سندھ میں ’قبائلی تنازعے‘ میں ہلاک ہونے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کون ہیں؟


’میں ثانوی سطح کا طالب علم تھا۔ ان ہی کپڑوں (شلوار قمیض) میں انگریزوں کو فرینچ میں پڑھاتا تھا۔ ایک گھنٹے کے 30 ہزار روپے پاکستانی ملتے تھے۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے ملک جا کر اپنوں کو پڑھاؤں گا۔‘

ڈاکٹر اجمل ساوند کی یہ ویڈیو گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں وہ طالب علموں کو لیکچر دے رہے ہیں۔

فرانس سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کو جمعرات کی صبح کندھ کوٹ کے گھٹ تھانے کی حدود میں فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔

وہ فرانس کی یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے، جہاں سے وہ کچھ عرصہ قبل وطن واپس آ گئے تھے۔

کندھ کوٹ کشمور پولیس، ڈاکٹر اجمل کے قتل کو قبائلی تنازعے کا شاخسانہ قرار دیتی ہے۔ ایس ایس پی کشمور عرفان سموں نے بی بی سی کو بتایا کہ قتل سندرانی اور ساوند قبائل میں تصادم کا نتیجہ ہے، جس میں اس وقت تک سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

’ساوند قبیلے نے سندرانی قبیلے کے شخص پر کاروکاری کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کے بعد اس نے قبائلی تنازعے کی شکل اختیار کی جس میں ایک عورت اور اجمل ساوند سمیت سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔‘

’مخالفین نے اکیلا دیکھ کر حملہ کیا‘

اجمل ساوند کے بڑے بھائی ڈاکٹر طارق ساوند بتاتے ہیں کہ ان کے بھائی اپنی آبائی زمینیں دیکھنے گئے اور صبح جب واپس آ رہے تھے تو انھیں روک کر حملہ کیا گیا۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ’کوئی قبائلی یا برداری تنازعہ نہیں تھا۔ کچے میں رہنے والے ساوند اور سبزوئی دو گھرانوں میں کاروکاری کا تنازعہ تھا، ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ جب کوئی بے قصور ہوتا ہے تو اس کو کوئی خوف خطرہ نہیں ہوتا اسی لیے ہی ڈاکٹر ساوند رات کو وہاں کچے میں گئے تھے۔‘

سکھر کے صحافی ممتاز بخاری بتاتے ہیں کہ اجمل ساوند رات کو 12 بجے کچے میں اپنی زمینیں دیکھنے گئے تھے دوسرے روز صبح ان کی آئی بی اے سکھر میں کلاس تھی۔

’وہ جس علاقے میں گئے تھے وہاں ساوند اور سبزوئی لوگوں میں تنازعہ تھا، سبزوئی کمیونٹی کے لوگوں نے انھیں تحفظ فراہم کرنے کا کہا لیکن انھوں نے انکار کیا۔ مخالفین نے انھیں اکیلا دیکھ کر ان پر حملہ کیا۔‘

صحافی ممتاز بخاری کے مطابق ساوند قبیلے کا اس سے پہلے سبزوئی قبیلے سے تنازعہ تھا جو 2007 سے 2017 تک جاری رہا۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس تنازعے کی وجہ سے جو پڑھے لکھے خاندان تھے وہ سکھر منتقل ہو گئے، جن میں ڈاکٹر اجمل ساوند کا خاندان بھی شامل تھا۔‘

ساوند قبیلے کے مسلح لوگ ڈاکٹر اجمل کی لاش لے کر ہسپتال پہنچے جہاں ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔

ڈاکٹر اجمل کی ہلاکت کے بعد ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہوئی، جس میں ڈاکٹر اجمل کی ہلاکت کے بعد موٹر سائیکل سوار خوشی میں ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں۔

پولیس کی کچے میں ملزمان کے خلاف کارروائی کی بھی ویڈیو منظر عام پر آئی ہیں، جس میں نظر آتا ہے کہ بکتر بند گاڑی مکانات مسمار کر رہی ہے۔

اس بارے میں ایس ایس پی عرفان سموں کا کہنا ہے کہ ملزمان کے کچے گھر، ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے گرائے جاتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’ان میں وہ گھر شامل ہوتے ہیں جن کو مورچے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پولیس کے اس روایتی حربے سے ملزمان دباؤ میں آکر سرنڈر کرتے ہیں۔‘

ایس ایس پی عرفان سموں کے مطابق واقعے کے بعد مشتبہ ملزمان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے لیکن وہ فرار ہو چکے ہیں، پولیس جیو فینسنگ بھی کر رہی ہے تاکہ ملزمان تک پہنچا جا سکے۔

ڈاکٹر اجمل ساوند کون تھے؟

کندھ کوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کی بنیادی تعلیم کیڈٹ کالج لاڑکانہ میں ہوئی۔ ادب سے لگاؤ کی وجہ سے وہ وہاں ادبی رسالے اور سووینئر میگزین کے سب ایڈیٹر رہے۔

مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو سے سافٹ ویئر انجینئرنگ میں بیچلر آف انجینئرنگ کے بعد وہ سکالرشپ پر فرانس چلے گئے۔

2011 میں یونیورسٹی جین مونیٹ سینٹ ایٹین، فرانس سے کمپیوٹر سائنس (ویب انٹیلیجنس) میں ماسٹرز کیا، اس کے بعد پیرس کی ڈیکارٹس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ان کی پیشہ ورانہ تحقیقی دلچسپیوں میں وائرلیس میڈیکل سینسر نیٹ ورکس، وائرلیس باڈی ایریا نیٹ ورکس، وائرلیس سینسر نیٹ ورکس میں سیکورٹی اور وسائل کا انتظام تھا۔

وہ یونیورسٹی آف ڈیکارٹس، پیرس میں ریاضی اور کمپیوٹر سائنس کی فیکلٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ پیرس کی سرکاری لیبارٹری میں وائرلیس ہیلتھ کیئر سسٹمز اور ایپلی کیشنز پر تحقیق سے بھی وابستہ رہے اور ایک روز یہ سب کچھ چھوڑ کر وطن لوٹ آئے۔

سکھر میں انھوں نے آئی بی اے میں ملازمت اختیار کی، جہاں وہ کمپیوٹر سائنس فیکلٹی سے وابستہ رہے۔

اجمل ساوند کے ایک دوست سکندر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ فرانس میں تھے تو انھیں دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ وہاں فیملی سمیت مستقل طور پر رہائش پذیر ہو جائیں۔

’لیکن ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے جو علم سیکھا، اس کی روشنی اپنے علاقے اور اپنے لوگوں میں پھیلانا چاہتے ہیں۔‘

سکندر بلوچ کے مطابق آئی بی اے سکھر کا کندھ کوٹ میں کیمپس قائم ہونے کی منظوری ہو چکی ہے اور اجمل کا خواب پورا ہونے کے قریب تھا۔

کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی کی پروفیسرشہنیلا زرداری مہران یونیورسٹی میں اجمل ساوند کی ہم جماعت رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ایک دوست کھو دیا۔

’وہ انتہائی شفیق و مددگار انسان تھے۔ وہ طالب علموں کی رہنمائی اور بعض اوقات ان کی مالی مدد بھی کرتے تھے۔‘

شہنیلا زرداری کے مطابق جب وہ پی ایچ ڈی کے بعد وطن واپس آئیں تو یہاں ریسرچ کا اتنا ماحول نہیں تھا تو انھوں نے اجمل سے رابطہ کیا جس کے بعد ان کے کچھ مشترکہ تحقیقی پیپر شائع ہوئے۔

شہنیلا زرداری کے مطابق اجمل ساوند اپنے والدین کی وجہ سے وطن لوٹ آئے تھے۔

ایس ایس پی بدین شاہ نواز چاچڑ ان کے کالج سے دوست رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سنہ 2019 میں اپنی والدہ کے انتقال کے بعد اجمل نے درویشی اختیار کر لی تھی اور وہ کسی تقریب، ڈنر میں شرکت نہیں کرتے تھے۔

شاہ نواز کے مطابق اجمل اپنی والدہ سے بہت پیار کرتے تھے اور کئی کئی گھنٹے وہاں قبر پر بیٹھے رہتے تھے۔

’وہ لبرل خیالات کے مالک تھے اور بعد میں صوفی ازم کی طرف آ گئے اور نمازی بھی بن گئے۔ انھوں نے سی ایس ایس کی بھی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ بعد میں وہ فرانس سکالرشپ پر چلے گئے۔ وہ والدین کی وجہ سے واپس آئے۔ اس کے علاوہ ان کو اپنے ہم وطنوں سے بھی بہت محبت تھی۔‘

’ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال لوگوں کے قابل نہیں‘

ڈاکٹر اجمل ساوند نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی شناخت میں صوفی لکھ رکھا تھا۔ اپنی ایک ٹویٹ میں وہ لکھتے ہیں کہ ’فرعون، نمرود اور ابوجہل شخصیات نہیں بلکہ کردار تھے، آج بھی یہ کردار کسی نہ کسی شکل میں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ بس ان کو پہچان لیجیے۔‘

ٹوئٹر پر جسٹس فار اجمل ساوند کے عنوان سے ٹرینڈ بھی چلایا گیا، جس میں ملزمان کی گرفتاری کے علاوہ قبائلی سرداری نظام پر بھی تنقید کی گئی۔

سورٹھ سندھو لکھتی ہیں کہ ’ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو نشانہ بنانے کے لیے قبائلی تنازعات کو منظم طریقے سے بھڑکا دیا جاتا ہے۔ یہ قوم کا قتل ہے اور ہم اس قوم کے لیے انصاف چاہتے ہیں جس نے ایک سرپرست کھو دیا۔‘

اقصیٰ کینجھر لکھتی ہیں کہ ’ہم واقعی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال لوگوں کے قابل نہیں۔ قبائلی قتل و غارت نے سندھ میں کسی بھی جنگ سے زیادہ خاندانوں کو تباہ کیا۔‘

پارس ابڑو لکھتی ہیں کہ ’وہ صوفی روح اور مہربان طبیعت کے ساتھ انتہائی ذہین انسان بھی تھے۔ وہ ایک قبائلی تنازعہ میں مارے گئے جس کا وہ حصہ نہیں تھے، یہ بحیثیت قوم ہمارے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔‘

ماروی لطیفی لکھتی ہیں کہ دن کی روشنی میں پروفیسر کو بے دردی سے قتل کرنا آسان لیکن سندھ میں جڑے قبائلی نظام کو ختم کرنا مشکل ہے۔

خالد حسین کوری لکھتے ہیں کہ اجمل ساوند کا قتل قبائلی تنازعے نے نہیں بلکہ حکومت اور اداروں نے کیا، جو سندھ میں برسوں گزرنے کے باوجود بھی جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ نہیں کر سکے۔

فرزانہ علی لکھتی ہیں کہ ’ایک تعلیم یافتہ انسان، ایک شعور کا قتل دیکھ کر دل شدید دکھ و درد کے گھیرے میں ہے۔ اگر بے گناہوں کے قاتلوں کو سزائیں ہوتیں تو ایک اور انسان قتل نہ ہوتا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments