ابو ریٹائر ہو گئے


” لہو دا عرق“ شاکر شجاع آبادی کی سرائیکی شاعری پر مشتمل کتاب ہے جو میں نے پہلی دفعہ اپنے ابو کے ہاتھ میں دیکھی تھی یہ غالباً چوتھی یا پانچویں کلاس کی بات ہو گی۔ مادری زبان سرائیکی ہونے کے باوجود صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا بہت مشکل تھا ایک ایک لفظ کو جوڑ کے جیسے پڑھا جاتا ہے ایسا ہی کچھ سین تھا۔ مگر ابو  نے نہ صرف دو چار دنوں میں سرائیکی پڑھنا سکھا دی بلکہ تلفظ کے ساتھ ساتھ شاعری میں کس لفظ کو کیسے پڑھ اور سمجھ کر لطف لینا ہے وہ سمجھا بھی دیا اور مختلف اشعار پر کھل کے قہقہہ لگا کر اور شاکر کے تخیل کی داد دینا بھی بتا دیا۔

کچھ ہی دنوں میں اس کتاب میں شامل کچھ ڈوہرے اور غزلیں مجھے یاد بھی ہو گئی اور میں ابو کو سناتا بھی رہتا تھا۔

اسی طرح اخبار کے سپورٹس والے صفحے سے ایڈیٹوریل کی طرف لے آنا اور کالموں کی نشاندہی کر دینا کہ یہ پڑھ کے بتائیں اس میں کیا کہہ رہا ہے، کلیات اقبال آ گئی، موسیقی میں گائی گئی شاعری کو انجوائے کرنا اور ساتھ میں کھول کر بیان بھی کر دینا خاص طور پر منصور ملنگی کی غزلیں اور ان کے بیچ میں کہے گئے قطعے بھی بہت ایک ساتھ مزے لے لے کر سنے اور سمجھے۔

اردو ترجمہ والا قرآن خود ساتھ بیٹھا کر سمجھانا نہ کہ پڑھانا اور ساتھ میں تحریک بھی دینا کہ ترجمے والا قرآن پڑھیں۔ انگلش اور اردو ترجمہ والے دونوں قرآن موجود تھے۔ سستی کتابیں لینے کے لئے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے کارڈ بھی مل کے بنوا لینے۔

یہیں سے ہی ہمیں علم کی شان، وقت کی بچت، ”صرف نان جویں“ پر آگے بڑھنے کا جذبہ، ایثار اور سب کے بھلے کا سبق دیا۔ ابو نے ساتھ میں یہ بھی بتایا پہلے خود محنت کر کے کسی جگہ پر پہنچ جائیں گے تو ہی کوئی بات سنے گا اور کسی کا بھلا بھی کر سکیں گے ورنہ کوئی لفٹ بھی نہیں کرائے گا۔ کمال یہ ہے کہ ابو نے روشن فکر، ترقی پسند مزاج اور حقیقت پسندی اور مذہب کے ساتھ لگاؤ کو ہمیشہ ساتھ ساتھ رکھا۔

ایک سبز پہلو ابو کی شخصیت کا بھی سن لیں، دیہات کا گھر تھا صحن کھلا تھا تو ابو نے کمروں کے آگے دو گراسی پلاٹ بنا دیے جن کے درمیان سے راستہ نکلتا تھا۔ ان پلاٹس کے لئے گھاس بڑی سوچ بچار کے بعد خرید کر لگائی گئی جو کچھ ہی عرصے میں سبزہ کی شکل میں سامنے آئی اور ہم ابو کے ساتھ صبح صبح ننگے پاؤں گھاس پر چلنا شروع ہو گئے۔ گھاس میں سے کھرپے کے ساتھ جڑی بوٹیاں صاف کرنا، بڑی لگن اور محنت سے پانی دینا، خیال رکھنا اور ہمیں بھی اس میں شامل کر لینا۔

پلاٹس کے کناروں پر مختلف اقسام کے درخت اور پھول بھی چن چن کر لگائے گئے جنہوں نے نہ صرف گھر کا نقشہ بدل دیا ساتھ میں رات کو پھولوں کے مہک نے فضا کو خوشبودار بھی کر دینا۔ رات کی رانی، چنبیلی، گلاب اور گیندے کے پھول اور اس کے علاوہ گملوں میں بھی رنگ برنگے پھولوں کی بہار دیکھنے لائق تھی۔ دیواروں پر بیلیں بھی پیچ در پیچ جال کی طرح قابض ہو گئی۔ یہ سب ابو کی مہربانی سے ہوا۔

دوستو! چنبیلی کی خوشبو سے پہلے واقف ہوئے اور کتاب میں بعد میں پڑھا کہ یہ پاکستان کا قومی پھول ہے۔

بچوں کی تعلیم کے لئے ہمیشہ سے ہی ابو مثبت اور سخت دونوں اپروچ ساتھ ساتھ لے کر چلے۔ پڑھنے والے بچے سے وہ راضی رہتے اور وقت ضائع کرنے والے سے کبھی منہ موڑ لیتے تھے اور کبھی سیدھا کرتے۔ جیسے ہی اگلے نے کتابیں اٹھائی، ابا ہلکا پھلکا مذاق کرنے اور ایک دفعہ پھر سے موٹیویٹ کرنے کے لئے حاضر ہو گئے ساتھ میں باہر سے کسی چیز کی آفر کر دی یا پوچھ لیا جو دل میں آئے بتا دو لے آتا ہوں۔

ہم اپنی مرضی سے دوسرے شہر اعلی تعلیم کے لئے چلے گئے جو کہ چھٹی سے شروع ہونا تھی تو ابو نے انکار نہیں کیا اور کہا جہاں دل کرے پڑھنے جائیں بس محنت ضرور کرنا ہے۔

جس اسکول میں اور میرا بھائی داخل ہوئے وہ مہنگا تھا لیکن کبھی ابو نے اس پر لب کشائی نہیں کی۔ ہاں مگر خوش لباس ابو جو پہلے کاٹن اور وول کے کپڑے پہنتے تھے وہ واش اینڈ ویئر پر آ گئے لیکن ہمارے خرچوں میں کبھی کوئی اونچ نیچ نہیں ہوئی۔ صرف سیگریٹ پیتے رہے وہ بھی جب تک دل کا مسئلہ نہ ہوا۔

4/ 5 سال پہلے جب بڑی بہن نے یونیورسٹی اور سارا اور عبداللہ نے اسکول جانا تھا تو ابو نے 55 سال کی عمر میں موٹر سائیکل سیکھ لی کہ ان کو بھی چھوڑ آؤں گا اور یہ ذمہ داری اب بھی نبھا رہے ہیں۔ بس یوں سمجھیں بچوں کی پڑھائی کے لئے اگر ابو کو نہر بھی کھودنا ہو تو تیشہ لے کر چل پڑیں گے۔

اور بھی بہت سے باتیں ہیں جیسے ہر شہر، تاریخی عمارتوں، مزاروں، کارخانوں کے متعلق بتانا کب سے ہے، کس نے بنایا، کیسے کام کرتا وغیرہ۔ قصہ مختصر، ایک سرکاری ملازم نے، قربانیاں دے کر ہمارے بچپن کو بہت ہی دلکش، علمی اور جمالیاتی انداز سے سے سنوارا ہے۔

ایک ”محنت کلاس“ بندے سے اس سے زیادہ کی فرمائش زیادتی ہی ہو گی۔

اللہ ابو کو سلامت رکھے ہر لمحہ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی فکر نہیں، کوئی پریشانی نہیں۔ بہار ہے، سبزہ ہے، اور گملوں میں لگے رنگ برنگے پھول ہیں۔ بس یوں سمجھیں ابو ہمارے پاس ہوتے ہیں گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔

تو جناب میرے ابو کی آج سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ ہے، 40 سال انہوں نے دفتروں میں سرکار اور عوام کے کام کرتے ہوئے گزار دیے۔ دفتروں میں انہوں نے کیا مشکلات سہی ہونی، کتنے مشکل وقت گزارے ہوں گے، یہ وہی جانتے ہیں۔ بچے تو بس ان سے اکثر فرمائشی اور کبھی کبھی منت ترلے کے انداز میں اپنے بارے میں ہی بات کرتے ہیں۔

والدین سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوتے ہیں، خاندانی اور گھریلو ذمے داریوں سے نہیں کیوں کہ یہ مشرق ہے اور یہاں یہی اچھا ہے (ایک ”مشرقی بیٹا“ ایسے ہی سوچے گا)۔

دعا کریں ایسا ہی چلتا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments