عطا و بخشش (رمضان کی طاق راتیں )


”‏رحمتو! آؤ کلیجے سے لگا لو مجھ کو
جانے پھر کب کوئی مجھ سا گنہگار ملے ”

نیک اعمال کا اجر انسان کے خلوص، اخلاص اور تقوی کی وجہ سے دس گنا سے سات سو گنا بلکہ اس سے بھی بڑھا دیا جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے پروردگار نے ہر صورت اپنے بندوں کو نیکیاں دینی ہی دینی ہیں کبھی دس پرسنٹ تو کبھی بیس سپرنٹنڈنٹ اور کبھی تو بالکل مفت بانٹ کر ایسے لگتا ہے جیسے وہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا پروردگار چاہتا ہے کہ اس کے بندے ہر صورت بخشیں جائے۔ دل میں پانچ نماز ادا کر کے سال میں ایک مہینہ رمضان کا بنا کر اور اس مہینے کے آخری دس دنوں میں طاق راتیں عطا کر تا کہ میرے پیروکار بندے صرف جنت کے مزے لوٹیں۔ کیا شان ہے میرے پروردگار کے۔

ارشاد باری تعالی ہے :
من جاء بالحسنة فلہ عشر‌ امثالھا ۖ ومن جاء بالسیئة فلا یجزىٰ الا مثلھا وھم لا یظلمون۔

اور جو کوئی (خدا کے حضور) نیکی لے کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی اور جو برائی لائے گا اسے سزا ویسے ہی ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

رمضان المبارک کے مہینے کو تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی عبادت کی جائے کم ہے کیونکہ اس کو لوٹ کا مہینہ بھی کہتے ہیں اس لئے ہر مسلمان کی کوشش ہونی چاہیے کہ جتنی نیکی کما سکتا ضرور کمائے۔ اس میں ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر کر دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ آخری دس دنوں میں جو کوشش فرماتے وہ باقی دنوں میں نہ فرماتے تھے۔ رمضان المبارک میں چونکہ آخری دس دنوں میں اجر و ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اس لیے جتنی بھی عبادات انسان کر سکتا ہو ضرور کرے۔

رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے ’جو بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل رات ہے۔ اسی رات کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں‘ دو نکتے جس شخص کی یہ ایک رات عبادت میں گزری ’اس نے تراسی برس چار ماہ کا زمانہ عبادت میں گزار دیا اور تراسی برس کا زمانہ کم از کم ہے کیونکہ ”خیر من الف شہر“ کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زائد اجر عطا فرمانا چاہیے گا‘ عطا فرما دے گا۔ اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔

اس رات میں اللہ تعالی نے اپنی قابل قدر کتاب ’قابل قدر امت کے لئے صاحب قدر رسول کی معرفت نازل فرمائی‘ یہی وجہ ہے کہ اس سورہ میں لفظ قدر تین دفعہ آیا ہے۔

قدر کا معنی تنگی کا بھی آتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے اسے قدر والی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔

ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے مختلف شخصیات حضرت ایوب علیہ السلام ’حضرت زکریا علیہ السلام‘ حضرت حزقیل علیہ السلام ’حضرت یوشع علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حضرات نے اسی اسی سال اللہ تعالی کی عبادت کی ہے اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان برگزیدہ ہستیوں پر رشک آیا۔

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:

سابقہ امتوں کا عابد وہ شخص ہوتا جو ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالی کی عبادت کرتا تھا ’لیکن اس کے مقابلے میں اللہ تعالی نے اس امت کے افراد کو یہ شب قدر عطا کر دی‘ جس کی عبادت اس ہزار ماہ سے بہتر قرار دی گئی۔

گویا یہ عظیم نعمت بھی سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غلامی کے صدقہ میں امت کو نصیب ہوئی ہے۔

کتنے خوش قسمت ہیں ہم کہ وہ پاک ذات بے مثل وسیلہ بنا کر اپنے بندے کو ہر صورت بخشنا چاہتی ہے بے شک میرا پروردگار نہایت رحمان اور رحیم ہے۔

اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنا
”یعنی اے اللہ! تو معاف فرمانے والا ہے۔ معاف کرنا تجھے پسند ہے تو مجھے معاف فرما دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments