اخلاقی عدم استحکام


جب سے کائنات اپنی حیات نو کی جلوہ گری سے آشنا ہوئی ہے تو اسے نظم و ضبط اور تدارک و توازن کے حسین امتزاج سے منور کیا گیا ہے۔ ڈسپلن کے پہرے میں اڑنے والا ہر ذرہ اپنے خالق لم یزل کی خدمت میں رطب اللسان ہے۔ معاشرے میں انسان کے عادات و اطوار، رفتار و گفتار اور زیست جینے کے طور طریقے کو اخلاق کہتے ہے جو دو قسموں سے تعلق رکھتا ہے یعنی اچھا اور برا اخلاق۔ اچھے اخلاق سے مراد انسان اپنے جذبات و نظریات کو ترک کر کے دوسروں کے لیے اچھا سوچنے اور کرنے کا عمل، جبکہ اس کے برعکس دوسروں کی عزت و آبرو کا خیال نہ رکھنے والا انسان معاشرے میں ایک جانور تصور کیا جاتا ہے۔ حدیث پاک ہے :

”بیشک قیامت کے دن مومن کے ترازو میں سب سے وزنی چیز اس کے اخلاق حسنہ ہوں گے اور بیشک اللہ تعالیٰ بد کو اور بے احیاء کو ناپسند کرتا ہے“

(جامع ترمذی ابوداؤد)

پاکستانی معاشرے کو مدنظر رکھ کر مختلف لوگوں کے نظریات یہ ہیں کہ ترقی، امن اور معاشی وسائل کی کمی ہے۔ معاشرتی بے راہ روی اور آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوگ معاشرتی معمولات پر عمل نہیں کرتے۔ ان مسائل کے پیدا ہونے کی وجہ دوسروں کے ساتھ ہمدردی، مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کے تقاضوں کے ساتھ اپنے حقوق و فرائض سے دوری ہے۔ ہمیں ان مسائل پر قابو پانے کے ساتھ حسن اخلاق کو اپنانے اور اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ معاشی ترقی کے ساتھ امن قائم ہو سکے۔

آج دور جدید کے نوجوان کو دیکھا جائے تو گھر سے وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے نکلتا ہے لیکن سڑکوں اور بازاروں میں لوگوں کے گریبان پر ہاتھ ڈالتا ہے۔ وہ زندگی کا مقصد بھول چکا ہے۔ لوگوں کے لیے آسانیاں اور خوشی کا باعث بننے کی بجائے ان کی عزت کو تار تار کرتا نظر آتا ہے۔ ضرورت ہے احساس و تعاون اور حسن اخلاق کے ساتھ پیش آنے کی تاکہ اخلاقی عدم استحکام ختم ہو سکے۔ اس کیفیت کو شاعر مشرق یوں بیان کرتا ہے :

فطرت کو دکھایا بھی ہے دیکھا بھی ہے تو نے
آئینہ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی
(علامہ اقبال)

آج ہم دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو پورے عالم پر خوف و ہراس کے بادل چھائے ہوئے نظر آتے ہیں کہیں امن کا ابر رحمت نظر نہیں آتا۔ اس وقت دنیا کا ہر ملک اخلاقی عدم استحکام کے سبب سہمی ہوئی فضا میں زندگی کے اکھڑے سانس لے رہا ہے۔ شیاطین جن و انس کی چیرہ دستیاں امن و عالم کو راکھ بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔ دہشت گردی کی ہولناک فضا نے عصر حاضر میں پورے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ دور حاضر میں کسی بھی فرد کی جان محفوظ نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے مال و آبرو کو تحفظ حاصل ہے۔

پوری دنیا عدم مساوات کا شکار ہے اور مساوی حقوق میسر نہ ہونے کی وجہ سے آسمان دنیا پر ہوس و خود غرضی، جنگ و جدل، بربریت، چوری و ڈاکا زنی، اغوا و بدکاری اور قتل و غارت گری کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ حسن اخلاق کا سورج ان گھٹاؤں میں گھرا ہوا ہے اور اس کی کرنیں تگ و دو پر ماند پڑ چکی ہیں ان بے رحم گھٹاؤں کے عالم میں آفتاب امن کا پانی پوری آب و تاب سے اس دھرتی کے باسیوں کی تاریک نگری میں اجالا پھیلانا عصر حاضر کی ضرورت ہے جو صرف اور صرف حسن اخلاق سے ممکن ہے۔ بقول شاعر:

ہوس نے کر دیا ٹکڑے ٹکڑے نوع انسان کو
اخوت کا بیان ہو جا، محبت کی زبان ہو جا
(علامہ اقبال)

جدید دور میں اخلاقی عدم استحکام کے سبب اپنی حالت زار پہ نوحہ بھی اجنبی دکھائی دیتا ہے اور آنکھوں کی سوجن اپنے تریاق سے محروم ہے اپنے ہی دیس میں اجنبی مسافر کی طرح مروت و سخاوت سے محروم، کرپشن اور معاشی بد حالی نے قوم کو دیمک سے زیادہ بے توقیر کر دیا ہے۔ مصلحت کوشی کے فکری انحطاط نے ہمارے رگ و پے سے غیرت و حمیت چھین لی ہے۔ اپنے آباء سے غیر متصل یہ ماڈرن عوام خودی کے فلسفہ حیات سے کب آشنا ہوتے ہیں جن کی ناؤ اپنے بے ربط کردار کے مہیب سایہ میں بد اخلاقی اور ہوس زر کے گہرے سمندر میں ہچکولے لے رہی ہے۔ بھٹکے ہوئے آہو کی طرح اپنی منزل کی تلاش میں کسی جگنو کے جلو میں محو سفر ہے۔

آج پاکستانی معاشرہ اور سیاست اخلاقی عدم استحکام کی وجہ سے جس دوراہے پر کھڑی ہے اسے صرف اخلاق حسنہ کا ”رول ماڈل“ ہی بحران کو ٹال سکتا ہے۔ جو اداروں اور معاشرت کے کرداروں کا قبلہ درست کرے جس میں اقربا پروری، رشوت خوری اور ذاتی پسند ناپسند کے کلچر کی بنچ کنی ہو، ہمارے سامنے ایک مجرب اسوہ حسنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خلفائے راشدین کی صورت میں موجود ہے۔ ”خیرالقرون قرنی“ کا درس ہمارے قلوب و اذہان کو تطہیر دے سکتا ہے۔ اپنے قبلہ کا رخ درست کر کے واشنگٹن اور لندن کے ماڈل اپنانے کی بجائے مدینہ و نجف کا راستہ اپنانا ہو گا۔ جو ہمارے اسلام کا ہمیشہ محور رہا۔ بقول شاعر:

خیرہ نہ کر سکا مجھ کو جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
(علامہ اقبال )

ماہرین عمرانیات کے مطابق اخلاقی عدم استحکام کے پھیلاؤ میں سوشل میڈیا کا کردار بھی نمایاں ہے۔ سوشل میڈیا نے انسانی اور معاشرتی تعلقات میں بہت سی تبدیلیاں برپا کی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں انسانی تعلقات جو کہ پہلے ابتدائی اور ثانوی گروہوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ براہ راست تفاعل کم ہوتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے بکثرت استعمال سے معاشی ثقافتیں اور روایات لڑ رہی ہیں اور لوگ آؤ دیکھتے نہ تاؤ فوراً اجنبی چیزوں کی تقلید شروع کر دیتے ہیں۔

جس سے حسن اخلاق میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ نفسیاتی اور سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں از خودیت کم ہو رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ملک میں تعلیم موجود ہے تربیت کا فقدان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا کے درست اور عقلی استعمال کی تربیت فرد کو گھر، رسمی اور غیر رسمی تعلیمی ادارہ جات دیں تاکہ نئی نسل ملک کے لیے مفید شہری ثابت ہو سکے۔

جدید دور اور گاؤں کے تناظر میں دیکھا جائے تو اونچی آواز میں ڈیک لگانا، گھر یا گاڑی میں میوزک چلانا میراث بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ بازاروں میں بلا وجہ کھڑے ہونا، آنے جانے والوں کو گھورنا ان کے بارے میں کمنٹس پاس کرنا، اپنے گھر کا کچرا گلی یا دوسروں کے دروازے کے باہر پھینکنا اور اگر کوئی ازراہ مروت آپ کو اپنے گھر میں دعوت دے تو آپ اس کی غیرت کا بھرکس نکال دیتے ہیں، اس کے پکوانوں میں میم میخ نکالتے ہیں اور جاتے ہوئے اس کے گھر کے پردوں کے ساتھ اپنے بوٹ صاف کرتے ہیں، گندے ہاتھ میز پوش کی زینت بناتے ہیں۔

یہ چھوٹی چھوٹی باتیں اخلاقی عدم استحکام کے پھیلاؤ کا باعث بنتی ہیں اور اگر اس کے برعکس عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو سوڈان ایک مسلمان ملک ہے ابھی ترقی کی منازل سے بہت پیچھے ہے لیکن اس کا قانون بالا ہے، سکول قریب ہوں اور بچے سڑک پار کر رہے ہوں تو گاڑیاں ایک فاصلے پر رک جاتی ہیں۔ آہستہ آہستہ رینگتی ہوئی بچوں پر نہیں چڑھ دوڑتی۔ وہاں پرسکون ماحول ہے۔ ایک فلاسفر کا قول ہے :

”اکثر لوگ اپنی گفتگو سے اگر غیبت، بہتان اور تہمت نکال دیں تو باقی صرف خاموشی رہ جاتی ہے جو کہ ایک بہترین عبادت ہے“

(اشفاق احمد)

مختصر والدین، اساتذہ اور روحانی و دینی راہنماؤں کی مثلث سے معاشرتی تغیر ممکن ہے۔ تاریخ اسلام کے مطالعے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے ساتھ اسلامی اداروں کے استحکام اور قانون کی حکمرانی سے عدل و انصاف، مساوات، حقوق و فرائض کا تعین، حسن اخلاق کے ساتھ معاشی ترقی کا سہانا خواب طشت ازبام ہو سکتا ہے۔ اور اخلاقی عدم استحکام کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments