سفر آذربائیجان کا


مئی 2022 کے آخر میں لاہور میں مقیم دوستوں نے فون کیا کہ کیوں نہ آذربائیجان ہو کر آئیں۔ لو جی اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں! ۔ حامی بھر لی۔ جھٹ پٹ معاملات ویزہ اور ٹکٹ پر کام شروع ہو گیا۔ خاتون خانہ سے اجازت تو مل گئی مگر اس نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے یاد کرایا کہ ابھی اپریل میں تو سکردو کی ایک ہفتے کی یاترا مکمل کی ہے۔ پھر چل دیے؟ کچھ تو وقت گزر جاتا، اب دوبارہ سفر کی ٹھان لی! انٹرنیٹ پر آذربائیجان کے بارے میں ریسرچ مکمل ہوئی تو تصوراتی سفر شروع ہو چکا تھا۔

اس ملک کی ایک تصویر بن چکی تھی بس اپنی آنکھوں سے دیکھ کر شوق کی تسکین باقی تھی۔ دل میں یہ خیال بھی تھا کہ وسط ایشیائی ریاستوں نے ہمارا کیا بگاڑا ہے کہ ہم ادھر کا رخ ہی نہ کریں۔ آوارگی کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس سے زندگی کی کدورتیں، پریشانیاں اور مشکلات سب ہی سے دھیان ہٹ جاتا ہے۔ بارہا ہم نے تجربہ کیا ہے کہ گاڑی کا رخ جب ہمارے پسندیدہ شمال کی جانب ہو یا جب کبھی جہاز کسی سفر کے لئے ٹیک آف کرتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ زندگی کی ساری مشکلیں، مصیبتیں پیچھے ہی رہ گئی ہیں۔ اور نئی جگہ یا نئے ملک کی چیزوں نے آپ کے دل و دماغ کو اپنی آماجگاہ بنا لیا ہے۔ ”وزیر آغا“ کا یہ شعر کس قدر حسب حال ہے۔

سفر طویل سہی حاصل سفر یہ ہے
وہاں کو بھول گئے اور یہاں کو پہچانا

فیصل آباد ائرپورٹ سے فلائی دبئی کی پرواز نے ہمیں چھ گھنٹے میں دوبئی پہنچایا (نوٹ: اس میں جہاز کے دیر سے اڑان بھرنے کے تین گھنٹے شامل نہیں ہیں ) ۔ ہماری اگلی منزل آذربائیجان کا دارالحکومت باکو تھی، اور اس کے لئے ہمیں دبئی ائرپورٹ کے ایک اور ٹرمینل پر جانا تھا جس کے لئے ایک فری بس سروس موجود تھی اور سفر کا دورانیہ 45 منٹ کا تھا۔ چونکہ اگلی فلائٹ میں کچھ وقفہ تھا اور فلائی دبئی کی ٹکٹ کے ساتھ 48 گھنٹے کا ویزہ بھی ہمیں ملا تھا، سو ہم سب نے دوپہر کے کھانے کے لئے دبئی کے ایک ریسٹورنٹ کا انتخاب کیا۔ کھانا کھانے، چائے پینے اور تازہ دم ہونے کے بعد ہم اگلی فلائٹ کے لئے دبئی ائر پورٹ روانہ ہو گئے۔

جون کا تیسرا دن تھا اور ہم باکو کے حیدر علی انٹرنیشنل ائرپورٹ پر اتر چکے تھے۔ پہلی نظر میں اس ائرپورٹ کا ڈیزائن آنکھوں کو بھا گیا۔ بیرونی اور اندرونی ڈیزائن میں جدت ہے۔ وہ تمام سہولیات جو کسی جدید ائرپورٹ کا خاصا ہوتی ہیں یہاں موجود ہیں۔ دو عدد وسیع تر ٹرمینل ہیں جہاں سے ہوائی پرندے اڑان بھرتے اور اترتے ہیں۔ درجنوں چیک ان اور پاسپورٹ کنٹرول کاؤنٹرز اور ان پر موجود خوش آمدید کہتا عملہ۔

ہم پانچ مسافر ائرپورٹ سے باہر آچکے تھے۔ ٹور آپریٹر نے ہمارے قیام کا بندوبست کر رکھا تھا اور مشہور جگہوں کے گھومنے پھرنے کا بھی ایک منصوبہ ہمارے حوالے کر رکھا تھا۔ دن کے چار یا پانچ بجے تھے۔ ائرپورٹ سے باہر آئے تو ایک شخص ہم میں سے ایک مسافر کے نام کا ”پلے کارڈ“ اٹھائے کھڑا تھا۔ یہ ہمارا گائیڈ اور ڈرائیور تھا جس کا نام ”نجاد“ تھا اور وہ ”آذری“ تھا۔ سلام دعا کے بعد اس نے ہمیں اسٹیشن وین میں بٹھایا اور ہمارے ہوٹل کی طرف سفر شروع کر دیا۔ صاف ستھری کالی سڑکیں، ان سڑکوں پر نت نئی اور رنگ برنگی گاڑیاں، لوگوں کے چہروں پر خوشحالی کی چمک اور باکو شہر کا تعمیراتی حسن ترقی کی نشانی تھا۔ زیادہ لوگ مغربی لباس میں ملبوس نظر آتے تھے۔ ہوٹل کے کمروں میں منتقل ہونے کا مرحلہ نجاد کی وجہ سے آسان ہو گیا۔

کچھ دیر آرام کے بعد ہم سب ڈرائیور کے ساتھ شہر کے مرکزی حصے چلے گئے۔ مقامی سم کارڈز لیں اور ڈالر کے عوض آذری نوٹ کی تبدیلی کروائی۔ تیل و گیس کی دولت سے مالا مال اس ملک میں فی کس آمدنی 7000 امریکی ڈالر ہے۔ اور دنیا میں 200 سے زائد ممالک میں اس ملک کا بہ لحاظ جی ڈی پی نمبر 60 ہے۔ یہی وجہ ہے کی 115 پاکستانی روپے کے عوض ایک ”آذری منات“ ملتا ہے۔ شام ہو چکی تھی اور بھوک اپنے جوبن پر تھی۔ ”اسلام و علیکم“ نامی ایک ریستوران پر کھانے کے لئے گئے۔

پاکستانی جانتے ہوئے ریسٹورنٹ کا سٹاف ہم سے بڑے اچھے طریقے سے پیش آیا، جو ہمارے لئے باعث حیرت اور خوشی تھا۔ آذری کھانوں میں ترکی کھانوں کی جھلک بہت زیادہ ہے۔ روٹی (بن کی طرح، نان) ، بھنا ہوا گوشت اور کباب ترکش انداز کے ہیں۔ بس مصالحوں کے لحاظ سے آذری کھانے ترکش کھانوں سے ذرا بہتر ہوتے ہیں لہذا ہمیں زیادہ اچھے لگے۔ لیکن سچ پوچھئے تو قیمت کے لحاظ سے ہمیں آذری کھانے بہت مہنگے لگے اور ہم نے پہلے ہی کھانے پر ٹھان لیا کہ ریستوران کی ہماری یہ پہلی اور آخری عیاشی ہے۔

خدا معلوم کہ ان کی میزبانی کا انداز ہے یا پاکستانیوں سے پیسے اینٹھنے کا۔ جیسے ہی انھیں ہماری قومیت پتہ چلی، انھوں نے ”ساحر علی بگا“ کی آواز میں ”پاکستان زندہ باد“ جیسے ملی نغمے لگا دیے اور ساتھ ساتھ خود بھی نعرے لگانا شروع کر دیے۔ اب ہمیں بھی اپنی حب الوطنی دکھانا مقصود تھی۔ سو جیسے ہم اپنے ملک میں نعروں پر چیختے چلاتے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں کرتے وہاں بھی زور و شور سے نعروں کے جواب دیے۔ موسیقی جوش دلاتی ہے اور اگر یہ ملی نغموں پر مبنی ہو تو ہوش بھی لے جاتی ہے۔ سو نتیجہ اس ہیجان خیز ماحول اور کھانے کا یہ نکلا کہ پاکستانی بیس ہزار روپے ہم نے خوراک برد کیے ۔

ہوٹل میں پہلی رات پچھلے سفر کی تھکان کے باعث گھوڑے بیچ کر سونے کے مصداق گزری۔ نجاد سے صبح دس بجے کا وقت طے تھا جس کے بعد ہمیں آوارہ گردی شروع کرنی تھی۔ مگر ہم پانچوں حضرات بارہ بجے کے قریب نیچے لابی میں آئے اور اس کے ساتھ ہی باکو شہر کو دیکھنے کا آغاز ہوا۔ اگلے دن ہم جن مقامات پر گئے ان میں ”شہیدوں کی گلی“ اور بی بی ہیبت مسجد شامل ہیں۔

پارلیمنٹ ایونیو پر کے قریب ”شہیدوں کی گلی“ ہے جسے پہلے کیروف پارک کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ یہ، شہیدوں کا ایک یادگاری قبرستان ہے جو جنوری 1990 کے دوران سوویت فوج کے ہاتھوں اور 1988۔ 1994 کی آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان نسلی بنیاد پر ہونے والی پہلی جنگ میں مارے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ 15، 000 لوگ اس جگہ دفن ہیں۔ دائیں ہاتھ قبرستان ہے جس کے ساتھ ایک لمبی دیوار ہے، اور درمیانی راستے کو چھوڑ کر ایک اور دیوار ساتھ ساتھ چلتی ہے، جس کے دوسری طرف پارک ہے۔

اسی بنا پر اسے گلی کہا جاتا ہے۔ قبرستان سے متصلہ دیوار پر ان سپاہیوں اور نمایاں شخصیات کی سنگ مر مر پر کندہ تصویریں ہیں جنھوں نے آذربائیجان کی خاطر دشمن سے لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں۔ دیوار کے ساتھ اوپر کی جانب اٹھتی ہوئی سیڑھیاں ہیں۔ سیڑھیوں پر چلتے جائیے اور اپنے بائیں جانب شہدا مسجد اور پیچھے کی طرف پارلیمنٹ اور مشہور اور باکو کی سب سے بلند عمارت، فلیم ٹاور کو دیکھیں۔ سیڑھیاں ختم ہوتے ہی تھوڑی بلندی پر ایک گنبد نما مزار جیسی ایک یادگاری عمارت ہے جہاں ہر وقت آگ روشن رہتی ہے۔

اس یادگار کو قومی یادگار کا درجہ حاصل ہے اور اہم ملکی و غیر ملکی شخصیات اپنے شہیدوں کو یاد کرنے کے لئے یہاں حاضری دیتے رہتے ہیں۔ مرکزی یادگاری قبرستان میں ان ترکوں کی بھی آخری آرام گاہیں ہیں جنھوں نے جنگ باکو میں آذربائیجان کے فوجیوں کے ساتھ مل کر آرمینیا اور بالشویک فوجوں کا سامنا کیا اور جام شہادت نوش کیا۔ ترکوں سے اس ملک کے لوگوں کی محبت کی ایک وجہ نہ صرف یہ کہ ان کی زبان ترکوں سے ملتی ہے بلکہ دوسری وجہ شاید یہ ہے کہ ترکوں نے اپنے آذری بھائیوں کی لڑائی کو اپنی سمجھ کر لڑا۔

آذربائیجان کے لوگ ہر سال جنوری میں اس جگہ کا رخ کرتے ہیں اور ان شہیدوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی ان شہیدوں کو سالانہ خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اوپر یادگار کے پاس سے شہر کا پینورامک نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کیسپین کے سمندر کو بہتے ہوئے دیکھیں اور اس کے بائیں جانب بسا یہ شہر اور اس کی دلکش عمارتیں جن کا طرز تعمیر نئے زمانہ کے عین مطابق ہے آپ کا دل موہ لینے کے لئے کافی ہیں۔ مشہور عمارتوں میں باکو ٹاور، سوکار ٹاور، ڈینیز اور ایزیرسو، ٹاور وغیرہ شامل ہیں۔ ڈینیز مال پرتو گمان ہوتا ہے جیسے سڈنی کے اوپرا ہاؤس کا عکس ہو۔ اسی طرح لنڈن آئی کی طرح ایک تفریحی جھولا باکو آئی ہے جو پنیورامک منظر کو خوبصورت بناتا ہے۔

ہماری اگلی منزل بی بی ہیبت مسجد تھی جو شہر کے مرکز سے، 6 یا 7 کلومیٹر دور ہے اور مقامی لوگ اسے ”فاطمہ مسجد“ بھی پکارتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عباسی خلفاء کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر اس خانوادے کے لوگ ایران سے یہاں آئے تھے۔ مزار اقدس کے ایک پتھر پر کندہ ہے کہ ”عکیمہ خانم کا تعلق مقدس خاندان سے ہے، یہاں عکیمہ خانم کو دفن کیا گیا تھا، جو پیغمبر اسلام کی اولاد سے تھیں، جو چھٹے امام جعفر الصادق کی پوتی تھیں ساتویں امام موسیٰ کاظم کی بیٹی اور آٹھویں امام علی الرضا کی بہن“ ۔

مزار اقدس پر حاضری دی، ساتھ ہی مسجد ہے۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس مسجد کو 1936 میں بالشویک فوجوں نے تباہ کر دیا تھا۔ مسجد اور مزار کی موجودہ عمارت 1994 میں آذربائیجان کی آزادی کے بعد ہونے والی مختلف ادوار میں ہونے والی تعمیر نو کی مرہون منت ہے مسجد دو میناروں اور تین گنبدوں پر مشتمل ہے۔ گنبدوں کو سبز اور فیروزی شیشوں کے ٹکڑوں سے خوبصورتی سے سجایا گیا ہے، جن پر قرآن مجید کی آیات ہیں۔

مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ نماز کے کمرے ہیں۔ مردوں کے لیے نماز پڑھنے کا کمرہ کمپلیکس کے جنوب کی جانب جبکہ خواتین کے لیے شمال کی جانب ہے۔ ان کمروں کے درمیان مزار اقدس ہے۔ مشہور فرانسیسی مصنف، الیگزینڈر ڈوماس، جس نے 1840 کی دہائی میں مسجد کا دورہ کیا، اپنی کتاب ”The World“ میں لکھا کہ ”یہ مسجد بانجھ عورتوں کے لیے ایک فیض کا درجہ رکھتی ہے، بے اولاد عورتیں یہاں پیدل آتی ہیں، یہاں آ کر منت مانگتی ہیں اور اپنی مراد پاتی ہیں۔ ہم نے اس مزار پر مقامی لوگوں اور سیاحوں کو عقیدت کے پھول نچھاور کرتے دیکھا، جس سے صاف لگتا تھا کہ یہ مرکز لوگوں کے دل میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔

باکو میں قیام کا ہمارا دوسرا دن مکمل ہو چکا تھا۔ ہم ہوٹل کی طرف جاتے یہ سوچ رہے تھے کہ آذربائیجان کے لوگ ہم پاکستانیوں کو دیکھ کر ترکوں کی طرح ”گاردش“ کیوں کہتے ہیں، جس کے معانی، بھائی کے ہیں۔ اکثر جگہوں پر لوگ کے اس رویے سے بڑی خوشی ہوتی رہی۔ مگر تجسس نے کہیں کا نہ چھوڑا اور پھر ہم نے ”نجاد“ سے پوچھ ہی لیا کہ اتنی عزت ہضم نہیں ہو رہی بتاؤ تو سہی، یہاں لوگ اتنا پروٹو کول کیوں دے رہے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ترکی کے بعد پاکستان دوسرا ملک تھا جس نے 1992 میں آذربائیجان کو تسلیم کیا۔

مزید یہ کہ پاکستان ناگورنو قرہباخ جنگ میں آذری لوگوں پر ہونے والے جانی نقصان کی مذمت کرتا اور اس علاقے کو آذربائیجان کا حصہ تسلیم کرتا ہے اور آرمینیا کو ملک کے طور پر تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ یہ سب آذربائیجان کے موقف کی حمایت ہے اور اسی وجہ سے ہم پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ جواب سمجھ میں آ گیا آسان تھا، تھوڑا تھوڑا کشمیر جیسا لگا۔ تب سے ہم نے بھی ہر ایک آذری کو ”گاردش“ کہنے کا ارادہ کر لیا۔

ظاہر ہے یہ قید مردوں تک تھی۔ اب تک کی ہماری کل آذری لغت چائے، شراب (مقامی زبان میں پانی کو کہتے ہیں ) ، قہوہ اور نان پر مشتمل تھی، گمان ہونے لگا کہ اردو میں یہ الفاظ شاید مشرق وسطی سے ہی آئے ہوں گے۔ خیر اب طعام و قیام کا سودا سر میں سمایا تھا۔ اور اگلے دن کی منازل کے خیال سامنے تھے۔ ڈرائیور کو اس دن کے لئے خداحافظ کہا اور اگلے دن ملنے کا وقت بتا کر ہوٹل میں گھس گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).