انڈیا اور پاکستان: تقسیم کے خونریز فسادات کے مابعد نفسیاتی اثرات



دس برس سے زیادہ عرصہ ہو گیا کہ ایک افغانی بزرگ کے ساتھ ترجمان کے طور پر ہالینڈ کے نفسیاتی امراض کے مرکز ” centrum 45 مرکز 45“ جانا پڑ گیا۔ معلوم ہوا کہ یہ مرکز دوسری عالمی جنگ کے فوری بعد جنگ کے صدمات سے متاثرہ افراد کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ یہ مرکز نہ صرف جنگ کے صدمات سے متاثر افراد کا علاج کرتا ہے بلکہ اس انسٹیٹیوٹ نے ”PSTD، ( post traumatic syndrome disorder ) پر بہت تحقیقات بھی کی ہیں۔ جن افغانی بزرگ کی مدد کے لئے وہاں جاتا تھا، ان کے خاندان کے اکثر افراد طالبان کے ہاتھوں مارے جا چکے تھے، وہ نجیب اللہ کے دور میں ریڈیو افغانستان سے وابستہ تھے۔ جنگ زدہ افراد کی نفسیاتی بحالی کے اس مرکز میں بہت سے ڈچ نوجوان مرد و خواتین بھی نظر آتے تھے۔ ایک نوجوان نے گپ شپ کے دوران بتایا کہ وہ PSTD کے علاج کے سلسلے میں یہاں آتا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ عالمی جنگ تو تمہارے دادا کے زمانے کی بات ہے تمہیں کس بات کے صدمات ہیں۔ اس نوجوان نے بتایا کہ وہ اپنے دادا کے جنگی صدمات سے ہی متاثر ہے۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ دادا کے صدمات پوتے کو کیسے منتقل ہوسکتے ہیں! ۔ نوجوان نے بتایا کہ جنگی ٹراما اس کو براہ راست نہیں ملا بلکہ پہلے اس کی ماں متاثر ہوئی اور پھر وہ ٹراما ماں سے اسے ملا۔ اس نوجوان کے دادا کو انڈونیشیا میں جنگی خدمات کے دوران جاپانیوں نے قیدی بنالیا تھا۔ جاپانیوں کی جنگی قید کسی بھی عالمی اصولوں سے ماوراء تھی۔ وہاں جنگی قیدیوں پر طرح طرح کے جسمانی اور نفسیاتی مظالم ڈھائے جاتے تھے۔ جب جنگ ختم ہو گئی اور اس لڑکے کے دادا واپس آئے تو رو رو کر اپنے اوپر ہونے والے مظالم اپنے بچوں کو بتاتے تھے۔ انہیں مظالم کی داستانیں اس لڑکے نے بچپن سے اپنی ماں سے سنیں جس کے نتیجے میں یہ لڑکا نفسیاتی امراض کا شکار ہو گیا۔ گویا جنگی صدمات اگلی نسلوں تک منتقل ہوسکتے ہیں۔ اس انسٹیٹیوٹ میں جانے سے نفسیاتی صدمات سے تھوڑی بہت آگاہی ہوئی اور اندازہ ہوا کہ اس انسٹیٹیوٹ نے ایک صحتمند قوم کی تشکیل میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ جنگی صدمات سے منسلک نفسیاتی بیماریوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے جرمنی میں بھی بہت سے ادارے قائم کیے گئے کیونکہ یہ ملک بھی جنگی جرائم سے براہ راست متاثر ہوا تھا۔ نازی فوجی گلی محلوں سے صدیوں سے بسے ہوئے یہودی النسل جرمن خانوادوں کو گھروں سے نکال کر لے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ سکول جانے والے بچے اپنے ہم جماعت بچوں اور ان کے والدین کی گرفتاری اور ان کے جبری کیمپوں میں منتقلی پر کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔ نفسیاتی علاج کے ماہرین نے یورپین جنگ زدہ افراد کی نفسیاتی بحالی میں شاندار کردار ادا کیا، اس عنوان پرلا تعداد تحقیقی مقالے لکھے گئے۔

ہالینڈ میں اپنی پڑھائی کے دوران ایک خاتون کے گھر پر ایک کمرہ کرائے پر لیا تھا۔ ان خاتون کے والد انڈونیشیا میں ڈچ فوج میں تھے اور وہ بھی جاپانیوں کی قید بھگت چکے تھے۔ قید سے واپس آ کر انہوں نے ایک ڈچ لڑکی سے شادی کی، ہماری یہ مالک مکان انڈونیشین والد اور ڈچ والدہ کی اولاد تھیں۔ مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ خاتون بھی جنگی ٹرامے کا شکار ہیں۔ یہ بات اس وقت معلوم ہوئی کہ جب میں نے انہیں اپنے فلیٹ پر کھانے پر مدعو کیا۔ اس وقت میرے پاس ایک جاپانی دوست وقتی طور پر قیام پذیر تھا جو میرا کولیگ بھی تھا۔ کھانے کی میز پر میری مہمان نے جاپانی دوست کے ساتھ بہت درشت لہجہ اختیار کیا۔ جاپانی دوست کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ عالمی جنگ میں اس کا کوئی بھی کردار نہیں تھا بلکہ اس کی دادی خود ہیرو شیما کے نیوکلیئر حملے میں معجزانہ طور پر بچی تھیں۔ اس شام کھانے کی میز پر اندازہ ہوا کہ جنگی ٹراما کس طرح اچانک سامنے آ سکتا ہے۔

اب ایک بنگالی خاتون کے جنگی ٹرامے کی بابت سنئے، یہ خاتون کلکتہ کی مشہور ہندوستانی کلاسیکل رقص ”اڈیسی“ کی استاد ہیں اور تقریباً ہر برس ہالینڈ میں اپنی ٹیم کے ساتھ یہاں رقص کی پرفارمنس کے لئے آتی تھیں۔ ہم ان کی ٹیم کی اکثر میزبانی کرتے تھے۔ انہیں ہمارے پاکستانی اور مسلم پس منظر کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ وہ ہمیں کوئی مکس قسم کا لوکل ہی سمجھتی تھیں۔ ان سے گفتگو ہمیشہ انگلش میں ہی ہوتی تھی کیونکہ انہیں انگلش اور بنگالی کے سوا کوئی اور زبان نہیں آتی تھی۔ ایک شام کھانے کے بعد اتفاق سے ہندوستان کے بٹوارے کا ذکر چل نکلا۔ ان آرٹسٹ خاتون نے دل کھول کر مسلمانوں کو گالیاں دیں، خاص طور سے بنگالی مسلمانوں کو۔ میں نے ان سے کہا کہ ستر برس پرانے قصے پر آپ اتنی چراغ پا کیوں ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ تم کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے خاندان پر مسلمانوں نے کیا ظلم ڈھائے تھے تو تم رات کو سو نہ سکو۔ خیر ان کی میزبان اور ہماری دوست نے بمشکل اس دکھ بھرے موضوع سے جان چھڑائی کہ وہ اپنی توجہ رقص کی ریہرسل پر مرکوز کرسکیں۔

گفتگو قوموں کے نفسیاتی امراض پر شروع ہوئی تھی۔ میں نے ڈاکٹر اشتیاق صاحب کی تحقیقی تصنیف The Punjab: Bloodied، Partitioned and Cleansed کا مطالعہ کیا ہے۔ پنجاب اور بنگال میں تقسیم ہند کے بعد ہونے والے نسلی فسادات، نسل کشی اور نقل مکانی عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑا سانحہ ہے۔ اس سانحہ میں جہاں لاکھوں لوگ قتل و بے گھر ہوئے وہاں کروڑوں لوگ نفسیاتی امراض کا شکار ہوئے۔ مجھے یقین ہے کہ ان نفسیاتی صدمات نے ان افراد کی نسلوں کو بھی متاثر کیا ہو گا یا شاید اب بھی متاثر کر رہے ہوں گے۔ پنجاب اور بنگال والوں کے صدمات کے علاوہ سندھ اور چولستان کے رہنے والے بھی نفسیاتی صدمات سے دوچار ہیں کہ جن کی زمین پر اچانک بارڈر کی لکیر کھینچ دی گئی تھی۔ یہ لوگ اچانک بارڈر کے اس پار رہنے والے اپنے عزیز و رشتہ داروں سے جدا کر دیے گئے تھے۔ حال ہی میں سب صحارا ممالک میں تشدد کے موضوع پر ایک ریسرچ پیپر کا مطالعہ کیا تھا جس میں ان اقوام میں تشدد کی وجہ PSTD بتائی گئی تھی۔

میری معلومات میں نہیں کہ انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں قوم کی نفسیاتی صحت پر کوئی توجہ دی گئی ہو۔ نفسیاتی بیمار قوم سے، اساتذہ، بیورو کریٹ، فوجی افسر و سیاستدان بھی نفسیاتی بیمار ہی میسر آتے ہیں۔ شاید ان اجتماعی نفسیاتی بیماریوں اور نفرتوں کی ماری ہوئی یہ اقوام امن کے راستے پر چلنے میں نہ صرف ناکام ہیں بلکہ یہ اندرونی تشدد پر بھی قابو پانے کی اہلیت نہیں رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں برصغیر پاک و ہند اجتماعی تشدد mob lynching کے لئے مشہور ہیں، جو ایک نفسیاتی بیماری جانی جاتی ہے۔ شاید وقت اب بھی ہاتھ سے نہیں نکلا ہے، ان ممالک کی ریاستوں کو جنگی صدمات سے نبرد آزما ہونے کے لئے انسٹی ٹیوشنز قائم کرنے چاہئیں۔ نفسیاتی طور پر صحت مند اقوام ہی اس دنیا کو امن کا تحفہ عطا کرتے ہوئے آنے والے بڑے ماحولیاتی حادثات سے نمٹنے کے لئے تیار ہو سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments