عمران خان کی نمل یونیورسٹی کی حقیقت


میانوالی میں نمل نامی تعلیمی ادارے کے قیام سے کون واقف نہیں ہے۔ جب بھی عمران خان صاحب کی قوم کے لئے خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے تو شوکت خانم ہسپتال کے بعد نمل کا نام ضرور سامنے آتا ہے۔ چونکہ مضمون کے عنوان سے ہی آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ میں نمل کی بابت کوئی توصیفی مضمون نہیں لکھنے والا تو شاید آپ یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں سیاسی طور پر عمران خان کا مخالف ہوں۔ تو میں بتاتا چلوں کے آخری الیکشن میں میں نے عمران خان کو ہی ووٹ دیا تھا۔

اور بیس پچیس سال پہلے جب میرے گھر والے آج کی طرح عمران خان کے پیچھے پاگل نہیں تھے تو میں نے گھر والوں سے چھپ کر سارے محلے کے اکلوتے سونی ٹیلی ویژن پر عمران خان کا اسٹیکر چپکا دیا تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس موجودہ وقت میں کسی بھی سیاسی جماعت میں انٹرسٹڈ نہیں ہوں۔ البتہ تعلیم میں مجھے بہت دلچسپی ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں نمل کالج کو لے کر بہت زیادہ پرجوش تھا اور جب سے وہ بنا ہے اس کو مسلسل فالو کر رہا ہوں۔ میں خود بھی شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوں اور اس وقت انگلینڈ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ میں عمران خان سے بغض نہیں رکھتا اور معیار تعلیم پر رائے دینے کی استعداد رکھتا ہوں۔

جب نمل کا قیام ہوا تو بہت بلند بانگ دعویٰ کیے گئے تھے۔ سب سے پہلے یہ کہا گیا تھا کہ نمل میں پڑھنے والے غریب طالب علموں کو انگلینڈ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی کی ڈگری ملے گی۔ جبکہ ایسا نہیں ہو رہا۔ صرف ابتدائی ایک دو سال تک ایسا ہوتا رہا۔ دوسرا بلند بانگ دعوی کیا گیا کہ یہ ادارہ غریب طالب علموں کو پڑھانے کے لیے بنایا گیا ہے جبکہ نمل کی فیس اتنی کم بھی نہیں۔ تقریباً پرائیویٹ اداروں کے برابر ہے۔ ہاں کچھ غریب طالب علموں کو اسکالرشپ ضرور دیا جاتا ہے لیکن اس سے زیادہ لمز میں غریب طالب علموں کی امداد کی جاتی ہے اور لمز کی تعلیم، لمز کے استاد اور لمز کی تجربہ گاہیں نمل کے مقابلے میں دوگنا سے زیادہ بہتر ہیں۔ جبکہ لمز کے بانی سید بابر علی کو قومی ہیرو کا درجہ دینا تو درکنار زیادہ تر عام لوگ جانتے تک نہیں ہیں۔ اور وزیر اعظم تو درکنار ان کو کوئی بہبود آبادی کا وزیر بھی لگانے کو تیار نہیں ہے۔

تیسرا بلند بانگ دعویٰ یہ کیا گیا تھا کہ نمل میں نالج سٹی قائم کی جائیں گی جبکہ حقیقت میں نمل کامسیٹس کے کسی چھوٹے ذیلی کیمپس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر نالج سٹی کی پروپیگنڈا ویڈیوز دیکھیں تو ایک نئی دنیا آباد نظر آتی ہے جبکہ حقیقت میں وزٹ کریں تو نمل کالج کی دو بلڈنگ پہاڑی پر منہ چڑا رہی ہیں۔ جبکہ کامسیٹس کی خدمات سے کوئی واقف نہیں ہے لیکن نمل کی خدمات پر پوری قوم لیکچر دیتی پھرتی ہے۔ نمل میں فقط چار ڈپارٹمنٹ ہیں، اور کوئی ماسٹرز یا پی ایچ ڈی کورس نظر نہیں آتا۔ نمل کی ویب سائٹ پر دی گئی اساتذہ کی پروفائل دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کامسیٹس کے ایک غیر معروف اٹک کیمپس میں بالکل اسی سطح کے استاد موجود ہیں۔

اتفاقاً کامسیٹس کے اٹک کیمپس میں تقریباً ڈپارٹمنٹ بھی وہی چار ہیں جو نمل میں ہیں۔ اس لحاظ سے نمل کے تعلیمی اور ملی خدمات کے لحاظ سے حیثیت کامسیٹس کے ایک چھوٹے ذیلی کیمپس سے زیادہ نہیں ہے۔ کامسیٹس کے بڑے کیمپسز مثلاً اسلام آباد یا لاہور کیمپس سے نمل کا ہرگز مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ چٹی کامسیٹس لاہور کیمپس میں بڑی تعداد میں مزدوروں کے بچوں کو مفت تعلیم مہیا کی جاتی ہے۔ اور ملک کی اچھی یونیورسٹیز مثلاً نسٹ قائداعظم یونیورسٹی اور لمز وغیرہ سے تو نمل کا موازنہ کرنا بالکل سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔

اگر عالمی یا ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی پاکستانی سطح کی یونیورسٹیز کی درجہ بندی یعنی رینکنگ کو دیکھا جائے تو بھی نمل کہیں نظر نہیں آتا۔ پھر نمل کی اس قدر تشہیر کیوں ہوئی؟ امریکہ اور انگلینڈ میں بڑے بڑے فنڈ ریزنگ ڈنرز کیوں منعقد کیے جاتے رہے؟ سیاسی ٹالک شوز میں بار بار نمل کا نام کیوں لیا جاتا رہا۔ کیا یہ سب عوامل اس جانب اشارہ نہیں کرتے کہ نمل کے مقاصد سیاسی تھے۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس ادارے کا معیار تعلیم کم تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔

جو کچھ اچھے استاد شروع میں تشہیر سن کر آئے تھے وہ حقیقت جان کر مایوس ہو کر ادارہ چھوڑ چکے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نمل ایک تعلیمی نہیں بلکہ سیاسی ادارہ ہے۔ جسے سیاست چمکانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ عمران خان صاحب کا شروع کیا گیا پہلا پروجیکٹ شوکت خانم ہسپتال ایک معیاری ادارہ بن کر ہزاروں مریضوں کی خدمت کر رہا ہے۔ اس ہسپتال کا معیار دیگر ہسپتالوں سے بہت بہتر ہے۔ مگر افسوس تعلیم کے میدان میں عمران خان صاحب اس اعلی معیار تک پہنچنے میں ناکام رہے۔

نمل آج بھی ایک اچھا ادارہ ہے جس طرح کامسیٹس اٹک کیمپس ایک بہترین تعلیمی ادارہ ہے۔ دونوں کی اچھی بات یہ ہے کہ دونوں کو پسماندہ ضلع میں بنایا گیا ہے۔ حالانکہ زیادہ تر طالبعلم وہاں دیگر اضلاع کے پڑھتے ہیں۔ اس لیے میانوالی میں بنانے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ میرے خیال سے اگر نمل کو کسی بڑے شہر کے نواح میں بنایا جاتا تو زیادہ بہتر تھا کیونکہ اس سے اچھے اچھے پروفیسر نمل میں نوکری کرنے کے لیے تیار ہو جاتے اور مڈل لیول کے عمومی اساتذہ پر گزارہ نہ چلانا پڑتا۔ مگر اس سے یہ ثابت نہ ہو پاتا کہ پیس ماندہ اضلاع کی خدمت ہو رہی ہے۔ اگر آپ تعلیم دان ہیں تو امید ہے آپ خود نمل کی ویب سائٹ دیکھ کر اس کے معیار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اگر آپ عمران خان صاحب کے فین ہیں اور ان کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے تو یقیناً یہ تحریر آپ کو بہت بری لگی ہو گی۔ اس کے لئے میں پیشگی معذرت خواہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments