کہے حسین فقیر نمانا


یہ دو ہزار سترہ کا عرصہ تھا جب ٹوٹی پھوٹی نظمیں لکھ کر میں نے ایک حبس زدہ شام میں ملتان آرٹس فورم کے دروازے پر دستک دی۔ ان دنوں ملتان آرٹس فورم کے ہفت روزہ اجلاس علی گڑھ گرلز کالج گول باغ میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ مرکزی دروازے پر موجود سیکورٹی گارڈ سے اجازت لے کر جب اندر داخل ہوا تو گھپ اندھیرے میں اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ میں پیچھے پلٹنا نہیں چاہتا تھا اس لیے سامنے نظر آنے والے روشن کمرے کی جانب سفر جاری رکھا۔ اچانک میرے کانوں نے ایک دھیمی آواز سنی:

اندھیری رات ہے سایہ تو ہو نہیں سکتا
یہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے

میں ہاتھوں میں چند کاغذ لیے جب اس روشن کمرے میں داخل ہوا تو ویران کرسیوں میں سے ایک کرسی پر ہاتھوں میں سگریٹ دابے ؛ ایک روشن چہرے والا بوڑھا ٹانگ پر ٹانگ اس انداز میں رکھے بیٹھا تھا کہ جیسے اس نے صدیوں سے کوئی حرکت نہ کی ہو۔ میں نے اس سے ہاتھ ملایا اور خالی کرسی پر براجمان ہو گیا۔ وہ گہری خاموشی میں ڈوبا ارتکاز کے ساتھ سگریٹ پی رہا تھا۔ چند لمحوں بعد اس کی آواز سنائی دی۔

”اویس کتنی نظمیں لکھ لی ہیں“ ۔
”چار، پانچ سر“ میں نے مختصر جواب دیا۔

”نثری نظمیں لکھنے کے لیے فکشن کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ شاعری کے ساتھ عالمی ادب کو بھی زیر مطالعہ رکھو۔“

اس نے جس اپنائیت سے یہ جملہ کہا میں اپنی نظموں کو قیمتی اور سب چیزوں پر مقدم سمجھنے لگا اور مسکراتے لبوں سے ”جی سر“ ہی کہہ سکا۔

آہستہ آہستہ کمرے میں دوسرے لوگ بھی آنا شروع ہو گئے، وہ بہت عقیدت اور احترام سے اس سگریٹ پیتے بوڑھے سے ملتے رہے۔ جب ہال حاضرین سے بھر گیا تو اجلاس کا آغاز ہوا۔ مجھ سے پہلے کسی نے نثر برائے تنقید پیش کی اور اس کے بعد مجھے نظمیں پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے سب حاضرین میں نظم کی کاپیاں تقسیم کیں اور اکھڑے سانسوں کے ساتھ نظم برائے تنقید پیش کر دی۔ نظم پڑھنے کے بعد میں خاموش ہو گیا اور حیرت زدہ نگاہوں سے سب کو گھورنے لگا۔

وہ ابھی تک سگریٹ پی رہے تھے (اور جب تک میں ان کی صحبت میں رہا کبھی بھی انہیں سگریٹ کے بغیر نہ دیکھا) ۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی نظم پر گفتگو کا آغاز کیا۔ گفتگو تو یاد نہیں کہ کیا ہوئی البتہ انہوں نے بابا بلھے شاہ اور شاہ حسین کے کچھ اشعار سنا کر گفتگو کا آغاز کیا اور میری تخلیقی صلاحیتوں کو اس قدر سراہا کہ میں خود کو مکمل شاعر سمجھنے لگا۔ مجھے پہلی بار اتنی طمانیت اور خوشی ہوئی تھی۔

جب اجلاس کا اختتام ہو چکا اور وہ اپنی ایف ایکس میں بیٹھ کر مرکزی دروازے کی جانب نکل گئے تو میں نے منور آکاش کی ہمراہی میں گھر کی راہ لی اور راستے میں پوچھا کہ وہ صاحب جنہوں نے سب سے پہلے میری نظم پر گفتگو کی وہ کون تھے۔ منور آکاش نے بتایا وہ خالد سعید تھے۔ جنہوں نے ملتان آرٹس فورم کی بنیاد رکھی۔ مزید بتایا کہ یہ وہی خالد سعید ہیں جنہوں نے نیلی شام میں سوال کے ہاتھ پر کچھ کہانیاں رکھیں، تمہارے پیر مرمریں اپنی سحر انگیز آواز میں گا کر کو لاج لکھنے کا آغاز کیا، جہاں معنی اپنا پڑاؤ ڈالنے والا تھا اس کے استقبال میں ماسٹر پیٹر کی داستان محبت لکھی، اس بچے کے نام خط لکھا جس نے روہانسی آواز میں برف پر لہو کی لکیر کھینچی تھی۔ میں یہ سب سن کر خالد سعید صاحب سے اپنائیت محسوس کرنے لگا اور ان سے یک طرفہ محبت میں گرفتار ہو گیا۔ اس شب بائیک چلاتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ ملتان کی ہوائیں نازاں ہیں کہ ان کے دامن میں خالد سعید جیسا ہیرا چمک رہا ہے۔

اس کے بعد خالد سعید صاحب سے متواتر ملاقاتیں ہونے لگیں۔ آرٹس فورم کے اجلاس میں وہ ہمیشہ کچھ نئی بات کرتے۔ مجھ ایسے کئی نو آموز تخلیق کار جب پہلی بار اپنی کوئی تخلیق پیش کرتے تو وہ ان کی بے پناہ تعریف و تحسین کرتے۔ میں نے کبھی بھی انہیں کسی تخلیق کار کی حوصلہ شکنی کرتے نہیں دیکھا۔ اگر کوئی فن پارہ ان کے معیار سے کم ہوتا تو وہ اس پربھی کچھ یوں بات کرتے :

”صاحب صدر! برا لکھنے والے بھی موجود ہونے چاہیے اگر سب اچھا ہی لکھیں گے تو برا کون لکھے گا۔“

وہ جب تک حیات تھے اور کرونا کی خود ساختہ تنہائی نے ابھی جنم نہیں لیا تھا تب تک میں نے انہیں فورم کے کسی بھی اجلاس میں غیر حاضر نہیں پایا۔ وہ ہمیشہ وقت پر پہنچ جاتے اور بعض اوقات مجھ جیسے نوجوانوں کو بھی ندامت ہوتی کہ ہم سے تو یہ خالد سعید صاحب اچھے ہیں جو کبھی کسی کام میں تاخیر نہیں کرتے۔ سستی ان کے پاس تک نہیں پھٹکتی اور پریشانی کوسوں دور بھاگتی ہے۔ انہیں دیکھ کر مجھے بہت حوصلہ ہوتا تھا۔ زندگی کے بے کار اور بے مصرف لمحوں میں بھی لطیف کشید کرنا میں نے ان سے سیکھا۔

خالد سعید صاحب سے مختصر ملاقاتوں کے باوجود ایک ایسا عقیدت اور احترام کا رشتہ قائم ہوا کہ میں ان سے ہر طرح کا مسئلہ ڈسکس کرنے لگا تھا۔ جب بھی کوئی پریشانی ہوتی تو میں ان سے مشورہ ضرور کرتا، دو ہزار اٹھارہ میں جب میں ملتان آرٹس فورم کا جنرل سیکرٹری منتخب ہوا تھا تو مجھے خالد سعید صاحب نے ہی ترغیب دی تھی کہ میں ایک برس تک سیکرٹری کے فرائض سر انجام دوں۔ ان کا خیال تھا کہ جب میں تواتر کے ساتھ ادبی رپورٹس لکھوں گا تو میرا لکھنے کا انداز بہتر ہو گا اور ایسا ہی ہوا؛ اس کا ثبوت ”کولاج 8“ ہے کہ جو میرے حصے میں آئی۔

مجھے فخر ہے کہ میں اس روایت کا حصہ بنا جس کے سرخیل خالد سعید صاحب تھے۔ وہ ظاہراً عمر رسیدہ لگتے تھے لیکن اصل میں وہ نوجوانوں سے بھی زیادہ چست تھے۔ میں جب بھی فورم سے غیر حاضر ہوتا میرے حصے کی رپورٹ وہی لکھا کرتے تھے۔ ان کے نظریات جدید عہد کے مطابق تھے۔ وہ روایتی اور فرسودہ باتوں سے ہمیشہ گریز کرتے تھے۔ خالد سعید صاحب ”پکے مسلمان“ تھے۔ انہیں کبھی بھی بد دیانتی، منافقت یا جھوٹ سے کام لیتے نہیں دیکھا۔

وہ سچے کھرے انسان تھے اسی لیے ان کے نظریات واضح تھے۔ وہ روشن ہوا کا جھونکا تھے کہ ان کے پاس بیٹھ کر ہمیشہ تازگی کا احساس ہوتا تھا۔ گھنے پیڑ کی مانند ہر کوئی ان کی چھاؤں سے فیض حاصل کرتا۔ عمر کے تفاوت کے باوجود میں ان سے ہر بات کرنے میں سہولت محسوس کرتا تھا۔ وہ دیگر بوڑھے ادیبوں کی طرح شخصی رعب نہیں جھاڑتے تھے۔ عاجزی اور درویشی ان کی طبیعت میں سب سے پہلے تھی۔

خالد سعید صاحب کی زندگی میں عجیب طرح کی بے ترتیبی تھی۔ وہ بیک وقت کئی لکھنے، پڑھنے والے کاموں میں مصروف ہوتے تھے۔ سگریٹ پیتے ہوئے راکھ جھاڑنا بھول جاتے، انہوں نے گرم چائے پینے کی ٹھانی ہے مگر وہ پاس پڑی پڑی ٹھنڈی ہو چکی ہے، کچھ لکھ رہے ہیں تو جملے ادھورے چھوڑ دیا کرتے، فورم کے اجلاس میں کسی سنجیدہ موضوع پر گفتگو ہو رہی ہے تو سردار عبدالستار تھیم یا مقبول گیلانی کو موضوع بنا کر کوئی جنسی چٹکلا چھوڑ دیتے۔ جس سے پوری محفل قہقہوں سے گونج اٹھتی۔ خالد سعید صاحب کی اس عادت کو ان کی غیر سنجیدگی نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ ان کی طبیعت اور شخصیت کا وصف تھا کہ وہ کسی بھی محفل کو سحر انگیز بنانے کی خداداد صلاحیت رکھتے تھے۔ مجھے ان کے بکھراؤ اور بے ترتیبی میں بھی ہمیشہ ایک ترتیب نظر آتی تھی۔

خالد سعید صاحب کی کوئی اولاد نہیں تھی مگر انہوں نے ”کوپی“ (ایک ننھے کتے کا نام) کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ وہ جانوروں اور پرندوں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ میں نے انہیں ”کوپی“ سے محبت بھرے انداز میں کئی بار گفتگو کرتے دیکھا۔ جب بھی ان کے گھر جانا ہوتا تووہ ”کوپی“ کو طرح طرح کے حیلے بہانوں سے ادھر ادھر بھگانے کی کوشش کرتے تاکہ نووارد خوفزدہ نہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی سمجھاتے رہتے ”کوپی کچھ نہیں کہے گا، یہ تو بہت پیارا بچہ ہے“ ۔

جیسے وہ ہمیں بتا رہے ہوں کہ جانور تو ہمیشہ ہم سے پیار اور توجہ چاہتے ہیں۔ چند دن پہلے ایک فلم ”چارلی 777“ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں بھی مرکزی کردار کو ایک کتے سے محبت ہو جاتی ہے اور جب اس کا کتا مرتا ہے تو وہ اس کے غم میں بے پناہ آنسو بہاتا ہے۔ فلم کا مرکزی کردار کتے سے اتنی محبت کیوں کرتا ہے ؛ اس کے پیچھے بھی نفسیات کا عمل پوشیدہ ہے۔ مجھے یہ فلم دیکھ کر اندازہ ہوا کہ خالد سعید صاحب جانوروں سے اتنی محبت کیوں کرتے تھے اور وہ جانوروں، پرندوں سے ان کی زبان میں گفتگو کیوں کرنا چاہتے تھے۔

شاید انسانی ارتقاء کے باوجود وہ انسان کے منفی رویوں سے اداس اور افسردہ ہو جاتے تھے۔ ایک بار فورم کے اجلاس میں کسی صاحب نے گفتگو کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ”انسان ایک افضل مخلوق ہے“ ۔ خالد سعید صاحب نے جس جوش اور غصے میں آ کر اس کا جواب دیا وہ قابل دید تھا۔ کہنے لگے ”آپ کو کس نے کہہ دیا کہ انسان ہی اس دھرتی کی سب سے افضل مخلوق ہے۔ کیا آپ نے کوئی ریفرینڈم کروایا تھا۔“ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فطرت سے کس قدر لگاؤ رکھتے تھے اور اس دھرتی پر موجود چھوٹی سے چھوٹی چیز کو افضل سمجھتے تھے۔

اگر مجھے خالد سعید صاحب کی رفاقت میسر نہ آتی تو شاید فرائڈ اور ژونگ کے بنیادی نظریات سے آشنائی نہ ہوتی۔ گارشیا مارکیز کی کئی نایاب تحریریں مجھ سے کوسوں دور رہتیں۔ دو پنجابی شاعروں اوتار سنگھ پاش اور شو کمار بٹالوی کے موضوعات میں کہاں جاکر ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے وہ کبھی سمجھ نہ آتا۔ اوریانا فلاشی سماج کے جن کم مایہ کرداروں کو موضوع بناتی ہے ان سے ملاقات بھی خالد سعید صاحب کے توسط سے ہوئی۔ خواجہ فرید، شاہ حسین اور بابا بلھے شاہ کی دنیا کو بھی خالد صاحب کی انگلی پکڑ کر دیکھا۔ انہوں نے ہی ہمیں بتایا کہ مارکسی نظریات اور ترقی پسند خیالات کسی بڑے عہدے کی اثر پذیری کے علاوہ بھی اپنی کوئی شکل رکھتے ہیں اور ان تمام نظریات کو اپنی حقیقی زندگی میں کس طور منطبق کرنا ہے۔

خالد سعید صاحب سرطان جیسے خطرناک مرض میں مبتلا تھے۔ عمر کے آخری حصے میں آ کر انہوں نے جس بہادری اور زندہ دلی سے اس بیماری کا مقابلہ کیا اس سے ڈاکٹرز بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہوئے۔ خالد صاحب نے اس بیماری کے دوران ہی ہزاروں صفحات لکھے۔ جب ڈاکٹر خرم شہزاد اور منور آکاش کی رفاقت میں میری ان سے آخری ملاقات (آخری ملاقات لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ) ہوئی تو اس میں بھی انہوں نے اوریانا فلاشی کا تازہ ترجمہ شدہ ناول ”ایک مرد“ پیش کیا تھا۔

خالد سعید صاحب آخری دنوں میں نحیف ہو گئے تھے۔ میں جب بھی ان سے ملتا تو میری آنکھیں پرنم ہوجاتی تھیں کیونکہ انہیں اس حالت میں دیکھ کر دل دکھتا تھا۔ ایک وجود جسے کبھی میں نے سگریٹ کے بغیر نہیں دیکھا، سفید بالوں کی مانگ کبھی خراب نہیں ہوئی تھی اور روشن چہرے کی تازگی کبھی افسردگی میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ اب وہ حالت غم میں تھا۔

03/ اپریل2202ء ملتان کے لیے سوگوار دن تھا۔ اس شام پرندے نہیں چہکے تھے۔ ڈھول کی تھاپ پر کسی نے حرکت نہیں کی۔ گول باغ کے چائے خانوں پر تڑکے کپ بھی خالی رہے۔ اس دن خالد صاحب اپنی محبوب شخصیات کے پاس چلے گئے تھے۔ جنازے میں بے پناہ لوگ موجود تھے۔ اس جم غفیر میں شاید ہی ایسا کوئی شخص ہو کہ جسے ان سے کوئی گلہ شکوہ ہو۔ حالانکہ نماز جنازہ پڑھانے والا مولوی بھی ایسے ”پکے اور سچے مسلمان“ سے خفا نہیں تھا۔

میں ان کا سرد چہرہ دیکھنے کی ہمت بھی مجتمع نہیں کر سکا کیونکہ میں اپنے تخیل میں انہیں ہمیشہ قہقہاتے اور روشن چہرے کے ساتھ زندہ رکھنا چاہتا تھا!

خاک کو خاک بناتی ہے چلو مان لیا
موت لیکن لب و رخسار کہاں پھینکتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments