محنت کی کمائی، جان دے کر بھی گنوائی


مرید عباس کھر کا تعلق میانوالی کے ایک انتہائی غریب اور پسماندہ خاندان سے تھا، اس کے والد ایک کسان تھے اور صرف اس کے والد ہی کیا مرید عباس کا سارا خاندان ہی کسان تھا اور کئی دہائیوں سے زراعت کے پیشہ سے منسلک چلا آ رہا تھا۔ مرید عباس اپنے والدین کا چھوٹا بیٹا ہونے کی وجہ سے سب کا انتہائی لاڈلا تھا۔ ویسے تو مرید کے گھر والوں کو اس کی ہر عادت دل لبھانے والی ہی لگتی تھی، سوائے ایک عادت کے کہ یہ خاندان کے دوسرے بچوں کی طرح اپنے آبائی پیشہ کھیتی باڑی میں بالکل بھی دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ کیونکہ بچپن ہی سے مرید عباس کو پڑھنے لکھنے کا شوق کسی آسیب کی طرح چمٹ گیا تھا، حالانکہ اس کے خاندان میں یہ شوق پالنا سخت ممنوع تھا مگر اس کے باوجود مرید عباس کی ضد اور شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے والد نے اسے گاؤں کے واحد پرائمری اسکول میں پڑھنے کی اجازت یہ سوچ کر دے دی تھی کہ ان کے بچہ کو پڑھنے کا ایک بے موسمی سا بخار لاحق ہو گیا ہے اور چند دنوں بعد استاد کی سختی دیکھ کر خود ہی اتر جائے گا۔

مگر شاید خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا، وقت گزرتا گیا اور مرید گاؤں کے چھوٹے سے اسکول میں پوری دل جمعی کے ساتھ ایک کے بعد دوسری کلاس پاس کرتا گیا، آخر وہ لمحہ بھی آ گیا، جب اس نے اپنے گاؤں کے اسکول کی آخری کلاس یعنی پانچویں جماعت بھی پاس کرلی۔ اپنے خاندان میں یہ کارنامہ انجام دینے والا اب تک کا مرید واحد بچہ تھا۔

ہو سکتا تھا کہ مرید عباس کا سلسلہ تعلیم پانچویں جماعت پاس کرنے کے کارنامہ پر ہی رک جاتا اگر اس کے چچا اچانک ہی گاؤں سے کراچی ہجرت کرنے کی نہ ٹھان لیتے اور اپنے ساتھ ہی اپنے بھتیجے مرید عباس کو بھی کراچی نہ لے آتے۔ کراچی آ کر چچا بھتیجا نے ایک پوش علاقے میں واقع بنگلے میں ملازمت کرنا شروع کردی۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ مرید عباس کا سامنا بنگلہ کے مالک کے ساتھ ہو گیا، بنگلہ کے مالک کو مرید عباس اور اس کی عادت و اطوار اتنی بھائی کہ انہوں نے اس کے چچا کو صاف صاف کہہ دیا کہ ”یہ بچہ ہمیں بہت ذہین لگتا ہے، لہذا ہم اس کو تعلیم دلائیں گے“ ۔

اس بات پر بھلا مرید عباس کے چچا یا اس کے دیگر گھر والوں کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ یوں قسمت کی دیوی نے مرید عباس پر یاوری کی اور اس نے میٹرک کرنے کے بعد کراچی کی نامور ترین درسگاہ ڈی ایچ اے کالج سے اپنی گریجویشن مکمل کرلی۔ گریجویشن کے بعد مرید عباس نے 2007 میں نجی چینل بزنس پلس سے اپنے کریئر کا آغاز کیا، جس کے بعد اس نے سما ٹی وی کی نیوز ٹیم میں شمولیت اختیار کی پھر وہاں سے اب تک نیوز چینل اور پھر 2017 میں بول ٹی وی کا نیوز اینکر بن گیا۔

غریب کسان کے بیٹے سے نیوز اینکر بننے کا تمام سفر نشیب و فراز سے بھرپور تھا۔ غربت کی گود میں شعور کی آنکھ کھولنے والے مرید عباس نے اس سفر میں اپنی شبانہ روز ان تھک محنت سے عزت، شہرت اور دولت خوب کمائی۔ مگر پھر مرید عباس نے اپنی زندگی کا وہ فیصلہ کیا جو عموماً برصغیر پاک و ہند میں رہنے والے نوے فیصد افراد اپنے کیرئیر کے اہم ترین موڑ پر کبھی نہ کبھی ضرور کرتے ہیں یعنی اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت سے خود کوئی کاروبار کرنے کے بجائے اسے اس خیال سے کسی دوسرے شخص کے حوالے کر دینا کہ وہ انہیں کما کر دے گا۔ پس یہ ہی ایک غلطی مرید عباس سے بھی سر زد ہو گئی اور اس نے کم و بیش سات کروڑ روپے کی خطیر رقم اپنے ایک جاننے والے کاروباری عاطف زمان کے حوالے کردی، جو کہ ٹائروں کے کاروبار سے منسلک تھا۔

پہلے پہل تو مرید عباس کو اپنی لگائی گئی رقم کے عوض ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ ٹھیک ٹھاک نفع ملتا رہا، پھر ویسا ہی ہوا جیسا کہ اکثر اس طرح کی تجارتی شراکت داریوں میں ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نفع کم بھی ہوتا گیا اور منافع کی ادائیگی میں ناغے بھی آتے گئے۔ ابتداء میں تو مرید عباس نے اسے کاروباری اونچ، نیچ کا حصہ جانا مگر پھر نفع کی ادائیگی میں آنے والے ایک طویل وقفے نے مرید کو مجبور کیا کہ وہ اپنی لگائی گئی خطیر رقم پر منافع کی ادائیگی کے لیے اپنے کاروباری شراکت دار عاطف زمان سے زبانی کلامی ہی سہی لیکن ذرا سختی سے کام لے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ملزم عاطف زمان کوئی کامیاب صنعت کار یا بزنس مین نہیں تھا، بلکہ وہ ایک چرب زبان اور اپنی باتوں سے دوسروں کو شیشہ میں اتار لینے والا ایک انتہائی چالاک شخص تھا۔ جس کے کاروبار میں مرید عباس کے علاوہ اور بھی بے شمار لوگوں کی محنت کی کمائی لگی ہوئی تھی، جبکہ عاطف زمان مارکیٹ میں بھی ایک بڑی رقم کا مقروض تھا۔ جس کی مالیت 15 کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ اب آپ اسے کاروباری نقصان کہہ لیں یا عاطف زمان کی نیت کی خرابی بہرحال حقیقت یہ ہی تھی کہ عارف زمان کے لیے اب اپنے شراکت داروں کو منافع کما کر دینا ممکن نہ رہا تھا۔

چونکہ سب سے زیادہ رقم مرید عباس کی لگی ہوئی تھی اور مرید عباس کا تعلق میڈیا سے تھا، اس لیے شاید عاطف زمان مرید عباس کی تلخ کلامی سے خوف زدہ ہو گیا اور وہ کچھ کر بیٹھا جس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ یعنی 9 جولائی 2019 کے ایک بدنصیب دن عاطف زمان نے مرید عباس کو اپنے دفتر بلا کر دھوکہ سے قتل کر کے خود کو بھی گولی مار کر خود کشی کرنے کی کوشش کی۔ مگر افسوس! مرید عباس جائے واردات پر جاں بحق ہو گیا لیکن عاطف زمان کو زخمی حالت میں پولیس نے گرفتار کر لیا۔

ملزم عاطف زمان، مرید عباس اور اس کے ایک دوست خضر حیات کو قتل کرنے کا اقرار جرم کرچکا ہے اور اپنے اس اندوہناک فعل پر سخت شرمندہ بھی اور جیل میں قید و بند کی مشکلات بھی برداشت کر رہا ہے۔ لیکن یہ شرمندگی اور ندامت نہ تو مرید عباس کو دوبارہ سے زندہ کر سکتی ہے اور نہ ہی مرید عباس کے لواحقین کے غموں کا مداوا بن سکتی ہے۔ یقیناً کبھی نہ کبھی عاطف زمان کو عدالت سے اپنے کیے کی سخت سے سخت مل ہی جائے گی جس کا وہ مستحق ہے۔

مگر ذرا سوچئے! جو کچھ مرید عباس کے ساتھ ہوا اور اب جو کچھ عاطف زمان کے ساتھ ہونے جا رہا ہے، یہ سب تو ہمارے اردگرد ہر روز ہوتا رہتا ہے۔ بس فرق اتنا سا ہے کہ چونکہ مرید عباس میڈیا سے تعلق رکھنے والی ایک جانی پہچانی شخصیت تھی اس لیے اس کے ساتھ رونما ہونے والا یہ واقعہ ایک بڑی بریکنگ نیوز بن گیا۔ جب کہ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ نہ جانے ایسے کتنے ہی واقعات اخبارات کے اندورنی صفحات میں روزانہ دفنائے جاتے ہیں اور ہم ان پر ایک اچٹتی سے نگاہ ڈال کر کف افسوس ملتے ہوئے کسی چٹ پٹی خبر کی سرخیوں میں خود کو گم کرلیتے ہیں۔

مرید عباس کے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ ہمارے معاشرے کی ایک بھیانک سماجی بیماری کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور وہ بیماری یہ ہے کہ ہم لوگ برسوں کی محنت سے کمائی ہوئی دولت سے خود کوئی کاروبار یا کام شروع کرنے کے بجائے اسے دوسرے کے چلتے ہوئے کاروبار میں لگا کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے آلسیوں کی طرح چشم زدن میں اربوں پتی بننے کے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ شاید ہم لوگ کاروبار کی ناکامی کے داغ سے اپنے دامن کو آلودہ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں اور اس چکر میں دوسرے کے ایمان اور اپنے قیمتی سرمایہ کو بیک وقت خطرہ میں ڈال دیتے ہیں۔ جس کا آخری نتیجہ سراسر نقصان کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ جس نے برسوں محنت سے ایک ایک پائی کر کے روپیہ پیسہ جمع کیا ہو۔ اگر وہ شخص خود کسی کاروبار کا آغاز کرے گا، تو کیا وہ اپنی رقم اتنی آسانی سے ڈوبنے دے گا؟ جتنی آسانی سے کوئی دوسرا اس رقم کو اپنے اللے تللوں میں ضائع کر سکتا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ بالکل بھی نہیں۔ کیونکہ اپنی محنت کی کمائی سے کاروبار کا آغاز کرنے والا شخص اپنے کاروبار اور سرمایہ کو بچانے کے لیے آخری حد تک جائے گا اور یہ ہی جذبہ اس کے کاروبار کو کبھی بند نہیں ہونے دے گا۔

اہل مغرب یہ ہی تو کرتے ہیں کہ پہلے وہ محنت کر کے کچھ پیسے پس انداز کرتے ہیں اور پھر جمع کی ہوئی رقم سے ایک نئے کاروبار کا آغاز کر کے اتنی محنت کرتے ہیں کہ چند ہی سالوں میں ان کا کاروبار دنیا کے صف اول کے کاروبار میں شامل ہوجاتا ہے ۔ اگر وہ لوگ بھی ہماری طرح ہی ”کاروباری شارٹ کٹ“ اختیار کرنے کا سوچتے تو نہ بل گیٹس مائیکروسافٹ جیسی بڑی ٹیک کمپنی کی بنیاد رکھ پاتا، نہ مارک ذکر برگ پوری دنیا کو سوشل میڈیا کی سب سے بڑی کمپنی فیس بک سے متعارف کروا پاتا، نہ اسٹیو جابز ٹچ اسکرین جیسی ٹیکنالوجی ایجاد کر کے ایپل جیسی نفع بخش ادارے کی نیو رکھ پاتا اور نہ ہی جیف بزوس کتابوں کی ایک چھوٹی سی آن لائن دکان کو ایمزون جیسی دنیا کی سب سے زیادہ اثاثے رکھنے والی کمپنی میں بدل پاتا۔ اگر یہ سب بھی ہماری طرح اپنی محنت کی کمائی دوسروں کے ہاتھوں میں سونپ دینے کی بے وقوفی کر بیٹھتے تو شاید آج دنیا ان میں سے کسی ایک کے بھی نام کو نہ جانتی۔

مرید عباس کی موت میں ہمارے سماج کے لیے ایک سبق پنہاں ہے کہ خدارا اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت کسی دوسرے کے ہاتھوں میں دینے کے بجائے برائے مہربانی اپنی دولت سے اپنے کاروبار کا خود آغاز کرنے کی کوشش کریں۔ یاد رکھیئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو مال و دولت اپنے کاروبار میں لگانے کے لیے دیتا ہے اگر رب کی منشا یہی رقم کسی دوسرے کو دینا مقصود ہوتی تو وہ رب اسے یہ رقم براہ راست بھی دے سکتا تھا، رب کو اس کے لیے آپ کو وسیلہ اور واسطہ بنانے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ یعنی ہمیں ہر حال میں قدرت کی اسکیم کو سمجھنا ہو گا، جب ہی ہم اپنے آپ کو مرید عباس اور عاطف زمان بننے سے بچا سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments