باتیں گل بی بی سے


کراچی کے قیام کے دوران میرا ملاقات کا عمومی تجربہ اونچے متوسط اور متوسط طبقے کے ساتھ رہنے اور وقت گزارنے کا تھا۔ ایسے تمام گھروں میں روزانہ کام کرنے والیاں آتی ہیں۔ جن پہ پورا گھرانا اپنے معمولی سے کام کے لیے بھی انحصار کرتا ہے۔ ان گھروں میں بھی جہاں عورتیں تقریباً فارغ بیٹھی رہتی ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے پوری عمر نوکری نہیں کی اور وہ بھی جو اب ملازمت سے فارغ ہوکے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”ساری عمر ملازمت کی اب تو ہمارا آرام کا وقت ہے۔“

گھریلو کام کے لیے ان گھروں میں نوعمر لڑکیوں سے لے کر ادھیڑ عمر عورتیں تک کام کرنے آتی ہیں۔ جو جھاڑو پونچھا، برتن باسن، کپڑے دھونے سے لے کر فرنیچر پہ سے دھول صاف کرنے کے علاوہ کپڑوں پہ استری اور سبزی وغیرہ کاٹنے وغیرہ کا کام بھی کرتی ہیں۔ اور اکثر کام چوری پہ ڈانٹ بھی کھاتی ہیں۔

بڑے بڑے مشہور لوگوں سے تو آپ ملتے ہی رہتے ہیں آج ہم نے سوچا کہ آج آپ کی ملاقات ایک گم نام سی ملازمہ سے کروائیں جن کا نام گل بی بی ہے۔

شاید ان کے والدین نے یہ نام اسی لیے رکھا ہو گا کہ ان کی اولاد ادھیڑ عمر میں بھی پھولوں کی مانند کھلی رہے اور عزت و وقار سے سر اٹھا کے جئے۔ آخر کار محنت میں عظمت ہے۔ خود ان کی زندگی بھی یقیناً ایسے ہی مشقت میں گزری ہوگی کہ تیسری دنیا میں غربت کا چکر آسانی سے بھلا کب ٹوٹتا ہے۔

گل بی بی گلشن اقبال کراچی کے ایک گوٹھ میں رہتی ہیں۔ گو اپنی بالکل صحیح عمر تو نہیں معلوم مگر اندازہ پچپن اور ساٹھ کے پیٹے میں بتاتی ہیں۔ بلوچ قوم سے تعلق، بیوہ اور چھ بچوں کی ماں ہیں۔ گل بی بی سے گفتگو من و عن پیش خدمت ہے۔

گوہر: گل بی بی کچھ ہمیں بھی تو بتاؤ اپنے متعلق۔ کب سے یہ کام کر رہی ہو؟

گل بی بی: جب ہمارا سب سے بڑا بیٹا پندرہ سال کا تھا، ہم نے گھر گھر جا کر کام کرنا شروع کیا۔ ابھی تو وہ بیٹا بھی تین بچوں کا باپ ہے۔ ہمارا چھ بچے ہے چار لڑکوں کے بعد ایک بیٹی ہوا۔ اور ایک اور چھوٹا بیٹا بھی ہے۔ ایک بچہ آدھا ضائع ہوا اور ایک معذور تھا وہ دس بارہ سال زندہ تھا ابھی اس کا انتقال ہو گیا ہے۔

گوہر: میاں کہاں ہے؟
گل بی بی: ہمارا شوہر تو اس وقت مر گیا تھا جب ہمارا چھوٹا بچہ ڈیڑھ سال کا تھا۔ پندرہ سال سے بھی زیادہ ہو گیا ہے اب۔

گوہر : میاں کیا کرتا تھا؟
گل بی بی : میرے شوہر کو کبھی نوکری نہ تھا۔ لیکن اس نے مزدوری کا کام کیا۔ بہت محنت کیا جگہ جگہ۔ کبھی نہیں بیٹھا۔ کام کر کے جو پیسہ ملا اس سے سبزی خریدا گوشت خریدا چاول خریدا گھر کے لیے۔

گوہر: میاں کیسا تھا؟ ظالم تو نہیں تھا؟

گل بی بی: ہمارا شوہر بہت اچھا تھا۔ ہمارا بہت مدد کرتا تھا۔ سردی میں میرے ساتھ برتن دھلواتا۔ ہم نے کپڑا دھویا تو وہ (سوکھنے کو) لٹکاتا۔ ساتھ سالن بنایا، چائے بنائی۔ میرے ساتھ ہمیشہ مدد کیا۔ وہ کہتا ”بی بی تم خالی اپنے لیے روٹی بناؤ۔“ اس نے تو بچوں کو بھی کبھی تھپڑ بھی نہیں مارا تو ہمیں کیا مارتا۔ سب کو ایسا شوہر ملے۔

گوہر۔ تم نے بچوں کو پڑھایا؟

گل بی بی: کیوں نہیں۔ میرے پاس پیسہ نہیں تھا۔ میں نے انہیں پرانا شرٹ پرانا پینٹ پہنایا پرانی کتابیں خریدیں۔ ایک بیٹے اور بیٹی کو بارہ جماعتیں پڑھایا۔ ایک چھوٹے کو آٹھ جماعت پڑھایا۔ ہمیں تو کچھ آتا نہیں۔ ہم تو فون بھی نہیں ملا سکتا۔ ہم نے جتنا محنت کر کے پڑھا سکا بچوں کو پڑھایا۔

بیٹوں کا اپنے پیسے خرچ کر کے شادی کرایا۔ ان کو ایک ایک مکان، چادر کی چھت والا، بھی دیا۔ ابھی ہمارا گھر کی چھت ٹوٹ گئی ہے، پیسے جمع کر کے اس کو بنوانا ہے۔ مہنگائی بھی تو بہت ہے۔

گوہر۔ گل بی بی تم تو ابھی بھی خوبصورت اور جوان لگتی ہو۔ بال بھی کالے ہیں۔
گل بی بی: (ہنستے ہوئے ) ارے رنگ کیا ہوا ہے بتایا تو تھا تم کو۔ ظاہر ہے ابھی ہم انسان ہے ہماری بھی زندگی ہے۔ اگر نہاد دھو کے کپڑا بدلتا ہے تیار ہوتا ہے تو خود ہم کو اچھا لگتا ہے۔ ہمارا دل خوش ہوتا ہے۔

گوہر: میری بہن کے گھر تو تم تین چار سال سے کام کر رہی ہو۔ وہ کہتی ہے کہ تم کبھی صفائی کرنے میں ڈنڈی مار جاتی ہو۔
گل بی بی: (ہنستے ہوئے ) ہاں کیا کرے گا باجی۔ بات تو ٹھیک ہے۔ ابھی ہم تھک جاتا ہے۔ کمر ومر میں درد رہتا ہے۔ لیکن ہم کبھی چوری موری نہیں کرتا۔ جب تمھارا بہن امریکہ میں تھا ہم اس کے پیچھے اکیلے گھر کا سارا کام کرتا۔ ایک دن ہم نے تین ہزار روپے تکیہ کے نیچے دیکھا وہ پڑوس والے کو دیا جن کو وہ چابی دے کر گیا تھا۔ ہم ایک پیسے کا بھی چوری نہیں کرتا۔

گوہر: زندگی میں اور کس قسم کے لوگوں کے ساتھ کام کیا۔ ایک آدھ تجربہ ہمیں بھی بتاؤ۔
جواب: اچھے برے سب لوگ۔ ایک بہت پڑھی لکھی پروفیسر میڈم تو طلاق کے بعد اکیلی رہتی تھی۔ اس کی بیٹی شادی کے بعد باہر چلی گئی تھی۔ کوئی خیال رکھنے والا نہ تھا۔ ہم ہی تھا مگر وہ نہ ہم کو کھانے کو دیتی اور ہر وقت ڈانٹتی الگ رہتی تھی۔ ہم اگر سخت گرمی میں پنکھا کھول لیتا تو کہتی، ”بل تمھارا باپ دے گا کیا۔“ ہم سوچتا کہ اگر ہمارا باپ دے سکتا تو ہم آج تمھارے پاس کیوں کام کرتا۔ وہ خود میکرونی ( مائیکرو ویو) میں اپنا تھوڑا سا کھانا گرم کرتا اور ہم سے کہتا گھر جا کر کھانا کھاؤ۔ ہم بھوکا رہتا۔ نہ وہ کھانے کو دیتا اور تنخواہ بھی اتنی کم کہ گزارہ نہیں ہوتا۔ آخر کو ہمارا بھی پھیملی (فیملی) ویملی ہے۔ ہمارے گھر دو بوری تو آٹا آتا ہے۔ تیس کلو ہم چینی خریدتا ہے اور ٹی پال دانہ دار چائے کا خرچہ بھی ہے گھر میں مہمان آ جائے تو وہ بھی کم پڑتا ہے۔ پھر ہم نے میڈم کا نوکری چھوڑ دیا۔

لیکن سب ایسا نہیں ہوتا۔ ایک گھر میں چوبیس سال پہلے کام کیا تھا انہوں نے اتنا خیال رکھا جتنا کوئی عزیز بھی نہیں رکھتا۔ دعوت ہوتی تو ہمارا صاحب پہلے بڑے برتنوں میں کھانا نکال کے دیتا اور ہم سے کہتا کہ پہلے اپنے گھر کھانا دے کر آؤ۔ اور اگر دعوت میں مہمان دیر کرتے تو ہمارا صاحب کہتا تم کو بھوک لگی ہوگی پہلے کھانا کھاؤ پھر کام کرنا۔ وہ صاحب کا انتقال ہو گیا لیکن ہم ابھی بھی ادھر جاتا ہے۔

گوہر: تم نے بتایا بیٹی پڑھی لکھی ہے۔ کام نہیں کرتی؟
گل بی بی: وہ گوٹھ میں بچوں کے اسکول میں پڑھاتا ہے۔ چار ہزار ملتا ہے۔ مگر اس میں تو اس کے اپنا شیمپو ویمپو کا خرچہ بھی نہیں نکلتا۔ اس کی اپنے کزن سے منگنی ہوئے دو سال ہو گیا مگر ابھی شادی نہیں ہو سکتا۔

گوہر : کیوں
گل بی بی: لڑکے کی ماں بیمار ہے۔ علاج میں ہی سارا پیسہ لگ جاتا ہے۔ شادی کیسے کرے گا۔

سوال۔ اچھا میں تمھیں ایک مفت علاج والے ہسپتال کا پتہ لکھ دوں گی جو کوہی گوٹھ میں ہے۔ کوہی گوٹھ ہسپتال
گل بی بی: وہ جو ملیر کی طرف ہے؟ ہمارے سارا بلوچ عزیز وہاں کے گوٹھ میں رہتا ہے ادھر۔ تم پرچی پہ نام لکھ دو۔ ہسپتال اور ڈاکٹر کا۔

گوہر: ہاں ضرور لیکن بیٹی کو آگے پڑھواؤ تو اچھا ہے۔
گل بی بی: ابھی ہمارے بس میں ہو تو ہم خود پڑھنے لگے۔ لیکن اب ہم بوڑھا ہو گیا ہے۔ بیٹی کو کہے گا کہ پہلے کچھ اور پڑھے۔ پھر شادی کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments