میرا جسم اللّٰہ کی مرضی اور سیاہ کائنات


چند دن پہلے ٹویٹر پر ایک ٹویٹ کے جواب میں ”میرا جسم اللہ کی مرضی“ کے الفاظ پڑھے۔ ایک اور ٹویٹ میں کرسیوں سے آراستہ شادی کے پنڈال کی تصویر کے ساتھ لکھا تھا:
شادی میں شریک مہمان خواتین سے زیادہ تو یہ کرسیاں باپردہ ہوتی ہیں۔

یہ دونوں ٹویٹس ہمارے مردوں کی عورت کے حوالے سے ذہنیت کی بخوبی عکاسی کرتی ہیں۔ ایسی کوئی ٹویٹ یا سوشل میڈیا پوسٹ مرد حضرات کے حوالے سے کبھی نظر نہیں گزری۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جسم اور پردے کا تصور صرف عورت کی ذات سے وابستہ ہے۔ جبکہ درحقیقت جسمانی پردہ اور حیا کا درس مرد کے لئے برابر دیا گیا ہے۔

میرا جسم اللہ کی مرضی کے الفاظ لکھنے والے صاحب کو جواباً یہ کومنٹس دیے گئے :
* اگر آپ کے جسم میں کوئی خنجر گھونپ کر چلا جائے تو اللہ کی مرضی سمجھ کر صبر کر لیجیے گا۔
* اگر کوئی آپ کے۔ کو ہاتھ لگا کر بھاگ جائے تو کیا یہ اللہ کی مرضی ہوگی؟

عورت کے جسم پر اللہ کی مرضی کی بات کرنے والے مرد اپنے جسم کو کس کی مرضی سے استعمال کرتے ہیں، یہ سب جانتے ہیں۔ اگر اپنے جسم پر اللہ کی مرضی کی بات کی جائے تو عورت کو دیکھ فحش اور جنسی اشارے کرنے والے مردوں کے پاس ان کے فعل کا کیا جواز اور جواب ہے؟ دین اور اخلاقیات میں تو یہ بے حیائی اور ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے۔ ہمارے مرد صرف عورت کے جسم پر اللہ کی مرضی چاہتے ہیں۔ اپنے جسم کے لئے وہ قواعد و ضوابط اور اخلاقیات سے آزاد ہیں۔

یہاں خاندان کی عزت و آبرو کا پیمانہ صرف عورت کا کردار ہے۔ مرد کوئی بھی برائی یا گناہ کرے، اسے مرد ہونے کی بنا پر معافی مل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طوائف کو فاحشہ اور معاشرے میں فحاشی پھیلانے والی کہہ کر گالی دی جاتی ہے۔ جبکہ اس کی خرید و فروخت اور اسے کرائے پر اٹھا کر پیسہ کمانے والے دلال اپنا کام بلاتکلف جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ہزاروں مرد رات کی تاریکی میں طوائفوں کے وجود سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ اگر طوائف اور بازار حسن کا وجود نہ ہو تو مرد بھی برائی کی طرف راغب نہ ہوں۔

معروف افسانہ نگار غلام عباس نے ایک افسانہ لکھا تھا جس میں ایک بابا جی طوائفوں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔ کاش غلام عباس کا قلم کوئی ایسا کردار تخلیق کرتا جو طوائف سے فیض یاب ہونے والے معززین اور اس سے جسم فروشی کروانے والے دلالوں کی اصلاح کرتا۔ ایک اور افسانہ ”آنندی“ میں غلام عباس نے بازار حسن اور طوائفوں کو شہر بدر کرنے کی کہانی بیان کی ہے۔ حالانکہ شہر بدری کے مستحق تو وہ مرد ہیں جن کا کردار خراب ہے اور وہ عورت کو صرف مرد کی تفریح طبع کا سامان سمجھتے ہیں۔

ان دونوں افسانوں کا انجام افسوس ناک اور نا امیدی پر مبنی تھا۔ پہلے افسانے میں طوائفوں کی اصلاح کرنے والے بابا جی کے گھر تین چار خواتین اپنے سامان کے ہمراہ آ گئیں۔ وہ جسم فروشی یا ناچ گانے کا پیشہ ترک کرنا چاہتی تھیں۔ تب بابا جی بہت پریشان ہوئے کہ ان طوائفوں کو کیسے اپنے چھوٹے سے گھر میں رکھتے اور ان کی مالی اور دیگر ضروریات کیسے پوری ہوتیں۔ اور آنندی کا انجام یہ ہوا کہ جب بازار حسن اور طوائفوں کو شہر سے باہر منتقل کر دیا گیا تو نئی جگہ پر بھی کچھ عرصے بعد نئی دکانیں بن گئیں، لوگوں کی آمد و رفت شروع ہو گئی، اور بازار حسن کا کاروبار دوبارہ چل نکلا۔ یعنی شہر بدری کے باوجود جسم فروشی کے ناپاک کاروبار کو نئے گاہک میسر آ گئے۔ ایسی صورت حال میں طوائفوں کو گالی اور فحاشی کی ذمہ دار قرار دینا کہاں کا انصاف ہے جب ان کے رسیا ان کے پیچھے کہیں بھی پہنچ جاتے ہیں؟

بات عورت کے جسم اور پردے سے شروع ہو کر طوائف تک اس لئے آ گئی کہ خواہ وہ یہ مکروہ پیشہ اپنی مرضی سے ہی کرے لیکن اس مرضی کے پس پردہ جو مجبوری اور درد پنہاں ہیں، یہ تو وہ عورت ہی جانے۔ طوائف کے جسم سے لطف کشید کرنے اور اس کی خرید و فروخت کرنے والے دلال ہوں یا معاشرے کے دیگر عام و خاص مرد، عورت کو جب تک اپنی ملکیت سمجھتے رہیں گے تب تک عورت زیر دست رہے گی۔ اور صنفی و معاشرتی مسائل بھی موجود رہیں گے۔

عورت کے جسم پر اللہ کی مرضی چاہنے والے مردوں سے سوال ہے کہ عورت کی خرید و فروخت کرنے اور اس سے تفریح حاصل کرنے والے مردوں کے لئے کیا آپشن ہے؟ علامہ اقبال نے فرمایا:

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اگر عورت نے اللہ کی مرضی پر عمل کرتے ہوئے سیاہ برقع کی صورت میں شرعی پردہ اختیار کر لیا تو یہ کائنات تو بے رنگ بلکہ سیاہ ہو جائے گی۔ کیا ایسی بے رنگ کائنات میں مردوں کا دم نہ گھٹ جائے گا جہاں عورت کا مطلب سیاہ برقع ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments