد نظر آ رہے ہیں کہ حکومت ملک کی عدالتوں کو استعمال کر کے عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کو انتخابی عمل سے نکال باہر کرے گی۔ اس کے بعد موجودہ حکومت نے بڑی سرعت سے اپنی آنکھیں لال پیلی کر کے انہیں متنبہ کیا کہ وہ پاکستان کے داخلی معاملات سے دور رہیں۔ لیکن ان صاحبان کو کچھ تو سوچنا چاہیے تھا کہ اگر چہ زلمے خلیل زاد افغان ہیں لیکن امریکی سرکار میں سفارت کار رہ چکے ہیں۔ اور جسے اس کی چاٹ لگ جائے وہ اپنی جغرافیائی اور ذہنی حدود میں مقید نہیں رہ سکتا اور پورے جہاں کا درد اسے بے چین کیے رکھتا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد خلیل زاد صاحب نے ایک ٹویٹ جاری فرمائی اور اس میں اس بات پر اظہار تشویش کیا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام تو مشکوک ہو گیا ہے۔ اگر ایسے اقدامات اٹھائے گئے تو پاکستان کے لئے عالمی حمایت اور بھی کم ہو جائے گی اور ملک میں اختلافات اور تشدد میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے تہہ دل سے پاکستان کے حالات پر اظہار تشویش بھی فرمایا۔

حکومتی اتحاد نے اس پر مزید دانت پیسنے شروع کیے۔ گو کہ اس عاجز کا بھی یہی خیال ہے کہ کسی سیاستدان اور سیاسی پارٹی پر پابندی لگانا ایک انتہائی نقصان دہ قدم ہے اور اس قدم سے کسی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر زلمے خلیل زاد صاحب اور عمران خان صاحب میں کیا قدر مشترک ہے۔ کہ وہ اچانک چھلانگ مار کر دنگل میں کود پڑے ہیں۔ سوچ بچار کے بعد ایک ہی قدر مشترک نظر آتی ہے۔ اور وہ یہ کہ دونوں کو طالبان سے مذاکرات کرنے کا بہت شوق ہے۔ عرصہ دراز سے عمران خان صاحب بھی ہمیں سمجھاتے رہے ہیں کہ پاکستان کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ طالبان سے ہر دم مذاکرات کرتا رہے۔ وہ دھماکے کریں یا پاکستانیوں کا قتل عام کریں تب بھی ان سے مذاکرات کیے جائیں۔ وہ معاہدہ کر کے توڑ دیں تو دوبارہ مذاکرات کر کے نیا معاہدہ کر لو۔ اگر ماضی میں طالبان نے ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے تھے تو کیا ہوا؟ اب یہ طالبان وہ طالبان نہیں ہیں۔ اگر وہ افغانستان میں خواتین کے بنیادی حقوق سلب کر لیں تو عمران خان صاحب تسلی دیتے نظر آتے ہیں کہ اب افغانستان میں آئیڈیل حالات تو پیدا نہیں کیے جا سکتے۔ اسی تنخواہ میں گزارا کرو۔

اور جب امریکہ کو خیال آیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے انہیں شریک سفر بنا لیا جائے تو زلمے خلیل زاد صاحب کو امریکی حکومت کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا گیا۔ اور انہوں نے روز و شب کی محنت سے قطر میں وہ تاریخی معاہدہ کرایا جس کے نتیجہ میں امریکہ اپنے فوجیوں کو بخیر و عافیت نکال کر لے گیا اور طالبان نے حکومت میں محض شریک ہونے کی بجائے افغان حکومت کو راج نیتی کی تمام فکروں سے آزاد کر دیا۔ بہر حال جب طالبان سے مذاکرات چل رہے تھے تو بعض لوگوں نے ان خدشات کا اظہار کرنا شروع کیا کہ اگر طالبان سے معاہدہ کیا تو وہ معاہدوں کو نظر انداز کر کے افغانستان پر قبضہ کر کے پرانی تاریخ دہرائیں گے۔ چنانچہ 27 اپریل 2021 کو امریکی سینٹ کی کمیٹی میں خلیل زاد صاحب کو طلب کیا گیا تا کہ طالبان سے ہونے والے مذاکرات کے بارے میں ان سے سوالات کیے جا سکیں۔

چنانچہ اس کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے بتایا کہ میں نے تو طالبان کو بتا دیا ہے کہ یہ آپ کا فیصلہ ہے کہ کیا آپ ایک باغی گروہ کی حیثیت سے موجود رہنا ہے یا پھر عزت کے ساتھ اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ مل کر ایک سیاسی قوت کے طور پر رہنا ہے اور اب طالبان نے ہمیں یقین دہانی کرا دی ہے کہ وہ القاعدہ کی مدد نہیں کریں گے، اس لئے امریکہ اب دنیا کے دوسرے خطوں میں دہشت گردی پر توجہ دے سکے گا۔ یاد رہے کہ تاریخی طور پر القاعدہ کی زیادہ تر توجہ امریکہ اور مغربی ممالک پر حملے کرنے پر مرکوز رہی ہے جبکہ طالبان کی روایتی طور پر یہی کوشش رہی ہے کہ وہ کسی طرح افغانستان اور پاکستان کے علاقوں پر قبضہ کر کے اپنا اقتدار قائم کریں۔

انہوں نے فرمایا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا اس میں اہم کردار ہے اور ہم نے پاکستان کو کہا ہے کہ وہ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور پاکستان یہ اعلان کر چکا ہے کہ وہ افغانستان پر طالبان کے فوجی قبضہ کی حمایت نہیں کرتا۔ (اس وقت یہاں عمران خان صاحب کی حکومت تھی) ۔ پھر زلمے خلیل زاد صاحب نے کہا کہ اگر طالبان نے زبردستی افغانستان پر قابض ہونے کی کوشش کی تو افغانستان کی حکومت اور امریکہ اور اس کے اتحادی اور پورا خطہ اس کا بھر پور مقابلہ کرے گا۔ پھر انہوں نے پوری دنیا کو خوش خبری سنائی کہ اب افغانستان تبدیل ہو چکا ہے۔

اس پر اس کمیٹی کے سربراہ مینڈس (Menedez) نے سوال کیا کہ یہ بتائیں طالبان آخر افغانستان میں کس لئے لڑتے رہے ہیں؟ وہ تو اسی لئے لڑتے رہے ہیں کہ اپنے نظریات کے مطابق مذہبی حکومت قائم کریں گے۔ اس بات کی کیا تسلی ہے کہ وہ امریکی افواج کے جانے کے بعد پہلے کی طرح تنگ نظر حکومت قائم نہیں کریں گے۔ اس پر خلیل زاد صاحب نے فرمایا کہ انہوں نے انہی مقاصد کا اعلان کیا ہوا ہے لیکن وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اب بدل چکے ہیں۔ اور ان کے تاریک زمانے اب ماضی کا قصہ ہیں۔

اس پر مینڈس نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا آپ کا خیال ہے کہ وہ محض اس لالچ کی بنا پر کہ ان کی حکومت کو عالمی طور پر تسلیم کر لیا جائے گا اپنے اصل مقاصد سے دست بردار ہو جائیں گے اور جمہوری عمل کا حصہ بن جائیں گے۔ اس پر خلیل زاد صاحب نے کہا کہ ان عوامل کی اہمیت تو ہے لیکن اصل اہم بات یہ ہے کہ انہیں پتہ ہے کہ اب افغانستان کے لوگ ان کی بجائے جمہوری حکومت کو پسند کریں گے اور اگر انہوں نے زبردستی حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو انہیں بہت طویل خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس کمیٹی کے چیئر پرسن بھی آسانی سے جان چھوڑنے والے نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے دفتر نے رپورٹ جمع کروانی تھی کہ کیا طالبان اب تک طے پائی جانے والی شرائط کی پاسداری کر رہے ہیں کہ نہیں۔ اور میری اطلاعات یہ ہیں کہ انہوں نے ابھی سے خلاف ورزی شروع کر دی ہے۔

ان تیکھے سوالوں کے دوران خلیل زاد ہکلا بھی رہے تھے اور گھبرائے ہوئے بھی لگ رہے تھے۔ جلد ثابت ہو گیا کہ یا تو خلیل زاد صاحب کے تمام اندازے بالکل غلط تھے یا پھر وہ جان بوجھ کر سینٹ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے تھے کیونکہ طالبان نے معاہدے کی کسی ایک شرط کی پیروی بھی نہیں کی اور ان میں کسی تبدیلی کوئی علامات نظر نہیں آ رہیں۔ اور جس طرح ایک ڈرامے کا سکرپٹ چلتا ہے، اس طرح امریکہ کی فوجیں افغانستان سے نکلیں، بہادر افغان فوجی میدان جنگ سے بھاگ گئے اور امریکہ کا چھوڑا ہوا اسلحہ بھی طالبان کے ہاتھ لگ گیا۔ اور طالبان بلا شرکت غیر حکومت کے مالک بن گئے۔

اب خلیل زاد صاحب نے پاکستان کے معاملات میں دخل اندازی شروع کی ہے اور وہ بھی اس وقت جب کہ پاکستانی طالبان کو ایک بار پھر مضبوط کیا جا رہا ہے اور وہ زور پکڑ رہے ہیں۔ اور طالبان کے ہمدرد رعمران خان صاحب کی سیاسی پوزیشن بھی مضبوط ہو رہی ہے۔ معلوم نہیں کہ اس ڈرامے کا مسودہ لکھنے والوں نے اس میں کیا لکھ رکھا ہے۔ پردہ اٹھنے کا انتظار فرمائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments