بھیڑیا سی


”میں تمہیں کیسی لگی“ ؟ اس نے مسکرا کر اس سے پوچھا۔ ”کانچ کی گڑیا ہو جیسے“ وہ اس کے قریب ہوتے ہوئے بولا۔ غیر محسوس طریقے سے وہ تھوڑا دور کھسک گئی۔ ”کیا چاہتی ہو؟ اس نے کچھ الجھ کہ سوال کیا۔“ چاہتی ہوں کہ تم مجھے ایک ابدی لمحے کی طرح مناؤ ”۔ پاس آ نے دو مجھے، میں اپنی وحشت کا قطرہ قطرہ انڈیل کر تم میں ایک ابدی لمحہ بوووں گا“ ۔ ”نہیں، وصل تمام نہ کرو، دریا اتر جاتے ہیں، جوش ختم، شوق تمام، مجھے بنجر ہی رہنے دو“ ۔

”لیکن مجھے بھی تم سے محبت ہے، خواہش اور تڑپ ہو تم میری“ ۔ ”خواہش اور تڑپ، جانتے ہو کیا ہوتی ہے؟ کچی عمر کی شدید محبت، ہجر کی سیاہ راتیں، بے قدری، بے وفائی، بے اعتنائی اور پندرہ سال ایک ہی خواب، اماوس کی رات، گھنا جنگل، خواہش کا بھیڑیا، لال انگارہ آنکھوں سے آ سمان کو دیکھتا ماتم کرتا ہے“ ۔ ایسے جیسے کوئی مچھلی کو پانی سے نکال کر اس کی موت کی لکیر مٹا دے ”۔“ ماضی بھول جاؤ ناں ”، اس نے اس کی انگلیوں کی پوریں چومتے ہوئے کہا۔

“ نہیں نہیں، ماضی نے تو مجھے جینا سکھایا، ایک راز کی بات سنو ”مجھے ایک پاگل فلسفی نے بتائی“ ۔ ”وہ کیا“ ؟ ”وہ یہ کہ جب آپ پاتال کو گھورتے ہو تو پاتال آپ کو گھورتا ہے۔ بھیڑیوں سے لڑتے لڑتے کہیں آپ خود بھیڑیا نہ بن جائیں“ ۔ ”واہ، واہ۔“ وہ اس کے سحر میں ڈوبا ہوا تھا۔ ”پھر میں نے خواہش کے بھیڑیے سے ایک آ خری جنگ لڑی اور محبت کا مہان بت توڑ ڈالا“ ۔ ”اچھا۔ پھر؟“ وہ عجیب سی وحشت میں گرفتار بس یہی بول سکا۔

”پھر اس پتھر کے مہان بت سے بے شمار چھوٹی چھوٹی محبتیں آ زاد ہوئیں تتلیوں کی مانند، اور میں نے بے شمار چھوٹی چھوٹی محبتیں کیں“ ۔ ”کس سے، کس سے“ ؟ وہ نا سمجھتے ہوئے بولا۔ ارے میرے سیانے، کسی پتھر سے، جھیل سے، دھند بارش بادل سے، پہاڑ سے، تم سے۔ تم جیسے کسی اور سے ”۔ وہ مبہوت اس کو دیکھ رہا تھا ٹکٹکی باندھے۔ “ ارے چھوڑو ناں ”، وہ ہنستے ہوئے اس کے ذرا قریب ہوئی، تم بتا رہے تھے میں تمہیں کیسی لگی“ ؟

”بھیڑیا سی“ ۔ بے ساختہ اس کے منہ سے پھسلا۔

نغمانہ حسیب
Latest posts by نغمانہ حسیب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments