کنیز فاطمہ کو گھر بسانا ہے (3)


جمیلہ، کنیز فاطمہ اور کنیز فاطمہ کی اماں ایک ساتھ ہی حاملہ ہوئیں اور ایک ماہ کے وقفے سے تینوں کے ہاں بیٹیوں کی ولادت ہوئی۔ سب سے پہلے کنیز فاطمہ کی اماں نے بیٹی جنمی۔ کنیز فاطمہ کی ساس نے بہت دباؤ ڈالا کہ اماں کے پاس ہو آؤ، پر کنیز کو اپنا مٹکا سا پیٹ لے کر اماں کے گھر جاتے ہوئے شرم دامن گیر ہوئی۔ ابا جب بیٹی کی مٹھائی لائے تو وہ ابا کے سامنے بھی نہ آئیں۔

پندرہ روز بعد جمیلہ کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ جمیلہ کی زچگی یہیں ہوئی۔ فراست کے ماں باپ مر چکے تھے۔ جمیلہ گھر میں اکیلی تھی۔ اس لیے اس کی زچگی بھی یہیں ہوئی۔ کنیز فاطمہ نے اپنی ہمت سے زیادہ جمیلہ کی خدمت کی۔ ساس اپنی چھوٹی بیٹی کو مسلسل ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتیں کہ اس حال میں بھی دلہن کام میں لگی ہے۔ مگر وہ اپنی سلائی کڑھائی میں اتنی منہمک تھی کہ ”ابھی آئی“ کہہ کر اس وقت آتی جب کام ہو چکا ہوتا۔

چوتھے روز کنیز فاطمہ کو درد اٹھے تو جمیلہ نے کنیز فاطمہ کو مشورہ دیا کہ اپنی چھوٹی بہن صغرا کو بلا لے۔ مگر پہلی بار کنیز فاطمہ نے سختی سے منع کر دیا۔ جمیلہ نے جتایا کہ وہ تو اسی کے خیال سے کہہ رہی تھی۔ لیکن وہ، بھابی بیگم کے انکار کو دل پر لے بیٹھیں۔ کنیز فاطمہ نے پہلی بیٹی کو جنم دیا۔ سب ہی بہت خوش تھے۔ کنیز فاطمہ کی چھٹی اور جمیلہ کے چھلے کی رسم، ایک ساتھ منائی گئی۔

دو سال بعد کنیز اور جمیلہ کے ہاں دوسری بیٹی پیدا ہوئی، دو بیٹیوں کو تو ساس نندوں نے سنبھالا، تین سال بعد کنیز فاطمہ، ان کی ماں اور جمیلہ ایک ساتھ پھر امید سے ہو گئیں۔ کنیز فاطمہ گھر کے کاموں میں جتی رہیں۔ جمیلہ نے حاملیت کا سارا وقت میکے میں آرام کرتے اور کنیز فاطمہ پر حکم چلاتے گزارا۔ ڈاکٹر کی دی گئی تاریخ پر جمیلہ بیگم ہاسپٹل گئیں آپریشن ہوا، اور بیٹے نے دنیا میں آ کر چاروں جانب خوشیاں بکھیر دیں۔ ادھر کنیز فاطمہ سل پر کچھ پیس رہی تھیں کہ درد کی تیز لہریں اٹھیں ان کی ساس انہیں کمرے میں لے گئیں، دائی کو

بلا نے بھیجا، مگر تیسری بیٹی بن بلائے مہمان کی طرح باہر آ گئی۔ ساس نے آنول نال کاٹ کر بچی کو کپڑے سے صاف کیا، ماں کے برابر میں لٹا یا اور کمرے سے باہر چلی گئیں۔ تھوڑی دیر بعد دائی آئی اور باقی کارروائی انجام دی۔ سسرال کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ کسی نے مبارک باد دی، نہ مٹھائی بٹی نہ ہی نومولود کو کسی نے گود میں اٹھایا۔ کنیز فاطمہ کا جرم بہت بڑا تھا، تکلیف میں وہ بستر پر پڑی رہتیں۔ سب جمیلہ کی خاطر داری اور بچے کی دیکھ بھال میں مگن تھے۔

کسی نے انہیں روٹی پانی دوا دارو کا نہ پوچھا۔ ایسے میں انہیں بلی کے خیال نے تقویت دی، وہ بھی تو دو دو دن بھوکی پیاسی رہتی ہے۔ انہیں ساس کی مصروفیت کا بھی اندازہ تھا۔ سمجھتی تھیں کہ سب جمیلہ کے بیٹے کی آمد کی خوشی میں مصروف ہیں۔ انہوں نے ایسا کون سے انوکھا کام کیا ہے کہ سب انہیں پوچھیں۔ الٹا انہیں اس بات کا ملال تھا کہ وہ ایسے موقع پر کسی کی مدد کرنے کے قابل نہیں۔

بیٹے کی پیدائش کو جمیلہ اپنا کوئی کارنامہ سمجھ رہی تھی۔ اب جمیلہ کا بیٹا ہی سب کی نگاہوں کا مرکز تھا۔ میکے میں ہی چھٹی اور چھلا نہانے کی رسم دھوم دھام سے منائی گئی۔ کنیز فاطمہ دوسرے دن ہی سب کی خوشیوں میں شریک ہو نے کے لیے بستر سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

اس زمانے میں آج کی طرح پیمپرز تو ہوتے نہیں تھے، بچے کی ریشز کے خیال سے رات کو بچے کی چڈی یا پاجامے کے اندر کوئی نرم کپڑا بھی نہ رکھا جا تا، بس عقل تھی تو اتنی کہ رات کے لئے چوکور سوتی کپڑے تکونی طرف سے آدھا کر کے تین کونوں والے ڈھیروں لنگوٹ بنا دیے جاتے۔ بچے کو نیچے پلاسٹک رکھ کر اوپر دبیز پوتڑا رکھ دیا جا تا۔ چھوٹے چھوٹے کپڑوں کی کترنیں بطور ٹشو پیپر استعمال ہوتیں۔ صبح صبح سب سے پہلا کام انہیں دھو کر الگنی پر ٹانگنا ہو تا تھا۔

ایک مہینے بعد ان کی اماں کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ بھائی کے پیدا ہونے کی خوشی کی خبر نے بھی دل کے اندر کوئی گدگدی نہ کی۔ ان کی ساس نے ہی انہیں سمجھایا کہ ایسے میں ماں کو تمہاری ضرورت ہوگی، ان کے پاس کچھ دن ہو آؤ انہیں کچھ سہارا مل جائے گا۔ مگر انہیں اپنی ساس کی فکر دامن گیر تھی کہ گھر بھر کے کام کا بوجھ ان پر پڑ جائے گا۔ صبح گئیں اور شام کو واپس آ گئیں۔

ان کی بڑی بیٹی اب پانچ سال کی ہو چکی تھی، وہی اب اپنی منی بہن کا خیال رکھتی۔ کنیز فاطمہ کو اپنی بڑی بیٹی کی وجہ سے بڑا سہارا تھا۔ وہ فیڈر بنا کر اسے تھما دیتیں وہی اسے دودھ پلاتی، ڈکار دلواتی اور اس کی الٹی یا پوٹی صاف کرتی۔ وہی وقت تھا جب ان کی اماں شدید بیمار ہو گئیں۔ ساس نے بیٹے سے کہا کہ بہو کو کچھ دنوں کے لیے لب دم ماں کے پاس چھوڑ آئے، فرمانبردار بیٹے نے ماں کی بات مان لی۔

ماں لب دم تو تھیں، کنیز فاطمہ کو دیکھ کر دم سادھ بیٹھیں۔ لوگوں کا رونا دھونا شروع ہوا۔ کفن دفن میں رات سر پر آ گئی۔ واپسی کی گاڑی بھی نہ مل سکتی تھی۔ رات میاں کو میکے میں گزارنی پڑی۔ میت کے گھر میں بھی داماد کے پروٹوکول میں کمی نہ آئے اس کے لیے اوپری منزل کا کمرہ صاف کر کے دے دیا گیا۔

سوئم، چہلم میں ذرا دیر کو گئیں۔ اب گھر میں پھر کوئی انہیں رکنے کے لیے نہ کہتا تھا، تاکہ کنیز فاطمہ ان کی ناراضی کو خود محسوس کریں، مگر کنیز فاطمہ کے اندر سے میکے سے لگاؤ کا ہر جذبہ مردہ ہو چکا تھا۔

کنیز کی اماں کے مرنے کے بعد ابا کو صاف صاف دکھائی دینے لگا، بیوی تو بس بیوی ہوتی ہے۔ شادی سے پہلے میکے پر ایک بوجھ جسے چودہ پندرہ برس کے سن میں ہی اتار پھینکا گیا ہو، وہ بوجھ، کس طرح اپنے کاندھوں پر سہاگ کے امور، اور کرموں کا بوجھ لادے رہا اس کا اندازہ اس بوجھ کو قبر میں اتارنے پر ہی ہوتا ہے۔ کنیز فاطمہ کے ابا اب گاہے بگاہے اس کے گھر آنے لگے۔

شادی کے بعد ہو نے والی بہن بے بی اور بھائی پپو کو اس عورت سے جو سال دو سال میں چند گھنٹوں کے لیے آتی تھی سے انسیت کے

بجائے ایک بے زاری سی تھی، کیوں کہ اس کے بچے ان کے کھلونوں کو چھیڑتے تھے۔

صغرا اٹھارہ برس کی او رمنی چودہ برس کی ہو چکی تھی، ان کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ ان کے دل سے ساری کدورت دھل چکی تھی۔ اب وہ کنیز باجی کے گھر بسانے والی بات کی مجبوری کو اچھی طرح سمجھ گئی تھیں۔

گھر کے کاموں کے ساتھ تینوں بیٹیوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری بھی انہیں ہی اٹھا نا پڑی۔ اب بڑی بیٹی اتنی ہو گئی تھی کہ اپنی دو چھوٹی بہنوں کو دیکھ لیتی تھی۔ یہ گھر کے کاموں میں جتی رہتیں وقت ملتا تو لڑکیوں کو پڑھانے بیٹھ جاتیں۔

تیسری بیٹی کے دو سال بعد بیٹا ہوا، پودے، جانور اور انسان حیاتیات میں سے ہیں یہ تو کنیز فاطمہ کو معلوم تھا پر خود کے بارے میں جو بے یقینی تھی بیٹے کی پیدائش نے اسے ناصرف دور کر دیا بلکہ انہیں اب پتہ چلا کہ زچہ کو آرام اور اچھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ سسرال جب وہ دلہن بن کر آئی تھیں تب یا اب انہیں اپنے ہو نے کا احساس ہوا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments