مہنگا آٹا، سستی غیرت و خود داری
ایران پہنچے دوسرا دن تھا۔ بچوں کے ہمراہ کھانے کے لئے پیدل نکلے۔ حرم امام رضا علیہ السلام، مشہد سے ہماری رہائش انتہائی قریب تھی۔ اور اس کے اردگرد رنگ برنگے بازار، مصروف دنیا۔ کھانے اور ٹھہرنے کے ہوٹل، کپڑوں، جوتوں، زیورات کی دکانیں۔ روز مرہ استعمال کی اشیا، دوا خانے۔ سڑک کے ایک طرف حرم کی عمارت اور دوسری طرف کمرشل مرکز اور رہائشی آبادیاں۔ جو مقامی لوگوں اور سیاحوں کی گہما گہمی سے آباد ہیں۔ مردوں کے ساتھ ساتھ باحجاب (پورا یا سر ڈھکنے کی کم از کم ضرورت) عورتیں بھی ہر جگہ متحرک نظر آتی ہیں۔
بلا تفریق، مہمان خانوں میں صفائی کرنے والیوں سے لیکر، چیک ان کاؤنٹرز تک، ہوٹل کی شیف سے لے کر حرم کی چوکیداری تک، دوا خانوں کی انچارج سے لے کر میڈیا پرسن کے طور پر۔ لکھاری، ادیب، اداکار، استاد وغیرہ وغیرہ۔ پاکستان سے گئے اکثر زائرین اور سیاح پہلی دفعہ تو ضرور سوچتے ہیں کہ ان کے گھر کیسے چلتے ہیں؟ وہاں تازہ روٹی کون بنا کر دیتا ہے؟
بالکل یہی بات میرے بچے اور شوہر بھی کھانے کی میز پر بیٹھے کہہ رہے تھے کہ گھروں میں شاید روٹی خستہ، گرم اور نرم ہوتی ہو۔ کیونکہ آگے پڑی روٹیاں ایک لمبی روٹی کے کٹے حصے تھے۔ جو بنی بھی یقیناً تازہ نہیں تھی۔ پتلی، سخت، پاپڑ نما۔ موٹی، اور نسبتاً نرم ’ورژنز‘ بھی دستیاب ہوتے ہیں۔ لیکن باقی دو ہفتے قیام کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ تازہ روٹی بس تبھی ہوتی ہے جب خریدی جاتی ہے ورنہ روٹی ٹھنڈی کھانے کا ہی معمول ہے۔
ایک دکاندار کو صبح سات بجے دکان کھولنے کے بعد دیکھا تو اپنے رومال سے روٹی نکالے، پنیر اور شہد کے ساتھ تناول کر رہا ہے۔ اور ایسے کئی مناظر آپ کو حرم کے صحن میں، سفر کے دوران، سڑکوں کنارے، پارکس میں، نظر آتے ہیں۔ جہاں جب بھوک لگی، اپنا بستہ کھولا، پکنک ٹوکری کو کھنگالا اور وہی روٹی نکالی جو کسی بھی جگہ دیکھتے ہیں اور شہد، پنیر، قہوے کے ساتھ بھوک کی آگ بجھانے لگتے ہیں۔ بڑا تجسس ہوتا ہے کہ قصہ کیا ہے؟ امیر غریب، اندر باہر سبھی عموماً ایک جیسی روٹی کھاتے ہیں؟
عید قربان اس دفعہ ادھر ہی منانے کا موقع ملا۔ بعد از نماز بچوں کو لے کر ادھر چل پڑے جس کا پتہ کسی یار دوست نے بتایا تھا کہ وہاں کچھ بدیسی اور دیسی بھی ملتا ہے۔ آدھے، پونے کی مسافت پیروں پر اسی خوشی میں طے کر لی کہ بچوں کو آج کچھ مختلف مل جائے گا۔ وہاں پہنچے تو جناب ’ابھی بند ہے‘ کا بورڈ ملا۔ بھوکے، مایوس واپس پلٹے۔ تو آدھے راستے میں تھک کر بنچ پر بیٹھ گئے۔ کہ دیکھا ہر گزرنے والے مرد، عورت، لڑکے بالے کے ہاتھ میں روٹیوں کا بغیر ڈھکے ڈھیر ہے۔
ہیں؟ یہ ماجرا کیا ہے؟ بلا مبالغہ جس دن سے آئے تھے، میں صاحب کو روز یہی کہتی تھی کہ یہاں روٹی گھر پر نہیں بنتی۔ خیر اس دن پھر مجھے یہی لگا۔ ہم تو ادھر ہی بیٹھے رہے لیکن صاحب بولے کہ یہیں سے ہم بھی تازہ روٹی لیتے ہیں اور کھاتے ہیں۔ گھنٹا گزار کر جب واپس آئے تو تاخیر سے آنے کی وجہ بتانے لگے۔ کہ ادھر تو ہر بندہ ہی روٹی اسی طرح کے تندور کی دکان سے خریدتا ہے۔ کچھ لوازمات بھی ساتھ ملتے ہیں جو خرید کر ان کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں لیکن میری باری آنے تک وہ ختم ہو گئے تھے۔
لوگ ہفتے، سات دن کی روٹی اکٹھی خرید کر لے جاتے ہیں۔ مزید کہنے لگے کہ مجھے کوئی بتا رہا تھا کہ یہاں ساری گندم حکومت خرید لیتی ہے۔ آٹا اور روٹی پکانے کی یہ دکانیں حکومتی کنٹرول میں ہیں۔ جہاں سے ہر کوئی روٹی خریدتا ہے۔ جو بھی اقسام ہیں وہ ادھر سے ہی ملتی ہیں۔ اس سے نہ آٹے کی قیمت بڑھتی ہے نہ روٹی کی۔ اور ہر کسی کے دستر خوان پر ایک جیسی روٹی دستیاب ہوتی ہے۔ نہ روٹی کے وزن کا مسئلہ نہ معیار اور ذائقے کا۔ آٹے کی قلت اور ذخیرہ اندوزی کے خدشات بھی بے حد کم۔ اور عورتوں کے وقت اور توانائی کی بچت بھی۔
مشہد سے قم ریل گاڑی کا طویل سفر تقریباً بارہ، چودہ گھنٹوں کا ہے۔ ’فدک‘ پر آسائش اور شیشے کے دروازوں والی ٹرین ہے۔ جس پر سفر کرتے ہوئے دن کی روشنی کا ایران اور رات کی تاریکی میں اس ملک کے زراعت کے بے تحاشا پہلو بھی یہ اپنے ہمسفروں کو روشناس کرواتی ہے۔ ایران کا ایک بڑا حصہ صحرا ہے جسے جدید پانی کے سیرابی نظام (ڈرپ، سپرنکلز سسٹم) کی بدولت نخلستان میں بدل لیا گیا ہے۔ کھیتوں میں نہ عورتیں جان مارتی نظر آتی ہیں نہ مرد پسماندہ اور بے حال۔ کاشتکاری دکھنے میں اتنی تکلیف دہ نہیں لگی جتنی ہمارے ہاں۔
ایران وہ ملک ہے جس پر گزشتہ کئی سالوں سے انواع و اقسام کی بین الاقوامی معاشی پابندیاں ہیں۔ ’سو کالڈ سپر پاورز‘ اور ان کے ڈر سے بہت سے دوسرے ممالک اس سے نالاں ہیں۔ لیکن ان ناراضگیوں اور پابندیوں نے اسے بگاڑنے کی بجائے، سنوارنے پر لگا دیا ہے۔ مشکلات ہیں۔ سختیاں ہیں۔ جو وسائل برآمد کر کے قومی آمدنی بڑھا سکتا ہے، وہ نہیں کر پاتا۔ لیکن اس ساری تنگیوں میں خود سوئی سے جہاز بنانا سیکھ چکا ہے۔ اپنی کاریں، پنکھے، چولہے، بٹن، مشینیں غرض بیشتر اشیاء خود بناتا ہے۔ آٹا، چاول، مکئی، انگور، پھل، پھول خود اگاتا اور سر اٹھا کے کھاتا ہے۔ حکومت اور سربراہ پوری دنیا کے سامنے تن کے کھڑے ہیں اور عوام کو بھی خودداری کا پیغام دیتی ہے۔ اسی لئے ایرانی مغرور اور غصیل ہیں۔ کیونکہ جو خود کماتا ہے وہ غیرت مند ہے۔
ورنہ دوسری صورت میں ہر مصیبت میں دوسروں کی طرف دیکھنے والی حکومتیں، ہر ضرورت میں قرض کا کاسہ پکڑے سربراہان، کبھی بھی خود انحصاری کی طرف بڑھنے والے قدموں کے نشانوں کی پیروی نہیں کر پاتے۔ کیونکہ انھوں نے کبھی غیرت اور عزت نفس کا مزا ہی نہیں چکھا ہوتا۔ عالمی برادری میں وہ خود ہر لمحہ بھکاریوں کی قطار میں لگے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کے تحقیرانہ سلوک کے مستحق ہوتے ہیں۔ تو اپنی عوام کو بھی ہمیشہ مانگنے پر لگائے رکھتے ہیں۔ لمبی لمبی قطاریں۔ کبھی مالی امداد کے نام پر، کبھی راشن کے لئے اور کبھی آٹے کے تھیلوں کی خاطر۔ کیونکہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ وہی آگے دیتا ہے۔ اب ہم سب خود اپنے گریبانوں میں دیکھ لیں تو بہتر ہے کہ کمی لوگوں میں ہیں یا حکومتوں میں۔
- اربن پلاننگ میں خواتین کا حصہ کہاں ہے؟ - 28/03/2024
- مونگرے اور اماں کی یاد - 27/02/2024
- دیہی ترقی: اربنائزیشن کے مسائل کا ایک ممکنہ حل - 22/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).