دستور کی نصف سنچری اور باقی سچ


قومی دساتیر زندہ دستاویز کہلاتے ہیں۔ مراد یہ کہ ان کی عملی افادیت اور اصولی بنیاد ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ آئین اپنے ڈیزائین میں جتنا بھی غیر لچکدار ہو اس میں ترمیم یا تشریح کا امکان رکھا جاتا ہے لیکن یہ گنجائش آئین میں جمہوری اقدار کا تیا پانچا کرنے کے لئے نہیں ہوتی۔ بنیادی انسانی حقوق کی توسیع کے لئے ہو سکتی ہے، خلاف مقصد نہیں۔

اپریل 2023 میں پاکستان کے دستور مجریہ 1973 کی پچاسویں سالگرہ کی تقریبات جاری ہیں۔ سرکاری بیانیہ میں اس موقعہ کو گولڈن جوبلی کہنے سے گریز کیا گیا ہے۔ شاید اس لئے کہ جس وقت یہ سالگرہ منائی جا رہی ہے آئین پاکستان تنازعات اور متضاد تشریحات کی زد میں ہے۔ مقتدر حلقے اس کی من چاہی تشریح کر کے طاقت کے توازن کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں گویا قومی دستور نہ ہو ماضی کی کوئی داستان ہو جس میں ہر داستان گو رنگ بھر نے کی غرض سے چاہے تو منظر تبدیل کر سکتا ہے۔

قوم وہ ادوار بھی دیکھ چکی جب دستور معطل ہوتے، من چاہی ترامیم ہوتیں اور ایمرجنسی لگتی رہی۔ قوم نے طالع آزماؤں کا مقابلہ بھی کیا اس لئے یہ خوشی تو ضرور منانی چاہیے۔ یہ دستور کم ازکم ہمیں قوموں کی برادری میں مکمل نہ سہی کسی حد تک ایک جمہوری پہچان عطا کرتا ہے۔ پارلیمان نے تقریبات کا سوچا تو کچھ اقلیتی نمائندگان کو بھی شامل کیا گیا ہے جو کہ لائق تحسین ہے۔

اس موقع پہ اس سوال پر غور کرنا ضروری ہے کہ آئین کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ اور کمزوری کیا ہے؟ پہلی بات۔ اگر کسی آئین میں دنیا بھر کے بہترین اصول بھی جمع کر لئے جائیں مگر عمل نہ کیا جائے تو بے کار ہے۔ مگر کج اصولی یا اصول شکنی آئین کا حصہ بن جائے تو ناکامی پھر بھی یقینی ہوگی۔ کیونکہ اگر آئین میں اپنے اصول کی نفی ہو تو قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوگی۔ بلکہ انسانی تمدن کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ شہریوں کے درمیان قا نونی نا برابری لا قانونیت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ کیونکہ عوام الناس کو یہ پیغام جاتا ہے کہ قانون ہے بھی اور نہیں بھی۔ گویا راقم کے نزدیک شہریوں کے درمیان اونچ نیچ کا سلوک اور امتیاز کسی آئین کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور ناکامی کی وجہ بھی۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ بین الاقوامی قوانین میں امتیاز یا قانونی نا برابری کا کیا مفہوم ہے؟

نسلی امتیاز کے خاتمے کے بین الاقوامی کنونشن کے پہلے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ہر وہ پابندی، ترجیح، اخراج یا حیثیت جس کا مقصد یا اثر لوگوں کے یکساں اور مساوی قبولیت اور یکساں حیثیت اور بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں کے غصب ہونے کا سبب بنے، چاہے وہ حقوق معاشی سماجی، سیاسی، ثقافتی یا عوامی زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں، دوسرے لفظوں میں ہر وہ قاعدہ اور قا نون جو انسانوں میں رنگ و نسل مذہب و ملت قومیت یا سکونت یا صنف کی بنیاد پر کوئی بھی اونچ نیچ روا رکھے وہ تعصب اور امتیاز کہلاتا ہے۔

بعد ازاں عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کے کنونشن میں اسی تعریف کو صنفی امتیاز کی تعریف بیان کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ گویا فی الوقت اس تعریف کو ایک بین الاقوامی پذیرائی اور قبولیت حاصل ہے۔

پاکستان متذکرہ بالا دونوں قوانین پر دستخط کر چکا ہے اور اس کی توثیق بھی۔ نسلی امتیاز کے خاتمے کا کنونشن دستور پاکستان سے آٹھ سال ( 1965 ) پہلے منظور کیا گیا اور عورتوں کے خلاف امتیازات کے خاتمے کا کنونشن دستور کے چھ سال بعد ( 1979 ) میں پاس ہوا۔ تو آئین کی تدوین کرنے والے اور پاس کرنے والے لوگ امتیاز کی قانونی تشریح اور تعریف سے واقف تھے اور اس لئے بھی کہ عدم امتیاز انسانی حقوق کے فریم ورک کی بنیادی قدر اور شرط ہے۔ جو بین الاقوامی قانون میں انسانی حقوق کے آفاقی منشور میں 1948 سے طے ہو چکی ہے۔

آئیے ہم دستور پاکستان کی کچھ دفعات کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھیں کہ کیا وہ اس تعریف پر پورا اترتی ہیں۔

آرٹیکل 20 (الف) یہ کہتا ہے کہ ”قانون، امن عامہ اور اخلاق سے مشروط ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ ہر شخص کو عقیدہ رکھنے، اس ہر عمل کرنے یا اپنے عقیدے کی اشاعت کر نے کی آزادی ہوگی۔“

(ب) ”ہر مذہبی فرقہ اور جماعت کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، چلانے اور جاری رکھنے کا حق ہو گا“ ۔ یعنی آئین کی رو سے عقیدے کی آزادی پہ کوئی غیر موزوں، اضافی یا امتیازی قدغن نہیں ہے، جو شرائط عائد کی گئی ہیں وہ سب شہریوں کے لئے یکساں ہیں۔ ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ آرٹیکل قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر کے عہد کی آئینہ دار ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آپ اپنے مندروں، مسجدوں اور عبادت کی دیگر جگہوں پر جانے کے لئے آزاد ہیں، ریاست کے بندوبست کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

دستور پاکستان کے آرٹیکل 26 عوامی جگہوں پر آنے جانے اور آرٹیکل 27 سرکاری ملازمت کے حقوق کے استعمال میں نسل، مذہب، ذات اور صنف اور جائے رہائش اور جائے پیدائش کی بنیاد ہر امتیازات سے تحفظ بھی شامل کیا گیا ہے۔ اگرچہ ماہرین قانون کی یہ رائے بھی ہے کہ آرٹیکلز 26 اور 27 میں لفظ ”محض“ کا استعمال موزوں نہیں ہے، اس کی جگہ پر لفظ ”یا“ ہونا چاہیے تھا۔

آرٹیکل 25 ایک انتہائی اہم شق ہے جو یہ کہتی ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ بہتر یہ ہوتا کہ اس آرٹیکل کی عبارت میں امتیازات کی ان شکلوں کو بھی شمار کر لیا جاتا جو بالعموم سماج میں پائی جاتی ہیں جیسا کہ آرٹیکل 26 اور 27 میں کیا گیا ہے۔ یہاں برطانوی مصنف جارج اورویل کا وہ مشہور زمانہ قول یاد آتا ہے جس نے کہا کہ ”تمام برابر ہوتے ہیں مگر (کچھ خوش نصیب) زیادہ برابر ہوتے ہیں۔“

آرٹیکلز 8 سے 28 یعنی آئین کا دوسرا حصہ، بنیادی حقوق کا باب ہے اس میں اگر عدم امتیاز کے اصول کی واشگاف حمایت نہیں تو کھلے بندوں خلاف ورزی بھی نہیں کی گئی۔ مگر غور کیا جائے تو اس کے آپریشنل یا عملی حصہ میں جہاں ریاست کا نظام، اداروں کی تشکیل شروع ہوتی ہے تو دستور پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے درمیان متعدد جگہوں پر امتیازی سلوک پایا جاتا ہے۔ بلکہ امتیاز کی وہ شکلیں بھی پائی جاتی ہیں جن کا ذکر بین الاقوامی قانون میں نہیں پایا جاتا۔ کہیں یہ مذہب کی بنیاد پر پابندیاں ہیں، کہیں پر ایک شہری کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے، کہیں حقوق کی بات کرتے ہوئے آبادی کے ایک حصے کی نفی اور کہیں پہ فرض کر لیا گیا ہے کہ ملک میں صرف اکثریت عقیدہ کے لوگ آباد ہیں اور مذہبی اقلیت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ آئیے ان رجحانات کی مختلف اشکال کا جائزہ لیتے ہیں۔

آرٹیکل ( 2 ) 41 میں لکھا ہے کہ کوئی شخص صدر پاکستان بننے کا مجاز نہیں ہو گا اگر وہ مسلمان نہیں ہے یعنی اہلیت کے معیار میں ایک پابندی عائد کی گئی ہے، جس کے اندر مفروضہ یہ ہے کہ دیگر عقائد کے لوگ پاکستان میں بستے تو ہیں لیکن وہ اعلیٰ ترین عہدوں پر تعیناتی کے اہل نہیں۔ لہٰذا عملاً اقلیتی عقائد کا کوئی شخص اکثریتی عقیدہ اختیار کر لے تو اس کے صدر بننے میں یہ رکاوٹ ختم ہو جائے گی۔

آرٹیکل ( 3 ) 91 میں وزیراعظم کے انتخاب کو بھی اکثریتی مذہب سے مشروط کیا گیا ہے۔ صدر کے عہدے کے لئے جو امتیاز روا رکھا گیا ہے وہ تو موجود ہے، لیکن یہ زبان اٹھارہویں ترمیم کی عطا ہے اس لئے اس میں انداز قدرے مہذب ہے۔ لہٰذا یہ آرٹیکل وزیراعظم کے عہدے کے لئے انتخاب کی اہلیت کی بجائے طریقہ انتخاب کے ذریعے سے اقلیتی عقائد سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے انتخاب کو خارج از امکان بنا تا ہے۔ دستور کی زبان یہ کہتی ہے کہ قومی اسمبلی کے ارکان اپنے میں سے کسی مسلمان رکن کو وزیراعظم منتخب کریں گے۔

اسی طرح آرٹیکل 203 ای میں یہ بتایا گیا ہے کہ فیڈرل شریعت کورٹ میں وکیل کون ہو گا۔ تو شرط میں یہ لکھا ہے کہ جو مسلمان ہو اور وکیل کے طور پر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اندراج کروا چکا ہو۔ دستور کی تدوین کرنے والوں نے اس بات پہ غور نہیں اگر کوئی غیر مسلم فیڈرل شریعت کورٹ میں سائل ہو سکتا ہے اور اگر اس کورٹ کے جاری کردہ احکامات صرف ایک عقیدہ کے لوگوں تک محدود نہیں ہیں اور پاکستان میں قانون کی تعلیم بھی ہر وکیل کی یکساں ہوتی ہے تو پھر دونوں لحاظ سے یہ شرط غیر منتقی بھی ہے اور نا انصافی بھی۔ شہریوں کو امتیازات کی اس شکل میں اکثریتی عقیدہ کو اقلیت پر بلا وجہ ترجیح دی گئی ہے جو ان کی معاشرتی، سیاسی حیثیت کو کم کرتی اور حقوق میں نا برابری کے تاثر کو گہرا کرتی ہے۔

آرٹیکل 36 جو کہ صرف اقلیتوں کے حقوق کے لئے مخصوص کیا گیا ہے، اس میں بھی ایک اصولی، منطقی اور قانونی خرابی پائی جاتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کے ”جائز“ حقوق اور مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حقوق بھی نا جائز ہو سکتے ہیں؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ آئین میں آرٹیکل 8 سے 28 تک جو بنیادی حقوق کا باب ہے کسی بھی حق کا ذکر کرتے ہوئے اس لاحقے کو استعمال نہیں کیا گیا۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر اقلیتوں کے حقوق کا زکریا تحفظ کرنا ہی تھا تو دستور کی زبان میں اتنی لرزش کیوں آئی؟

آرٹیکل 1 اور 2 جس میں پاکستان کے نام سے پہلے اسلامی جمہوریہ اور سرکاری مذہب اسلام کا تعین کیا گیا اور یہ لمبی اور پرانی بحث ہے کہ ان دو شقوں کے ہوتے ہوئے جو لوگ اکثریتی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے ان کی حیثیت کیا ہے؟ اشارتاً یہ بتانا کافی ہو گا کہ بنگلہ دیش کے آئین میں اس مسئلے کا حل کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کا دستور بھی سرکاری مذہب اسلام قرار دیتا ہے گو کہ بنگلہ دیش ایک اسلامی جمہوریہ نہیں ہے، سرکاری مذہب ہے لیکن دستور مذہبی اقلیتوں کے وجود کو تسلیم کرتا ہے اور اسی جملے اور آرٹیکل میں اقلیتوں کے یکساں حقوق کے تحفظ کا اعادہ کر دیتا ہے۔ اگر سرکاری مذہب رکھنا کوئی مجبوری ہوگی تو شہریوں کی مساوات اور قانون کے سامنے برابری کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات ہوسکتے ہیں۔

دستور میں امتیازات کی ایک شکل اس حلف کی عبارت میں پائی جاتی ہے جو ارکان اسمبلی، صوبائی اسمبلی، وزرا، سینیٹر، سپیکر، چیئرپرسن سب کو لینا ہوتا ہے کہ وہ اسلامی نظریہ کے تحفظ کے لیے کام کریں گے جو کہ (تخلیق) پاکستان کی بنیاد ہے۔

دستور پاکستان کے اندر ایک مفروضہ پایا جاتا ہے کہ عقیدہ جس کا جو مرضی ہو اسے اسلامی نظریہ سے واقفیت بھی ہے اور اس کے تحفظ کے لیے کام بھی کر سکتا ہے۔ 1972 میں مولانا مفتی محمود اور 2002 میں مخدوم امین فہیم نے قومی اسمبلی کے فلور پر اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ یہ حلف مذہبی اقلیتوں کے نمائندوں کے لیے نامناسب ہے۔ حلف نامہ ایسا ہونا چاہیے جو ایک عقیدے کا ذکر کر کے خوامخواہ امتیازات کا سبب نہ بنتا ہو بلکہ اگر یہ اقدار اور اصولوں کی پابندی کی منطقی شرائط کو سامنے لاتا ہو تاکہ بعد میں اس پر عمل درآمد بھی ہو سکے۔ ان غیر منطقی عبارتوں کے سبب اب عملی طور پر ہر حلف بے معنی اور فرضی کارروائی ہو چکا۔

آگے آرٹیکل 31 میں ریاست کی یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ وہ اسلامی طرز زندگی کی ترویج کے ساتھ ساتھ اسلامیات اور قرآن پاک کی تعلیم کو لازمی قرار دے گی اور اس کے علاوہ قرآن پاک کی عربی زبان میں اور حتمی اور درست ترجمے کی پرنٹنگ اور اشاعت کو یقینی بنائے گی۔

آرٹیکل ( 1 ) 22 یہ کہتا ہے کہ کسی شخص کو تعلیمی اداروں میں کوئی ایسی مذہبی تعلیم لینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا یا تقریب کا حصہ نہیں بنایا جائے گا یا کسی عبادت میں شریک ہونے کو نہیں کہا جائے گا اگر وہ تقریب یا عبادت اس کے اپنے عقیدے سے تعلق نہیں رکھتی۔

مندرجہ بالا دونوں آرٹیکل اگر دیکھیں تو بات سمجھ میں آ جائے گی کہ آرٹیکل ( 1 ) 22 وہ حق ہے جس پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوا (غیر مسلم طلبا کو مجبوراً ہر مضمون میں اسلامیات پڑھنا پڑتی ہے ) ۔ اور آرٹیکل 31 کے اطلاق و نفاذ میں روز افزوں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آرٹیکل ( 1 ) 22 باوجود کہ وہ بنیادی حقوق کے باب میں ہے جس سے روگردانی نہیں کی جا سکتی اس پر تو عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ اسکول کی سطح پر اسلامیات، ناظرہ اور بعض صوبوں میں تعلیم القرآن کے علاوہ تقریباً تمام مضامین میں اسلامیات شامل ہوتی ہے اور غیر مسلم طلبا نہ صرف اس کو پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ اس کا امتحان بھی دیتے ہیں تو ظاہر یہ ہوتا ہے کہ حکومت آرٹیکل 31 کے نفاذ کے لئے ہر حد تک جانے کے لئے تیار ہے اور آرٹیکل ( 1 ) 22 کو نظر انداز کیا جاتا ہے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دستور اور اس کو نافذ کرنے والے خود دستور کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں۔ یہاں ایک حصہ کو تو اہمیت حاصل ہے جس کا تعلق صرف پالیسی سے ہے اور اس کا نفاذ ہمیشہ وسائل کی دستیابی پر ہوتا ہے جبکہ بنیادی حقوق کی فراہمی پر یا نفاذ پر یہ شرط لاگو نہیں ہوتی پھر بھی بنیادی حق اگر اقلیتی افراد کا ہے تو اسے نظر انداز کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

کیا دستور کی کچھ شقوں سے اونچی ذات اور باقی سے شودر کا سلوک کر کے دستور کی حکمرانی قائم ہو سکتی ہے؟

یہاں ایک مثال سے بات واضح ہو سکتی ہے حال ہی میں حفظ قرآن کے لیے 20 اضافی نمبروں کی رعایت کا ذکر سپریم کورٹ تک پہنچا تو جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں چھ جج صاحبان نے سائل کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ یہ پالیسی آئین کی کتنی شقوں سے متصادم ہے اور انصاف کا کون سا معیار پورا ہوتا ہے۔ مگر جب روزمرہ زندگی میں امتیازات اور ترجیحات رواج بن جائے تو اس پر ہونے والی زیادتی بھی معمول بن جاتی ہے۔

یہ درست بات ہے کہ قائد اعظم کے متذکرہ بالا عہد کے برعکس کاروبار ریاست میں مذہب کے عمل دخل کا آغاز قرار داد مقاصد پاس ہونے سے ہوا۔ 7 مارچ 1949 کو جب یہ قرارداد پاس ہوئی تو پاکستان میں دو طرح کی شہریت کی بنیاد پڑ گئی اور قوم کی تعریف میں عقیدے کی شناخت حاوی ہوتی گئی لہذا اب دو قسم کے شہری ہیں۔ اکثریت اور اقلیت اور دو ہی طرح کے حقوق ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ قرارداد مقاصد جمہوری اتفاق رائے نہیں بلکہ اکثریتی بالادستی یعنی مخالف رائے کو دبا کر پاس ہوئی تھی۔ آئین ساز اسمبلی میں موجود 10 اقلیتی ارکان میں سے کسی نے اس کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا اسی لئے اس کو اتفاق رائے کا درجہ حاصل نہیں۔

اگرچہ قرار داد مقاصد میں جہاں یہ لکھا ہے کہ اکثریتی مذہب کے لوگوں کو اپنی زندگیاں عقیدے کے مطابق استوار کرنے میں ریاست مدد کرے گی وہیں پر یہ بھی لکھا ہے کہ اقلیتوں کے لیے انتظامات کیے جائیں گے تاکہ وہ اپنے عقیدے پر عمل کرسکیں اور اپنے کلچر کی آزادانہ ترویج کر سکیں۔

ایک سنگین مذاق یہ ہوا کہ 1985 میں ضیا الحق نے جب قرار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بنایا تو اقلیتوں کے لیے مخصوص اس عبارت میں لفظ ”آزادانہ“ حذف کر دیا جسے 25 سال بعد اٹھارہویں ترمیم کے وقت واپس شامل کر دیا گیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ضیا الحق سمیت بہت سے افراد اپنے آپ کو مجاز سمجھتے ہیں کہ نہ صرف آئین کی من چاہی تشریح کر لیں بلکہ اس کے اندر اپنی مرضی سے رد و بدل بھی کرسکیں۔ تو 50 سال کے آئینے میں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ایمانداری سے صرف نظر ان حکمرانوں سے کیوں ہوا جو کہ ایمان کے داعی کہلاتے تھے۔

قرار داد مقاصد اس وقت موجود دس اقلیتی ارکان کے ووٹ کو نظر انداز کے پاس کی گئی اس وقت کے اکثریتی ارکان نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اختلافی رائے معنی نہیں رکھتی۔ یہ وجہ ہے کہ وہ آئین جو ہمارے لیے مقدم ہے اس اکثریتی بالادستی قائم کرنے کی پرورش کے نتیجہ میں انسانی حقوق اور جمہوریت دونوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر دستور شہریوں کی برابری کا اصول مان لیتا تو کیا خبر آئین کی پچاسویں سالگرہ اس سے زیادہ بامعنی ہوتی جتنی اس وقت لگتی ہے۔

آئین میں آرٹیکل 260 ( 3 ) اے اور بی بھی موجود ہے جسے دوسری ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا۔ یہ باب مختلف اصطلاحات کے معنی بیان کرتا ہے تو اس شق میں مسلمان اور غیر مسلم کی تعریف بیان کی گئی۔ غیر مسلم میں مسیحی، ہندو، سکھ، پارسی، احمدی، بدھ مت، بہائی اور شیڈول کاسٹ کی صراحت کی گئی۔ یہ بات تو واضح ہے کہ دوسری آئینی ترمیم کا مقصد ایک برادری کو اسلام سے خارج کرنا تھا لیکن عملاً بات یہاں تک نہیں رکی اس کے بعد ریاستی ڈھانچے اور اداروں میں اس بحث کو تقویت ملی کہ کافر کون ہے؟

لہذا اکثریتی عقیدے کے اندر مختلف فرقوں کے وجود کا احساس گہرا ہوتا گیا یہاں تک کہ مسلکی بنیاد پر قانون سازی اور انتظامی فیصلے بھی ہونے لگے۔ مذہبی اقلیتوں کے اندر مختلف گروہ پسندیدہ اور ناپسندیدہ ہو گئے۔ قانون اور پالیسی میں مذہب اور مسلک کے گہرا ہونے سے معاشرہ تقسیم در تقسیم کی طرف بڑھتا گیا اور مذہبی رجحانات میں شدت گہری ہوتی گئی۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دستور پاکستان میں ترجیحی سلوک اور دو طرح کی شہریت کا رواج ڈالنے سے ریاست اور معاشرت کو تو پتہ نہیں کون سے فائدے ملے مگر قانون اور ریاستی ڈھانچہ آج قریباً ناکارہ حالت میں پڑے ہیں اور ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ اگر ترجیح کی بجائے حقوق کی مساوات رکھی گئی ہوتی، پاکستان کے شہری بلا امتیاز مذہب و نسل یکساں حقوق کے حق دار قرار دیے گئے ہوتے تو یہاں پر قانون کی حکمرانی کی صورتحال بہتر ہوتی۔

متذکرہ شقوں اور غلط آداب حکمرانی کے باعث پاک وطن میں تعصب اور امتیاز کو مقدس گائے کا درجہ مل چکا ہے۔ سمجھدار لوگوں کو فکر و عمل کے میدان میں اترنا پڑے گا کیونکہ ترمیم صرف دستور نہیں۔ رواج اور انداز فکر میں بھی ضروری ہے۔ کسی نے کہا ہے :

خود فریبی کی کسی آخری حد سے پہلے۔ آ کہ دستور انا میں کوئی ترمیم کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments