پنجاب کا شناختی بحران


چند ماہ قبل ایک پنجابی فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ کے نام سے ریلیز ہوئی۔ فلم انڈسٹری کے چند بڑے ناموں کے ساتھ فلم کے گانے، ڈائیلاگ اور ٹریلر فلم ریلیز ہونے سے پہلے ہی مشہور ہو چکے تھے۔ لیکن فلم کی ریلیز کے بعد سے سوشل میڈیا پر تنقید و تعریف کا ایک بازار گرم تھا۔ تنقید کرنے والے بیشتر صارفین غیر پنجابی اداکاروں کی سلیکشن، اداکاروں کی پنجابی لہجے میں ڈائیلاگ ادا کرتے وقت کمی بیشی اور پنجاب کے کلچر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی وجہ سے اس فلم پر تنقید کر رہے تھے۔ اگر بڑے پیرائے میں دیکھا جائے تو یہ تنقید بہت حد تک بے وجہ اور بے محل نظر آتی ہے۔ تاہم ان تمام تنقید کرتی آوازوں میں خوشگوار ہوا کا جھونکا یہ ہے کہ آخرکار لوگ پنجاب کی ثقافت اور زبان کے بارے میں بات کرنے لگے ہیں۔

حالیہ چند سالوں کے دوران مختلف یونیورسٹیوں اور کانفرنسوں میں لوگ پنجاب کی ثقافت، روایات اور زبان پر بحث کرنا اور مختلف مواقع پر انہیں سیلیبریٹ کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک نمایاں وجہ دوسرے صوبوں میں چلنے والی قومیت پرست تحریکیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کا پیغام پنجاب کے لوگوں تک پہنچنا ہے ہے خیبرپختونخوا میں پشتون تحفظ موومنٹ کا قیام اور ان کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کی وجہ سے ان پر شدید تنقید ہوئی اور اور مین سٹریم میڈیا کے ذریعے ان کے خلاف ایک باقاعدہ کمپین بھی چلائی گئی۔

لیکن اب سماجی میڈیا کے توسط سے سوچنے سمجھنے والے لوگوں تک ان کا پیغام پہنچ چکا ہے اور انہیں اس کی نوعیت کا اندازہ بھی ہوا ہے۔ دوسری طرف بلوچستان میں پر تشدد قومیت پرست تحریکوں کی کارروائیوں میں حالیہ عرصے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ باقی صوبوں میں چلنے والی قومیت پرست تحریکوں کا بنیادی مطالبہ ان کے وسائل کی لوٹ مار، آئینی حقوق سے محرومی اور دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہیں۔ لیکن باقی صوبوں کے برعکس سب سے بڑی زیادتی اور نا انصافی پنجاب کے ساتھ ہوئی ہے۔ اور وہ زیادتی یہ کہ پنجاب سے اس کی شناخت چھین لی گئی اور سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ پنجابی قوم کو اس کا احساس تک نہیں۔

شناختی بحران کی تاریخ انگریزوں کے کالونیل دور سے شروع ہوتی ہے۔ انگریزوں سے پہلے مختلف حکومتیں چاہے وہ دہلی سلطنت ہو، مغلیہ سلطنت ہو یا دوسرے حملہ آور ہوں ان کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ لیکن، برصغیر کے مختلف حصوں میں لوگ اپنی مادری زبانوں کو روزمرہ کے سماجی میل جول اور بچوں کی تعلیم کے لیے استعمال کرتے تھے۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد پنجاب کے پہلے پنجابی حکمران رنجیت سنگھ اور اس کے خاندان کی حکومت آئی تو تب بھی پنجاب کے سرکاری زبان فارسی ہی رہی۔

اشرافیہ فارسی میں تعلیم حاصل کرنے کو اہمیت دیتی تھی۔ لیکن اس کے برعکس عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی پنجابی زبان میں تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ ڈاکٹر صغرا صدف بیان کرتی ہیں کہ انگریز جہاں بھی جاتے تھے وہ انگریزی کے ساتھ ساتھ مادری زبانوں کی تعلیم و ترویج کے لیے بھی کام کرتے تھے۔ لیکن ہندوستان میں میں یہاں کی بیشتر مقامی زبانوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہے ہوا۔ حتیٰ کہ پنجابی کو تو ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت ختم کیے جانے کا عمل شروع ہوا۔

ہندوستان میں انگریزوں نے فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں لا کر یہاں اردو، انگریزی اور سنسکرت کی تعلیم و ترویج کو تو جاری رکھا لیکن لیکن دوسری طرف پنجاب میں لوگوں سے پنجابی قاعدے تک واپس لینے شروع کر دیے۔ انگریز کے لیے پنجابی شناخت ختم کرنا اتنا اہم تھا کہ ایک پنجابی قاعدہ واپس کرنے کے بدلے ایک بندوق واپس کرنے سے زیادہ پیسے ملتے تھے۔

ایک دوسری مثال چکوک کی ہے انگریزوں نے نہری نظام کی تقسیم کار کے مطابق مختلف گاؤں اور دیہاتوں کو مختلف نمبرز الاٹ کیے قیام پاکستان کے بعد بھی یہ روایت قائم رہی اور آج بھی پنجاب کے طول و عرض میں ہزاروں گاؤں دیہاتوں کو مختلف چک نمبر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج بھی یہاں کی لوگ ان چکوک نام تبدیل نہیں کر پائے اور استعماری دور کی یہ نشانیاں آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔

تقسیم ہند سے پہلے مشترکہ پنجاب میں کسی حد تک پنجابی زبان اور رسم و رواج کے ترویج کی جا رہی تھی۔ بھگت سنگھ جیسے نوجوان انگریزوں کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے تو دوسری طرف وہیں وہ پنجابی زبان میں مذہب، سیاست اور معاشرے پر لکھ بھی رہے تھے۔ لیکن تقسیم کے بعد مغربی پنجاب اپنی زبان اور اپنی ثقافت سے آہستہ آہستہ دور ہوتا گیا۔

مذہب کے نام پر اس خطے کی تقسیم شروع ہوئی تو ایک ایسی آگ پھیلی جس نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لیکن تقسیم کا سب سے سب سے برا اثر پنجاب میں دیکھنے کو نظر آیا، جہاں کل کے دوست آج ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کو چڑھ دوڑے۔ لاکھوں پنجابی عورتوں اور مردوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ تقسیم کے تکلیف مناظر دیکھنے والوں کے ذہنوں میں آج بھی زندہ ہیں جو ان کو ایک مسلسل کرب میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔

تقسیم کے بعد بعد مغربی پاکستان میں پنجاب سب سے بڑا صوبہ تھا۔ پنجاب ایک ایسی اکائی تھا جس کے اوپر پاکستان کی بنیاد کھڑی تھی۔ خطرہ تھا کہ دوسرے صوبوں کے برعکس پنجاب میں کوئی بھی قومیت پرست تحریک شروع ہوئی جو پنجاب، پنجابی اور پنجابیوں کی بات کرتی ہو تو اس سے اس نوزائیدہ ملک کی بنیاد میں دراڑ پڑ سکتی تھی

اس وجہ سے پنجاب سے پنجابیت کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ محمد علی جناح علاقائی زبانوں کو قومی یا سرکاری زبان قرار دینے کے سخت مخالف تھے۔ بنگالی کو قومی زبان قرار دینے کے مطالبے کے خلاف قائداعظم نے فرمایا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہو گی۔ جبکہ سرکاری زبان اس وقت سے انگریزی ہی ہے۔ دوسری طرف اردو کو ایسے پیش کیا گیا جیسے یہ مسلمانوں کے کوئی مقدس زبان ہے مسلمانوں پر اردو کا بولنا، لکھنا اور پڑھنا فرض ہے۔

تقسیم کے بعد پنجاب میں انگریزوں کی بنائی ہوئی جاگیردار اشرافیہ اور مذہبی گدی نشین طبقے کا یوپی سے آئی سیاسی اور نوکرشاہی اشرافیہ کے ساتھ ایک اتحاد بنا۔ اور آخر کار اسی مہاجر پنجابی اشرافیہ کے اتحاد نے فوج، نوکر شاہی اور سیاست پر خاصا اثر و رسوخ حاصل کر لیا ہے۔ اس کے بعد پنجابی اشرافیہ نے یوپی کی ثقافت اور زبان کو پنجاب پر مسلط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

پنجاب کے شناختی بحران کی ایک اور اہم وجہ پنجاب کے معاشی ڈھانچے میں تبدیلی بھی تھی۔ جیسے ہی متوسط ​​طبقے نے فوج، بیوروکریسی اور دیگر کارپوریٹ ملازمتوں میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی، انہوں نے محسوس کیا کہ معاشی ترقی کے لیے انہیں ایک نئی ثقافت اور زبان کو اپنانا ہو گا

دھوتی کے بجائے پاجامہ اور پینٹ کوٹ اپنایا گیا۔ روزانہ کے معاملات اور دفتری رابطے کے لیے پنجابی زبان کو اردو اور انگریزی سے بدل دیا گیا۔ بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی اردو اور انگریزی سیکھنے پر مجبور کیا گیا۔ پنجابی بولنے والوں کو جاہل اور دیہاتی سمجھا جانے لگا۔ معاشی خوشحالی کی جدوجہد میں جب لوگ دیہاتوں اور زراعت سے یونیورسٹیوں اور دفاتر میں منتقل ہوئے تو انہوں نے پنجابیت کو پیچھے چھوڑ دیا۔ نتیجتاً پنجاب میں شناخت کا بحران خطرناک حد تک پہنچ گیا ہے۔

پنجاب کی ایک بڑی اکثریت صوفی روایت کی پیروکار ہے۔ آج بھی پنجاب بھر میں ہزاروں مزاروں پر میلے اور عرس منائے جاتے ہیں۔ تقسیم سے پہلے ان مزاروں کے گدی نشین، جو کہ انگریزوں کے کچھ خاص عطیات کی وجہ سے جاگیردار بھی تھے، انہوں نے مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ اس اتحاد کی بنیادی وجہ مستقبل میں اپنے مفادات کا تحفظ تھا۔ بدلے میں انہوں نے اپنے پیروکاروں کو مسلم لیگ کو ووٹ دینے پر مجبور کیا۔

مسلم تشخص کو محفوظ بنانے کے لیے اسلام کے نام پر پنجاب کے مسلمانوں کو ورغلایا گیا۔ اس کے نتیجے میں پنجاب کے ہندوؤں اور سکھوں کے خلاف فسادات شروع ہو گئے جو صدیوں سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ رہ رہے تھے۔ تقسیم کے بعد ، پنجاب کی شناخت کو یوپی کی درآمد شدہ شناخت سے تبدیل کر دیا گیا۔

اسی کی دہائی میں سعودی ایران پراکسی جنگ کے اثرات بالآخر پاکستان تک پہنچ گئے۔ پنجاب اس کا ایک بڑا زیر اثر آنے والا علاقہ تھا۔ یہاں شیعہ سنی فسادات شروع ہوئے۔ یہاں سپاہ صحابہ، سپاہ محمد اور لشکر جھنگوی جیسی دہشت گرد پرتشدد تنظیمیں وجود میں آئیں۔ پنجابی قوم مشترکہ زبان اور ثقافت کو پس پشت ڈال کر محض فرقہ وارانہ اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگی۔

اب بھی ہر آئے دن مذہب کے نام پر پنجاب کی سڑکوں اور چوراہوں پر ہجوم کے ہاتھوں لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہوتا ہے۔ صوفیا کی روایات کی امین، بابا گرو نانک کی پاک سر زمین کی پاسباں پنجابی قوم، آج ایک دوسرے کے خون کے پیاسی بنی ہوئی ہے۔

پنجابی قوم آج ایک بہت ہی گہرے قومی شناختی بحران کا شکار ہے۔ نتیجتاً قوم پرستی کے جذبات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لوگ آج قومی پنجابی شناخت کے بجائے مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں سے اپنی شناخت وابستہ کرتے ہیں۔ جو کہ بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے لیکن کسی سیاسی اور مذہبی وابستگی کے لیے قومی تشخص پر سمجھوتہ کرنا قابل فکر ہے۔

کسی قوم سے اس کی شناخت کا چھن جانا یا کسی قوم کا شناختی بحران کا شکار ہونا ایک قابل فکر لمحہ ہوتا ہے لیکن سب سے زیادہ قابل رحم لمحہ وہ ہوتا ہے جب اس قوم کی شناخت، روایات اور زبان چھین لی جائے اور اسے اس کا احساس تک نہ ہو۔ آج پنجابی قوم بھی اسی قابل رحم مقام پر کھڑی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments