امریکی سیلز گرل بھی عمران خان کی گرفتاری کے بارے میں پریشان


یہ حسن اتفاق ہے کہ نواز شریف کے دور میں جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے کر قبریں کھود رہے تھے تب میں چین کے شہر شنگھائی میں تھا اور جب لاہور زمان پارک میں عمران خان کے گھر کا دروازہ کرین کے ذریعے توڑا جا رہا تھا تو اس وقت میں امریکا کے شہر ٹیمپا میں تھا۔ چین میں سابق صدر آصف زرداری، بلاول بھٹو اور سندھ کابینا کے ساتھ ڈیلی گیشن میں تھا مگر اس بار سندھ کے صحافیوں کے ساتھ تھا۔ دونوں مرتبہ ہی ایسی خبریں مجھے سوشل میڈیا کے ذریعے ہی پہنچیں۔

انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام کے تحت گزشتہ 3 ہفتے میں امریکا میں تھا۔ ہمارا یہ دورہ مکمل طور پر میڈیا بیسڈ تھا، جو کہ واشنگٹن ڈی سی سے فلوریڈا کی ٹیمپا سٹی تک تھا، ورلڈ لرننگ ادارے کی میزبانی کے تحت ہم 10 سے زائد میڈیا ہاؤسز جس میں ریڈیو، اخبارات، ٹی وی چینلز، صحافیوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے دفتروں کا دورہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے نمائندگان سے تفصیلی گفتگو بھی کی۔ اس کے ساتھ امریکا کی ان 4 ریاستوں کی مختلف یونیورسٹیز، کالجز اور اسکولز میں جرنلزم پڑھانے والے شعبہ جات میں جاکر اساتذہ اور طلبہ سے بھی جا کر گفتگو اور بحث مباحثے کیے۔

جہاں ہر گفتگو میں ہمیں جو پہلا جملہ سننے کو ملا وہ سوشل میڈیا کی پریشانی سے متعل تھا۔ حتی کہ نارتھ کیرولینا کی ریاست کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے جرنلزم شعبہ میں بھی جب ایک ورکشاپ اٹینڈ کی تو وہاں کے اساتذہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے سبب پریشان تھے۔ انھوں نے بتایا کہ اب ہم نے سوشل میڈیا کو ایک کورس کے طور پر پڑھانا شروع کیا ہے۔ وائس آف امریکا سے لے کر مختلف میڈیا ہاؤسز کے اندر بھی ہر دوسرے نیوز پروڈیوسر، رپورٹر اور اینکر پرسن یہی دہائی دے رہا تھا کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال نے امریکا کی بنیادیں ہلا ڈالیں ہیں۔

جس کی وجہ سے امریکا کے اندر ایک سنجیدہ بحث چھڑ گئی ہے کہ اگر سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑے کو لگام نہ ڈالی گئی یا اس کو ریگولرائزڈ کرنے کے لیے کام نہیں ہوا تو بہت بڑی تباہی آ سکتی ہے۔ اس حد تک کہ نارتھ کیرولینا کے اندر وہاں کے ٹی وی چینلز کے مالکان کی ایک تنظیم پی بی اے تھی، جس میں امریکی مشہور صحافی ڈیوڈ نے کہا کہ اب لوگ ٹی وی چینلز دیکھنا بند کر رہے ہیں اور اخبارات کی سرکولیشن آدھے سے زیادہ کم ہو گئی ہے۔ ہر دوسرے شخص کے پاس اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہے، جس کے جتنے فالوورز ہیں وہ اگر کوئی پوسٹ رکھتا ہے تو وہ کیوں نہ غلط/ جھوٹی نالج پر مبنی ہو مگر وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے پہلے وائرل ہو جاتی ہے، جس کے سبب لوگ ان پر یقین کرنے لگتے ہیں۔

امریکا میں پہلی جنگ عظیم اور سول وار کے دوران بھی ایسے جھوٹ اور افواہیں نہیں پھیلتے تھے جو کہ اب سوشل میڈیا کی سبب پھیل رہے ہیں۔ امریکا کے کیپٹل سٹی واشنگٹن ڈی سی کے وائٹ ہاؤس کے سامنے کھڑے ہو کر ہمارے گائیڈ نے ایک گلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کی پازیٹو اور نیگیٹو اثرات کی دو بہت بڑی نشانیاں میں یہاں کھڑے ہو کر آپ کو دکھانا چاہتا ہوں۔ وائٹ ہاؤس کے سامنے اس گلی کا نام ”بلیک اسٹریٹ“ ہے جب ایک گورے سپاہی نے ٹرمپ کے دور میں ایک کالے نسل کے شخص کے چہرے پر لات رکھ کر اسے ہلاک کر دیا تھا، تو سوشل میڈیا نے ایسا پازیٹو کردار ادا کیا جو کہ وائٹ ہاؤس کے سامنے والی گلی کا نام آفیشلی ”بلیک اسٹریٹ“ رکھ دیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس گائیڈ نے ہمیں ایک اور گلی میں امریکا کی طاقتور ترین عمارت کیپٹل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمارت امریکا میں جمہوریت اور اتحاد کی علامت ہے۔ اس تاریخی عمارت پر امریکیوں نے کبھی حملہ نہیں کیا مگر جب ٹرمپ الیکشن ہارے اور سوشل میڈیا کے ذریعے غلط افواہیں پھیلیں تو لوگوں نے اس عمارت پر حملہ بول دیا۔ اس لیے ہر جمہوریت پسند امریکی اس حملے کے سبب پریشان ہے۔ یہاں تک کہ جب ہم امریکی صحافیوں کی بڑی تنظیموں کے ساتھ اور ان کام کرنے والے اداروں کے لوگوں سے گفتگو کی تو وہ بھی کہہ رہے تھے کہ سوشل میڈیا کے سبب امریکی صحافیوں کا روزگار خطرے میں پڑ گیا ہے، اس لیے نہ صرف ہم پر خود امریکی ریاستوں میں سرکاری سطح پر بھی یہ کام شروع کیا ہے کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو کیسے روکا جائے، کیوں کہ سوشل میڈیا اب ایک افواہ ساز مشین کے طور پر استعمال ہوا تو اس تباہی کو ہم جھیل نہیں پائیں گے۔

ایسی ہی کافی ملاقاتوں کے دوران ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ مختلف کمپنیوں اور پارٹیوں کے لوگوں کو بھاری رقمیں دے کر سوشل میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس دورے کے دوران ہم جب مختلف بازاروں/مارکیٹوں میں گئے تو ہمیں یہ سن کر انتہائی حیرت ہوئی تھی کہ پاکستان کے اندر بھی عمران سرکار کے بعد سوشل میڈیا کا لمبا استعمال ہو رہا ہے، اس کی معلومات یہ سب سرحدیں پار کر کے عام امریکیوں تک پہنچ رہی ہے، یہاں تک کہ ہمیں یہ بھی پتا نہیں تھا کہ لاہور میں عمران خان کے گھر کا گھیراؤ کیا جا رہا ہے۔

ایک سپر مال میں کاؤنٹر پر کھڑی ایک امریکی لڑکی نے سندھی میں بات کرتے ہوئے ہمیں سنا تو کہا کہ آپ لوگ کہاں سے ہیں؟ ہم نے کہا کہ پاکستان سے ہیں۔ تو اس نے فوری طور پر سوال کیا کہ، کیا عمران خان کو گرفتار کیا گیا ہے یا ابھی نہیں؟ وہ ساری معلومات سوشل میڈیا کے ذریعے ہی امریکا پہنچ رہی تھیں۔

واپسی پر ہم سندھی صحافی یہ بحث کرتے ہوئے لوٹے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے برعکس سوشل میڈیا کا جو میدان ہے وہاں ہمیں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، امریکا کے مختلف یونیورسٹیز میں ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ صحافیوں کا روزگار بچانے کے لیے یہاں کے ادارے جدید ٹیکنالوجی کے تحت ایسے سافٹ ویئر بنا رہے ہیں تاکہ صحافی حضرات بے روزگار ہونے کہ بجائے سافٹ ویئر کے ذریعے روزگار کما سکیں کیوں کہ سوشل میڈیا بہت جلد ان کو بے روزگاری کی دلدل میں دھکیلنے والی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments