میں اپنے اعضاء عطیہ کر چکا ھوں ، آپ بھی کیجئے


گزشتہ ماہ مجھے بطور تیماردار اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کڈنی سینٹر ملتان میں چند دنوں کے لئے رہنا پڑا۔ وہاں ایک طرف تو میں نے بہت سے مریضوں کو بیک وقت اپنی بیماری اور غربت سے لڑتے دیکھا وہیں ہسپتال انتظامیہ کا صحت کا جدید سائینٹیفک طریقہ کار اور نظام خدمت بھی انتہائی متاثر کن رہا۔

ان تین چار دنوں میں ہمارے وارڈ میں تین اموات ہوئیں جن میں سے دو کو بچایا جا سکتا تھا اگر انہیں بر وقت کسی طور کم از کم ایک گردے کا عطیہ مل جاتا۔

دیگر دو مریضوں کو ڈائیلسز کے مراحل کے بعد کی ٹیسٹ رپورٹس کے پیش نظر ڈاکٹرز نے ٹرانسپلانٹ تجویز کر کے ہسپتال سے چھٹی کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا۔ ڈائلیسیز ایک انتہائی تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے اور گردوں کے فیلئیر کے مریضوں کو ہفتے میں تین تین، چار چار بار اور بعض اوقات روزانہ اس اذیت ناک حد تک تکلیف دہ مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے جب تک کہ انہیں کہیں سے گردے کا عطیہ نہ مل جائے۔ ایسے مریضوں کو ہسپتال مسلسل اپنے پاس نہیں رکھ سکتے کہ اس قدر طویل عرصے کے لئے بیڈ اور ڈائیلسز مشینری ایک ہی مریض کو مختص کر دی جائے، مشکل امر ہے۔ ان مریضوں کا واحد حل گردے کے عطیے کا حصول ہوتا ہے جو اگر انہیں بر وقت نہیں ملتا تو مجبوراً اذیت ناک موت کا چناؤ حتمی بات ہے۔ یہ دونوں مریض 25 / 30 سال کے نوجوان تھے۔

ان میں سے ایک مریض کی مالی حالت اس کی اور اس کی بیوی کو دیکھ کر بخوبی عیاں تھی کہ کسمپرسی اور مفلوک الحالی گویا ان کے چہروں پر کندہ تھی۔ سخت جسمانی مشقت اور کم خوراکی کے سبب نوجوان کے دونوں گردے فیل ہو چکے تھے۔ بیوی بھی نحیف و نزار اور بیمار ہی تھی۔

میں نے ان دونوں مریضوں کو سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی ایڈ ٹرانسپلانٹ کراچی SIUT سے رابطہ کرنے کا کہا جو کہ ہمہ قسم مفت آرگن ٹرانسپلانٹ کا ادارہ ہے۔

شاید وہاں انہیں کسی ”بعد از برین ڈیتھ“ آرگن ڈونر کا دیا ہوا گردہ عطیے میں مل جائے۔ آمین

انسانی دماغ میں کم و بیش سو ارب نیورانز ہوتے ہیں اور ہر نیوران آگے مزید دس ہزار کے قریب نیورو ٹرانسمیٹرز سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ یہ ایک قریباً خودکار نظام کے تحت چلتے ہیں اور پورے جسم کو چلاتے ہیں، بس انہیں خون اور آکسیجن کی فراہمی میں تعطل نہیں آنا چاہیے۔

کسی بیماری، حادثے یا چوٹ کے نتیجے میں جب نیورانز مر جائیں یا بوجوہ انہیں خون اور آکسیجن کی فراہمی میں تعطل پیدا ہو جائے تب بھی یہ انتہائی تیزی سے مرنے لگتے ہیں۔ اگر اس عمل پر فوری قابو نہ پایا جا سکے اور ان نیورانز ( دماغی خلیوں ) کی اکثریت مر جائے تو اسے دماغی موت ( Brain death ) کہا جاتا ہے۔ یہاں دماغ کی ہمہ قسم سرگرمی ختم ہو جاتی ہے اور دماغ سے جسم کا رابطہ ہمیشہ کے لئے منقطع ہو جاتا ہے۔ انسان مصنوعی تنفس و دوران خون پر زندہ رکھا جاتا ہے جبکہ مریض کے ہوش میں آنے کے چانسز زیرو ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں ڈاکٹرز برین ڈیتھ کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں۔

نیورانز دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتے، شعور مر چکا ہوتا ہے مگر جسم ابھی وینٹیلیٹر پر نام نہاد طور پر زندہ ہوتا ہے۔

مریض کے جملہ معاملات دنیا سے کٹ چکے ہوتے ہیں گویا وہ مصنوعی تنفس پر بھی نیم مردہ ہی ہوتا ہے۔ اس کا شعور فنا ہو جاتا ہے۔ اب اس کا ہونا نہ ہونا ایک برابر اہمیت رکھتا ہے۔

عموماً ایسی حالت میں ورثاء بھی بہ امر مجبوری ڈاکٹرز سے مریض کو وینٹیلیٹر سے اتار دینے کا کہتے ہیں۔
ورثاء کے کہنے پر ہی مصنوعی تنفس بند کر دیا جاتا ہے۔ یہاں سے مریض کی اگلی منزل قبر ہے۔

بیالوجی کے ماہرین کہتے ہیں کہ سانس کی آمدورفت کا سلسلہ رکتے ہی ایک جاندار کے جسم میں موجود اربوں خلیے مرنا شروع ہو جاتے ہیں اور ہر مردہ خلیے پر ایک ”بیکٹیریا“ مسلط ہو جاتا ہے۔ انسانی جسم میں موجود اربوں بیکٹیریا جو ہماری زندگی میں ہماری زندگی کے لئے مفید تھے، ہمارے ہی جسم کو توڑ پھوڑ کر، گلا سڑا کر کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس عمل کو ”ڈی کمپوزیشن“ کہا جاتا ہے۔

یہ بیکٹیریا مردہ سیل کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں اور حشرات الارض کی قدرتی فوج چند ہی روز میں مردہ جسم کو نیست و نابود کر دیتی ہے بچی کھچی کائی زدہ ہڈیاں بھی وقت کے ساتھ ساتھ مٹی بن جاتی ہیں۔

یعنی مرنے کے چند گھنٹوں کے بعد آپ کا جسم متعفن ہو جاتا ہے اور اگر ماحول کچھ زیادہ گرم ہو تو مزید چند گھنٹوں بعد یہ تعفن اور بدبو اس قدر شدید ہو جاتی ہے کہ ناک پر رومال رکھنے سے بھی نہیں رکتی۔ اسی لیے مردے کو نہلا دھلا کر کافور لگا کر دفنانے میں جلدی کی جاتی ہے کہ بیکٹیریاز ڈی کمپوز کر کے آپ کے جسم کو کھاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائڈ اور تیز بدبودار میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے۔

دنیا میں ہزاروں لوگ روزانہ طبعی اور غیر طبعی، حادثاتی موت کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے کارآمد اعضاء سمیت اپنی مذہبی رسومات کے تحت دفنا یا جلا دیے جاتے ہیں۔

ان میں سے بیشتر لوگ اعضاء کے عطیے کی بابت معلومات اور ترغیب کے فقدان، معاشرتی روایات، مذہبی عقائد کی پابندیوں کی وجہ سے بھی اپنے اعضاء بعد از مرگ عطیہ نہیں کر پاتے۔

پاکستان میں اعضاء کا عطیہ نہ ملنے کی وجہ سے اموات کی سالانہ شرح 50 ہزار افراد سے متجاوز ہے جبکہ 15 ہزار افراد گردے فیل ہو جانے اور عطیہ نہ ملنے کے سبب موت کے منہ میں اتر جاتے ہیں۔

یوں سمجھئے ہر روز بیسیوں انسان اعضاء کا عطیہ نہ ملنے کے سبب مر جاتے ہیں۔

پاکستان میں بعد از مرگ  اعضاء کا عطیہ کرنے والوں کی رجسٹرڈ تعداد نوجوان آبادی کے تناسب کا 0.03 فیصد ہے اور ان میں سے بھی 50 فیصد سے زائد عطیہ کنندگان کے ورثاء عطیہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں یا عطیہ لینے والے ادارے ٹرانسپلانٹیشن سوسائٹی آف پاکستان یا دیگر متعلقہ ادارے کو اطلاع/ رابطہ نہیں کرتے۔

سری لنکا دنیا بھر میں آنکھوں کا ”کارنیا“ عطیہ کرنے والوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ مبینہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تیس پینتیس سالوں میں سری لنکا پاکستان کو تقریباً 35 ہزار سے زائد آنکھوں کا عطیہ دے چکا ہے۔

سپین بھی جملہ اعضاء عطیہ کرنے میں دنیا میں نمایاں ترین پوزیشن پر براجمان ہے۔ جبکہ سکاٹ لینڈ میں سرکاری سطح پر منظور ہونے والے قانون کے مطابق مخصوص حالات میں مرنے والے تمام افراد کے اعضاء عطیہ متصور ہونگے البتہ جو لوگ بعد از مرگ عطیہ نہ دینا چاہیں وہ آرگن ڈونیشن کی سرکاری ویب سائٹ پر جا کر عطیہ دینے سے انکار کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں 2016 میں اعضاء عطیہ کرنے کی بابت بل قومی اسمبلی میں پیش ہوا، 2018 میں مزید پیشرفت ہوئی۔

جبکہ تا حال اس بل کی بہت سی شقیں زیر غور ہیں جس میں سب سے اہم قومی شناختی کارڈ پر نادرا کی طرف سے آرگن ڈونر کے الفاظ لکھنا ہیں تاکہ حادثاتی موت کی صورت میں اس کے اعضاء کا عطیہ لینے کے معاملات میں آسانی ہو۔

ہمارے ملک میں اعضاء کا عطیہ کرنے کی بابت معلومات، ترغیب اور کلچر ہی موجود نہیں ہے۔ اس بابت پسماندگی، جہالت، کنفیوژن اور کج بحثی کی بہت سی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ فیملی کی طرف سے ہمدردانہ رکاوٹ اور نیم مذہبی بیانیہ بھی قابل ذکر ہیں۔ ابھی تک انتقال خون جیسے عام ضروری معاملے میں بھی بعض کم علم علماء کا موقف ہے کہ یہ حرام ہے، اسی طرح اعضاء کے عطیات کی بابت بھی اسی قسم کے فتاوی ’موجود ہیں اور بھرپور رکاوٹ کا باعث ہیں۔

آج سے پانچ سال قبل 2018 میں بندہ نے خود کو ٹرانسپلانٹیشن سوسائٹی آف پاکستان سے بطور ”بعد از دماغی موت عطیہ کنندہ“ organ donor رجسٹرڈ کروا لیا تھا مگر ابھی تک اس سلسلے میں اپنے اعزاء و اقارب کی ذہن سازی کرنی پڑتی ہے۔

ڈاکٹرز کے مطابق اگر ورثاء ہمیں کال کر کے ڈیڈ باڈی سے اعضاء کے حصول کا کہہ بھی دیں تو ان میں سے ایک آدھ بندے کے انکار کی صورت میں بھی مسئلہ بن جاتا ہے اور یہ مسئلہ تب گمبھیر صورت اختیار کر جاتا ہے اگر وہ ”منکر“ کوئی سنی سنائی یا خود ساختہ مذہبی دلیل یا حوالہ پیش کر دے۔ اس صورت میں ڈاکٹرز کے پاس  پیچھے ہٹنے کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہتا۔

دنیا بھر میں ہسپتال، میڈیکل سائنسز کے ادارے اور بعض ممالک کی حکومتیں بھی اعضاء کا عطیہ دینے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ 13 اگست دنیا میں اعضاء عطیہ کرنے کا قومی دن ہے۔ انڈیا سے میرے فیورٹ ہیرو امیتابھ بچن اور پاکستان سے جناب عبدالستار ایدھی آرگن ڈونر ہیں۔ ایدھی صاحب رحلت فرما چکے مگر ان کی آنکھیں اب بھی دنیا میں دیکھ رہی ہیں۔

زندہ لوگ بھی اعضاء عطیہ کر سکتے ہیں۔ بعض مخصوص ٹشوز، گردہ، بون میرو اور جگر کا کچھ حصہ دے کر زندگی بچا سکتے ہیں۔ لیکن بعد از مرگ عطیہ کرنے میں کون سا امر مانع ہے؟ قبر میں کیڑے مکوڑوں اور دیگر حشرات الارض کا رزق بننے سے کیا یہ بات بہتر نہیں ہے کہ آپ کم از کم آٹھ انسانوں کی کلی اور تقریباً 14 انسانوں کی جزوی زندگی بچانے کا سبب بن جائیں۔ یاد رہے آپ کے بعد از مرگ اعضاء کے عطیات سے میڈیکل سائنس آرگن فیلیئر کے 8 مریضوں کو بچا سکتی ہے اور دیگر 14 کی زندگیاں آسان کر سکتی ہے۔ آپ کے مردہ جسم کی آنکھیں کم از کم دو نابینا انسانوں کو بینائی دے سکتی ہیں۔

آئے روز ہم بہت سے خطرناک اور جان لیوا حادثات دیکھتے ہیں جن میں لوگ کٹ پھٹ جاتے ہیں، شدید زخمی حالت میں ہسپتال جاتے ہیں کچھ بچ جاتے اور کچھ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔

اس موقع پر خون یا اعضاء کا عطیہ انہیں اگر بچا سکتا ہے تو بصورت موت ہم اس وقت ان کے اعضاء کسی اور کی زندگی بچانے کے لئے عطیہ کرنے کا مشکل فیصلہ کیوں نہیں لے سکتے؟

زندگی اور موت، صحت و بیماری، حادثات و آفات کے معاملات ہم سب اور ہمارے خاندانوں، اعزاء و اقارب، دوست احباب الغرض ہمارے پورے معاشرے سے وابستہ ہیں۔

کسی عزیز از جان کے لئے اگر ہم کسی سے خون یا اعضاء کے عطیہ کے متمنی ہو سکتے ہیں تو کسی اور فرد کے عزیز از جان کے لئے بعد از مرگ اعضاء کا عطیہ کیوں نہیں کر سکتے؟

آرگن ڈونر بننا انسانیت کی معراج بھی ہے اور کار ثواب بھی۔ پاکستان میں آپ ٹرانسپلانٹیشن سوسائٹی آف پاکستان یا SIUT کی ویب سائیٹ پر جائیں۔ فارم پر کریں اور ڈونر کارڈ حاصل کر لیں۔ مگر اس سے قبل اپنے اہل خانہ کو بھرپور اعتماد میں لیں، ان کی ذہن سازی ضرور کر لیں۔

اتنا کچھ تو ایک اکیلا انسان شاید اپنی زندگی میں نہیں کر سکتا جتنا آپ مرنے کے بعد کر سکتے ہیں۔
یقین کیجئے آپ مر کر بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments