’میرے والد مجھے لوہے کی سلاخ سے مارتے تھے اور کئی گھنٹوں تک میرا خون بہتا رہتا تھا‘


کیرتی اور سندر
’میری ماں نے مجھے لاٹھیوں اور ہاتھوں سے مارا۔ انھوں نے میرے تلووں کو جلا کر مجھے تشدد کا نشانہ بنایا۔ میرے والد نے مجھے اروامانائی (سبزی کاٹنے والے آلے) سے مارنے کی کوشش کی۔‘

کیرتی (فرضی نام) اب بھی کانپ جاتی ہیں جب انھیں 2018 کا وہ دن یاد آتا ہے جب انھوں نے ماں باپ کو بتایا تھا کہ وہ ایک دلت لڑکے، سندر (فرضی نام) سے شادی کرنا چاہتی ہیں۔

کیرتی کی باتیں سن کر ان کے والدین غصے میں آگئے کیوں کہ لڑکے کا تعلق دلت برادری سے تھا۔ اس سے کیرتی کے والدین کے ذات پات کے فخر کو جھٹکا لگا اور پھر اگلے چھ ماہ تک کیرتی کو شدید جذباتی اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

کیرتی کے ساتھ اس کے والدین کا یہ سلوک ان کے لیے ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔ لیکن صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو گئی جب ایک دن سندر اپنے والدین کے ساتھ شادی کی اجازت لینے کیرتی کے گھر گئے۔

سندر بتاتے ہیں ’اس کے والد نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں نیوز چینلز دیکھتا ہوں اور کیا میں بھی کھلی سڑک یا ریلوے لائن پر مرنا چاہتا ہوں‘۔

کیرتی کا کہنا ہے کہ سندر کے واپس جانے کے بعد ان کے والد نے ان کی ماں کو وہ کرسیاں باہر پھینکنے کو کہا جس پر سندر اور ان کے والدین بیٹھے تھے۔ وہ لوگ جو پھل، پھول اور مٹھائی لے کر آئے تھے، انھیں بھی کوڑے دان میں پھینک دیا گیا۔

اس کے بعد انھوں نے کیرتی پر خودکشی کا نوٹ لکھنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کردیا۔

اس وقت کو یاد کرتے ہوئے، سندر کہتے ہیں ’کیرتی کے والدین نے سوچا کہ وہ ان خطوط کو بعد میں استعمال کریں گے۔ کیرتی سمجھ گئی کہ ہم نہیں بچیں گے اور جان بچانے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ دونوں شادی کر لیں۔‘

انھیں اپنی جان کو لاحق خطرہ صاف نظر آنے لگا تھا۔

جب کیرتی نے سندر سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو ان کی عمر 25 سال تھی اور وہ مالی طور پر خود مختار تھیں۔ لیکن، ان کے والدین یہ نہیں سمجھتے تھے کہ کیرتی اتنی ذہین ہے کہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں خود فیصلے کر سکے۔ ان کے تعصب اور ذات پات پر فخر کو ’غلط معلومات نے ہوا دی‘۔

کیرتی کہتی ہیں ’میری ماں نے مجھے دھوکہ دینے کے لیے کئی بار مجھے لیکچر دیا۔ ایک بار انھوں نے مجھے بتایا کہ دلت ہر روز حلف لیتے ہیں کہ وہ اونچی ذات کی خواتین کو تلاش کریں گے اور انھیں شادی کے لیے راضی کریں گے۔ جو باتیں میں نے سنیں اس میں یہ سب سے مضحکہ خیز بات تھی۔ میں نے سوچا کہ ایک سکول ٹیچر اس قسم کی سوچ کیسے رکھ سکتا ہے۔‘

غیرت کے نام پر قتل

2006 میں، لتا سنگھ بنام ریاست اتر پردیش کیس میں اپنے ایک تاریخی فیصلے میں، سپریم کورٹ نے کہا تھا، ’غیرت کے نام پر قتل میں کوئی چیز قابل احترام نہیں ہے‘۔

غیرت کے نام پر قتل کو ’جاگیردارانہ ذہنیت کے حامل ظالم لوگوں کی جانب سے قتل کا شرمناک عمل‘ قرار دیتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ ایسا کرنے والوں کو سخت سزا دی جانی چاہیے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ جو بھی مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی کو دھمکی دیتا ہے اس کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔

آج اس فیصلے کے 17 سال بعد بھی مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو شادی کے فیصلے پر دھمکیاں، ڈرانے دھمکانے اور وحشیانہ تشدد کے واقعات پورے ملک میں عام ہیں۔

خود کو بچانے کے لیے، کیرتی اور سندر نے رجسٹرار کے دفتر جا کر شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد دونوں اپنے دفتر واپس آگئے اور پہلے کی طرح کام کرنے لگے۔ انھوں نے اپنی شادی کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔

لیکن، خبر سامنے آ ہی گئی اور انھیں اس کے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔

اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کیرتی کہتی ہیں ’میرے والد مجھے لوہے کی سلاخ سے مارتے تھے اور کئی گھنٹوں تک میرا خون بہتا رہتا تھا۔‘

کیرتی کو ایک خط لکھنے کے لیے کہا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر اس کی شادی ناکام ہو جاتی ہے تو وہ کبھی بھی اپنے والدین کی جائیداد پر دعوی نہیں کرے گی اور نہ ہی ان سے ملنے کی کوشش کرے گی۔

کیرتی کو صرف 100 روپے کا نوٹ دے کر گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ سندر اور کیرتی دونوں سرکاری نوکری کرتے تھے۔ پیسے کے معاملے میں دونوں اپنے پیروں پر کھڑے تھے جس سے ان کی مدد ہوئی۔

جان بچ گئی

کیرتی

اس لیے ان کی حالت کنگی، مروگیسن، ویمالادیوی، شنکر اور الاوراسن جیسی نہیں ہوئی۔۔۔ تمل ناڈو میں ذات پات کی بنیاد پر غیرت کے نام پر مارے جانے والوں کی فہرست طویل ہے۔

ایسی شادیوں میں جب جوڑے میں سے کسی ایک کا دلت برادری سے تعلق ہوتا ہے تو انھیں حملوں اور پرتشدد رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

2015 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق تمل ناڈو کے صرف تین فیصد لوگوں نے اپنی ذات سے باہر شادی کی تھی۔

جبکہ سینئر سکالر اور انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سائنس کے سابق ڈائریکٹر کے سری نواسن کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق قومی سطح پر مختلف ذاتوں میں شادیوں کا تناسب بہت زیادہ ہے یعنی 10 فیصد۔

1968 کے ہندو میرج ایکٹ (تمل ناڈو ترمیم) کے تحت مختلف ذاتوں کے افراد کے درمیان شادیوں کو قانونی حیثیت دی گئی تھی۔

آج، تمل ناڈو میں بہت سے لوگ پرانے برہمنی رسم و رواج کو مسترد کرتے ہوئے، مختلف ذاتوں میں شادیاں کرتے ہیں۔ لیکن، ان تمام کوششوں کے باوجود، بہت سے ایسے جوڑے تشدد کا شکار ہونے سے نہیں بچ پاتے۔

ایسی شادیوں کی رجسٹریشن میں مدد کرنے والے وکیل رمیش کے مطابق ایسے جوڑوں کے معاشرے میں غیر محفوظ رہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی شادیوں کو سرکاری طور پر رجسٹر نہیں کروانا چاہتے۔ اپنے گھر والوں کے غضب سے بچنے کے لیے بہت سے جوڑے دوسرے شہروں اور قصبوں میں جا کر مندروں میں شادی کرتے ہیں۔

رمیش کہتے ہیں کہ ’اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب ایک اونچی ذات کی لڑکی کے والدین گمشدگی کی شکایت درج کراتے ہیں، تو پولیس اکثر شادی شدہ جوڑے کا سراغ لگا کر لڑکی کو اس کے والدین کے پاس بھیج دیتی ہے۔ کیونکہ ان کی شادی قانونی طور پر درست نہیں ہوتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’بیٹے کو ڈانٹا کہ تیری شادی کی عمر ہے اور میں شادی کر لوں تو لوگ کیا کہیں گے‘

بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دینے کے لیے 29 سال بعد دوبارہ شادی کرنے والا جوڑا کون ہے؟

انڈین کرکٹ بورڈ پر ذات پات کی بنا پر جانبداری کے الزامات کیوں لگ رہے ہیں؟

مختلف ذاتوں میں شادیوں کے لیے ازدواجی ویب سائٹس

جیرانی

مصنفہ جیرانی کہتی ہیں ’چونکہ اپنی ہی برادری میں شادی کرنے کا یہ رواج عام ہے، اس لیے ریاست میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی بڑی تعداد ہے‘

ایسی شادیوں کی رجسٹریشن بھی آسان نہیں ہے۔ رمیش کا کہنا ہے کہ شادی رجسٹرار اکثر جوڑوں سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے والدین کو شادی کے لیے رضامندی حاصل کرنے کے لیے رجسٹرار کے دفتر میں لے آئیں۔ جبکہ شادی کے قانون کے تحت اس کے لیے کوئی جبر نہیں ہے۔

معلومات کے حق کے تحت حاصل کیے گئے حکومتی جوابات کے شواہد کے ساتھ، رمیش حکام کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسی شادیوں کو رجسٹر کرنے کے لیے قانون کے تحت والدین کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ اس تھکا دینے والے عمل کو مکمل کرنے میں شادی کرنے والے جوڑوں کی مدد بھی کرتے ہیں۔

لیکن، ایسی شادیوں کو فروغ دینے اور جوڑوں کے تحفظ کے لیے یہ ایک بہت چھوٹا قدم ہے۔ رمیش مزید بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں تاکہ مختلف ذاتوں کے لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل جائیں اور اپنا جیون ساتھی تلاش کر سکیں ایسے ہی جس طرح عام لوگ اپنی ذات میں شادیاں کرتے ہیں۔

اسی لیے دو ماہ قبل رمیش نے منیدم کے نام سے ایک ازدواجی ویب سائٹ بھی بنائی ہے۔ منیدم کا مطلب ہے انسانیت۔

اس پر تقریباً 100 لوگوں نے اپنا اندراج کرایا ہے۔ یہ ویب سائٹ ایک بڑا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا قدم ہے۔

دلت مصنف اور کارکن جیرانی کا کہنا ہے کہ تمل ناڈو میں لوگ اپنی ذات کے اندر شادی کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

یہاں تک کہ وہ اپنے گھر کی لڑکیوں کی شادی ان کے ماموں یا کزن سے کر دیتے ہیں تاکہ وہ برادری سے باہر شادی نہ کریں۔

پانچویں نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق، تمل ناڈو میں 28 فیصد خواتین نے کہا کہ ان کی شادی اپنے ہی خون کے رشتہ داروں سے ہوئی ہے۔ تمل ناڈو کی یہ اوسط پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

جیرانی کہتی ہیں ’چونکہ اپنی ہی برادری میں شادی کرنے کا یہ رواج عام ہے، اس لیے ریاست میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی بڑی تعداد ہے۔‘

لیکن، ان جرائم کے لیے درج مقدمات کی تعداد بہت کم ہے۔ ریاستی کرائم بیورو کے ریکارڈ کے مطابق 2013 سے اب تک ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے صرف دو کیس درج ہوئے ہیں۔ اور یہ دونوں واقعات 2017 میں درج ہوئے تھے۔

لیکن، دلتوں کے حقوق اور ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے خلاف کام کرنے والی ایک این جی او ایویڈینس کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2020 سے 2022 کے درمیان تمل ناڈو میں غیرت کے نام پر قتل کے 18 واقعات ہوئے۔

انصاف کے لیے طویل جنگ

رمیش

رمیش نے ایسی 200 سے زیادہ شادیوں کی رجسٹریشن میں مدد کی ہے

تمل ناڈو میں ذاتوں کی بنیاد پر تفریق کے خلاف کام کرنے والی ایک تنظیم کے جنرل سکریٹری سیموئیل راج کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر واقعات اس لیے پیش آتے ہیں کیونکہ حکومت نے ایسی شادیوں میں داخل ہونے والے جوڑوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں نہیں بنائی ہیں۔

اپریل 2016 میں، مدراس ہائی کورٹ نے تمل ناڈو حکومت کو ہر ضلع میں خصوصی سیل قائم کرنے کی ہدایت کی، ایک خاتون وملا دیوی کی موت کے بعد، جس کی شادی ایک دلت نوجوان دلیپ کمار سے ہوئی تھی۔

انسانی حقوق کے کاکرنوں کا مطالبہ ہے کہ 24 گھنٹے ہیلپ لائن نمبر ہوں اور شکایات کے اندراج کے لیے شادیاں کرنے والے جوڑوں کو موبائل ایپ اور آن لائن سہولت بھی فراہم کی جانی چاہیے۔

بی بی سی نے تمل ناڈو کے چار زونز کے چار مختلف اضلاع میں ہیلپ لائن نمبر پر کال کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ اس شعبے میں کام کرنے والے لوگوں کا یہ بھی الزام ہے کہ پولیس اکثر ایسے تعلقات کی تحقیقات میں لاپرواہی کا مظاہرہ کرتی ہے۔

سیموئل راج کہتے ہیں ’جب والدین پولیس کے پاس جاتے ہیں، تو پولیس اکثر غیر رسمی طور پر پنچایت کے ذریعے معاملے کو چھپا دیتی ہے اور جوڑوں کو الگ کر دیتی ہے۔ اونچی ذات کی خواتین کو اکثر اپنے گھر والوں کے ساتھ واپس بھیج دیا جاتا ہے، اور اکثر ایسی خواتین زندہ نہیں بچتیں۔‘

وملا دیوی کی وفات 2014 میں ہوئی تھی۔ تقریباً ایک دہائی بعد بھی مقدمہ چل رہا ہے۔ جب ہم نے ا ن کے شوہر دلیپ کمار سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ اب بھی اپنی بیوی کے لیے انصاف کی امید کر رہے ہیں جو ذات پات کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔ ایسے معاملات میں سزا کی کم شرح کی بہت سی وجوہات ہیں۔

سیموئل راج بتاتے ہیں ’عام طور پر جب کوئی قتل ہوتا ہے، تو مقتول کا خاندان انصاف کے لیے لڑتا ہے۔ لیکن ذات پات کے قتل میں اکثر خاندان کے افراد ہی قاتل ہوتے ہیں۔ قصورواروں کو سزا دینا تو دور کی بات، انصاف کے لیے لڑائی شروع کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی۔‘

مشکل اور طویل جنگ

2022 میں، دلت مانو ادھیکار رکھشک نیٹ ورک، ذات پات مخالف کارکنوں اور تنظیموں کے ایک گروپ نے مل کر ایک بل کا مسودہ تیار کیا تھا۔

اس بل میں غیرت کے نام پر ہونے والے مظالم کی روک تھام اور ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ متاثرین کے معاوضے اور بحالی کے انتظامات کی بھی تجویز ہے۔

کیرتی اب دو سال کے بچے کی ماں ہیں۔ پچھلے چار سالوں میں ان کی ماں نے ان سے صرف دو بار بات کی ہے اور وہ بھی اپنے نواسے کی پیدائش کے بعد۔

شادی کے بعد بھی کیرتی کے والد ان سے ناراض ہیں اور انھوں نے کبھی کیرتی سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔

کیرتی کہتی ہیں ’مجھے امید ہے کہ ایک دن وہ مجھے سمجھیں گے۔‘

  • بعض لوگوں کے نام ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کیے گئے ہیں۔

(’بی بی سی شی‘ سیریز کی پروڈیوسر: دیویا آریا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments