جناب صدر! یہ پورا سچ تو ہے لیکن۔ ۔ ۔


صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ جب جمہوری قوتیں ہمہ وقت باہم دست و گریباں رہتی ہیں تو غیرجمہوری قوتوں کو نظام کی بساط لپیٹنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک نجی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے جج صاحبان میں دھڑے بندی کا تاثر عام ہو گا تو عدالتی فیصلوں کی من پسند تشریح سے عوام میں اختلافات کو تصادم کا رنگ دینے والے کامیاب ہوسکتے ہیں۔

ملک کے معروضی حالات اور پچھلے کچھ عرصہ میں آئے بعض عدالتی فیصلوں سے بنی آراء کے پس منظر اور موجودہ صورتحال میں صدر مملکت کے خدشات درست ہیں۔ جمہوری قوتوں کی لڑائی کا فائدہ ہمیشہ غیرجمہوری قوتوں نے اٹھایا لیکن یہ بھی بدقسمتی ہی ہے کہ جب غیرجمہوری قوتوں نے دستور اور نظام پر شب خون مارا تو جمہوری قوتوں کی صفوں سے ہی ایک طبقہ آگے بڑھ کر ان کا ہمنوا ہو گیا۔ اسی طرح یہ امر بھی اپنی جگہ تلخ حقیقت کے طور پر موجود ہے کہ جمہوری قوتیں باہمی اختلافات کو مذاکرات کی میز پر حل کرنے کی وسعت قلبی کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔

نیز یہ کہ ان میں سے اکثر کو آئین، جمہوریت، عوام اور نظام کی محبت اس وقت بے چین کرتی ہے جب غیرجمہوری قوتوں سے ان کا ”ہنی مون“ پیریڈ تمام ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک سے زائد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن اگر فی الوقت 2013 ء اور 2018 ء کے انتخابات میں ہوئی مینجمنٹ اور دونوں انتخابات سے قبل کے مختلف مراحل میں انتہا پسندوں کے کھل کھیلنے اور خاص سیاسی گروپ کے لئے حمایت کے اظہار ہر دو کو ہی دیکھ لیا جائے تو انتہائی احترام کے ساتھ یہ عرض کرنا پڑے گا کہ غیرجمہوری قوتوں کے تعاون، انتخابی مینجمنٹ اور جتھوں کی دھونس سے بنے ماحول میں اقتدار حاصل کرنے والوں کو اپنے ماضی پر شرمندہ ہوتے ہوئے عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔

نجی چینل کو انٹرویو دیتے وقت صدر مملکت نے جمہوری قوتوں کے غیرجمہوری رویوں اور ان کے نتائج کے حوالے سے جو کہا وہ بجا ہے لیکن صدر مملکت جس جماعت کے امیدوار کی حیثیت سے اس منصب کے لئے منتخب ہوئے اس جماعت کی وفاقی حکومت کے اختتامی دنوں اور بالخصوص تحریک عدم اعتماد کے مرحلہ میں انہوں نے آئین کی منشا کے خلاف بھجوائی گئی اسمبلی تحلیل کرنے کے لئے اس وقت کے وزیراعظم کی سمری پلک جھپکتے ہی کیوں منظور کر ڈالی؟

یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہمارے قومی سیاسی رہنما ہمیشہ آدھی بات کرتے ہیں وہ جس معاملے میں دوسرے فریق کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہوتے ہیں اسی معاملے میں اپنے کردار کی پردہ پوشی کو لازم سمجھتے ہیں۔ صدر مملکت نے ہفتہ بھر قبل وزیراعظم کو دو صوبوں میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے ایک خط لکھا تھا انہیں اس پر سوچنا چاہیے کہ وہ صرف منتخب کرانے والی جماعت کے مفادات کے نگہبان ہیں یا صدر مملکت کی حیثیت سے مملکت کے سربراہ؟

اصولی طور پر صدر مملکت کی حیثیت سے انہیں متحارب جمہوری قوتوں کے درمیان فاصلے کم کرانے کے لئے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے پچھلے ایک برس کے دوران انہوں نے اپنے بیانات اور عمل سے خود کو جانبدار شخص کے طور پر پیش کیا۔ اس صورت میں کیا وہ یہ نہیں سمجھتے کہ باوجود اس کے کہ انہوں نے درست باتیں کی ہیں اور جن خدشات کا ذکر کیا ہے ان سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کی بات پر توجہ کوئی نہیں دے گا۔

اپنے حالیہ انٹر ویو میں صدر نے سپریم کے رولز کے حوالے سے قومی اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی پر پوچھے گئے سوال کے خواب میں کہا کہ مناسب ہوتا کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ سے مشورہ کر لیا جاتا سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمان قانون سازی میں آزاد ہے یا قانون سازی کے لئے ہر اس شخص محکمے اور ادارے سے مشورے کی پابند جس کے حوالے سے قانون سازی ہو رہی ہو؟

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز صاحبان میں دھڑے بندی اور منقسم فیصلوں سے پیدا شدہ مسائل عوامی جھگڑوں کا دروازہ کھول سکتے ہیں تو یہ بھی ان کی پہلی بات کی طرح درست ہے لیکن معاملہ پھر وہی ہے کیا صدر مملکت نہیں سمجھتے کہ سیاسی عمل میں در آئی عدم برداشت اور دوسرے معاملات کے اثرات سماج کے ساتھ اداروں پر بھی پسند و ناپسند کی شکل میں مرتب ہوئے ہیں؟ ہمارا بنیادی مسئلہ یہی رہا ہے کہ ہم کسی بھی معاملے پر یہ تو کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے لیکن ان وجوہات پر غور نہیں کرتے جو غلط کو بنیاد فراہم کرتی ہیں۔

اس ملک میں پچھلے پچھتر برسوں کے دوران دستور، جمہوریت، عوام اور نظام کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ گزشتہ شب ایک نجی چینل پر اپنے نشر ہونے والے انٹرویو میں انہیں دو ٹوک انداز میں کہنا چاہیے تھا کہ ایک منتخب صدر اور پارلیمان کی موجودگی میں مارشل لاء کی کوئی گنجائش اور خوف نہیں۔ گو انہوں نے معروضی حالات کی روشنی میں جو کہا وہ اپنی جگہ درست تھا مگر انہیں کہنا یہ چاہیے تھا کہ کسی کو سیاسی اختلافات سے فائدہ نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔

امر واقعہ یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کے غیرآئینی اقدامات کے وقت سیاسی جماعتوں کی صفوں سے آئین شکنوں کو مختلف اوقات میں مدد میسر نہ آئی ہوتی تو دوسری یا چوتھی کیا پہلی بار ہی آئین شکنی نہ ہو پاتی۔ بہرطور یہ حقیقت ہے کہ اگر صدر عارف علوی جماعتی وابستگی کو ایک طرف رکھ کر اب بھی قومی صدر مملکت کا کردار ادا کرنا چاہیں تو عوام الناس کی اکثریت جو موجودہ سیاسی عدم استحکام اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے مسائل سے ازحد پریشان ہے اس کا خیرمقدم کرے گی۔

عوامی خیرمقدم سے پیدا ہوئی فضا میں کسی شخصیت یا جماعت کے لئے مشکل ہو گا کہ وہ افہام و تفہیم کی ضرورت کو نظرانداز کرے۔ صدر مملکت کو چاہیے کہ محض دکھی لہجہ میں گفتگو نہ کریں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ پچھلے سال بھر کے بعض واقعات اور چند فیصلوں سے پیدا ہوئی تلخی جس طرح عدم برداشت کو بڑھاوا دے رہی ہے صدر کو اس کا احساس ہے اسی لئے انہوں نے دردمندی کے ساتھ اظہار خیال کیا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ صدر مملکت اپنا آئینی اور قومی کردار ادا کریں۔ اس کے لئے انہیں اس بداعتمادی کو دور کرنا ہو گا جو ان کے حوالے سے حکومتی صفوں میں پائی جاتی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ صدر مملکت متحارب سیاسی قوتوں کی درست سمت رہنمائی کا اپنا فرض ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔ اسی طرح ہم سیاسی قوتوں سے بھی یہ عرض کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ وہ نظام کو اس بند گلی میں دھکیلنے سے گریز کریں جہاں لڑتے لڑتے ہو جائے گم ایک کی چونچ اور ایک کی دُم کے مصداق صورتحال ہو اور کسی تیسری قوت کو حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ امید واثق ہے کہ سیاسی قوتیں موجودہ صورتحال میں تدبر اور دانشمندی کا مظاہرہ کریں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).