موت کی پہلی علامت


موت کی پہلی علامت صاحب 

یہی احساس کا مر جانا ہے 

(ڈاکٹر عُبیداللہ)

مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی عید کے دن آپریشن تھیٹر کی چھٹی کی ہو۔ ایک تو میں پشاور ہی میں رہتا ہوں۔ باقی سٹاف دور دراز علاقوں سے ہوتا ہے اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ عید وہیں گزار سکیں۔ اس دفعہ عید سے ایک دن قبل ایک جوان خاتون ”پریشر کوکر“ کے پھٹنے کا شکار ہوئیں۔ ان کا چہرہ بالکل درمیان سے گویا کلہاڑی سے مارا گیا ہو۔ تین چار ہسپتالوں سے واپس کرنے کے بعد عین ہمارے ہسپتال میں لینڈ کر گئیں۔ نیورو سرجن، میکزیلو فیشیل اور پلاسٹ سرجری کی تین ٹیمیں تقریباً چھ گھنٹے پسینہ بہانے کے بعد کہیں جاکر چہرے کو تقریباً نارمل حالت میں سی سکے۔

اگلے دن عید کی نماز پڑھتے ہی میں مریضہ کو دیکھنے کے لئے ہسپتال آیا۔ سارا کار پارک تقریباً خالی پڑا ہوا تھا لیکن ایک کونے سے سسکیوں اور بین کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اس کونے میں ایک ادھیڑ عمر کی خاتون ایک دس سالہ بچی کو قابو کرنے کوشش کر رہی تھی لیکن وہ کہاں قابو میں آنے والی تھی۔ میں نے آس پاس دیکھا۔ سیکوریٹی گارڈز سے لے کر عام مریضوں کے رشتہ دار بے فکری سے اپنے گپ شپ میں مصروف تھے۔ اس بچی کی چیخیں ان کی خاموشی توڑنے میں ناکام رہی تھیں۔ اب ہسپتال ہے، کون اپنی خوشی سے آتا ہے۔ مصیبت، درد، آزمائش اور رونے دھونے کا ہی تو مقام ہے۔ اس بچی اور اس کے ساتھ خاتون کے گرد ایک نا دکھنے والا پردہ اور خاموشی کی دیوار جمی ہوئی تھی۔ اور وہ نہ کسی کو نظر آ رہی تھیں اور نہ وہ چیخیں کسی کا کلیجہ پھاڑنے کو کافی تھیں۔

میں آہستہ آہستہ ان کی جانب بڑھا اور ساتھ ہی زمین پر بیٹھ گیا۔ خاتون سے پوچھا کیا ہوا۔ ”اس کی والدہ ابھی فوت ہو چکی ہے“ ۔ اس پر بچی نے اور زور زور سے چلانا شروع کیا اور ڈاکٹروں اور ہسپتال کو بددعائیں دینے لگیں۔

میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میرے لب گویا سی لئے گئے تھے۔ بس میں نے اس کے کندھے کو سہلانا شروع کیا۔ آخر میرے منہ سے آواز نکلنے لگی۔ میں نے اس سے پوچھا روزہ تو نہیں۔ اس کے ساتھ کی خاتون نے اثبات میں جواب دیا۔ دس سال کی بچی اتنے وقت سے رو رہی تھی کہ اس کا گلا خشک ہو چکا تھا۔ میں نے پاس پڑی پانی کی بوتل اٹھا کر اس کے منہ سے لگائی۔ اور کہا کہ وہ روزہ توڑ دے، کفارہ میرے ذمے۔ بھلا ہو اس کا کہ دو گھونٹ لے لئے۔ اس دوران ہماری تماشائی قوم گرد جمع ہو چکی تھی جس میں سیکورٹی گارڈز بھی تھے اور ہر کوئی اپنا اپنا لقمہ دینا چاہ رہا تھا۔ میں نے ان کو سختی سے منع کیا اور دور جانے کو کہا۔ میں نے بچی کو تھوڑا اور پانی پلا دیا اور گارڈ کو جوس لانے کو کہا۔ اس کے بعد میں نے ان کو کسی کمرے میں بٹھانے کو کہا اور بھاری دل سے ٹانگیں کھینچتا ہوا آئی سی یو کی جانب بڑھا۔

واپسی پر دیکھا تو وہ دونوں اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھیں لیکن بچی کی آنکھوں کے آنسو خشک ہو چکے تھے۔ اور آنکھ لگ چکی تھی۔ میں نے گارڈ کو ڈانٹا کہ الگ کمرے میں کیوں نہیں بٹھایا تو جواب ملا کہ بچی یہاں سے ہلنا نہیں چاہتی تھی۔

میں یہاں آپ سے صلہ رحمی کے سرٹیفیکیٹ کی درخواست نہیں کر رہا اور نہ ہی کسی کے دکھ پر اپنی ہمدردی جتلا کر اپنا قد اونچا کر سکتا ہوں۔ صرف ایک سوال مجھے کچوکے دے رہا ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ اتنا بے حس ہو چکا ہے کہ اس بچی کو گھنٹوں چیخیں مارنے کے باوجود ایک شخص کا دل بھی نہیں پگھلا؟ میری اپنی بیٹیاں ہیں۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ ایک دیار غیر میں، بے سرو سامانی کی حالت میں میری بچی کو اچانک بتایا جائے کہ تمہاری ماں تو تمہیں چھوڑ کر اگلے جہاں کے سفر پر روانہ ہو چکی ہے۔ تو کیا میری بچی کو آنے والے دن نہیں ڈرائیں گے؟ مستقبل ایک تاریک و عمیق کھائی کی صورت نہیں کھانے کو دوڑے گی؟

اس وقت ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں سب سے مظلوم ہیں۔ دنیا بھر اگر کہیں نا انصافی ہو رہی ہے تو اس کا نشانہ ہم ہی ہیں۔ لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ پوری دنیا میں کہیں بھی مکمل انصاف نہیں۔ کسی کو جان لیوا بیماری ہے تو کوئی اپنے منتشر خیالات سے تنگ ہے۔ کسی کا خاندانی مسئلہ ہے۔ تو کوئی ایک نہ ختم ہونے والے بینک کے قرضے میں پھنسا ہوا ہے۔ لیکن کسی کے کندھے پر سر رکھ کر دو آنسو نہیں بہا سکتا۔ کسی کے پاس وقت نہیں ہے تو کوئی دوسرے کے پھڈے میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتا۔ حالانکہ مشکل وقت میں ہمدردی کے دو بول ایسا جادو کرتے ہیں گویا گہری کھائی میں ایک بھوکے پیاسے قیدی کو اوپر سے اچانک کوئی سیڑھی پھینکے۔ میرے ہاتھ میں کوئی جادو نہیں تھا کہ بچی کے ساتھ مس ہوتے ہی اس کا غم ختم ہو گیا لیکن اس کی سسکیاں رک گئیں۔

ڈپریشن یا پژمردگی ایک اذیت ناک مرض ہے۔ اس سے انسان نہ صرف خود نہایت افسردہ محسوس کرتا ہے۔ بلکہ اپنے خاندان کے لئے بھی باعث عذاب بن سکتا ہے۔ چند ایسے مریض بھی ہوتے ہیں جو اس ذہنی اذیت کو اپنی مضبوط پرسنیلٹی کے سہارے بظاہر چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھتا ہے۔ لیکن اندر ہی اندر سے کھوکھلا ہوتا جاتا ہے۔ اور ایک دن ہم سنتے ہیں کہ اس نے خود کشی کرلی۔

عوام سمجھتی ہے ڈاکٹرز روبوٹ ہیں۔ ان کے جذبات مریضوں کے دکھ دیکھ دیکھ مر چکے ہیں۔ ان کے دل سخت ہو چکے ہیں۔ سرجنوں کو تو باقاعدہ قصاب کا خطاب دیا جاتا ہے (حالانکہ ڈاکٹر بننے کے بعد میں نے کوئی مرغی بھی نہیں ذبح کی ہے ) ۔ لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ خودکشی کی شرح ڈاکٹروں اور میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں میں عام پبلک کی نسبت زیادہ ہے۔ ہم بھی ایک نرم دل رکھتے ہیں جو دوسرے کی آنکھ کی نمی سے پگھل جاتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنے احساسات چھپانے پڑتے ہیں۔

اپنے ارد گرد نظریں دوڑائیں۔ کیا آپ کا کوئی دوست تنہائی پسند تو نہیں ہوتا جا رہا۔ کیا صبح کام پر آتے وقت ان کی آنکھیں سرخ تو نہیں۔ کیا اس کی سگریٹ نوشی یا دوسرے نشوں پر انحصار بڑھ تو نہیں گیا ہے۔ کیا انہوں نے اپنا خیال رکھنا چھوڑ تو نہیں دیا ہے۔ گفتگو کے دوران باتیں بھول تو نہیں جاتا۔ طبیعت زیادہ چڑچڑی یا اچانک خاموش تو نہیں ہوئی۔ نیند کا اڑنا یاہروقت سونا، ہروقت اپنی کم مائیگی کا احساس یا گم صم رہنا۔ یہ سب خطرناک علامات ہیں۔ قریبی دوستوں کو چاہیے کہ ان کو اپنی مشغولیات میں شامل کر لیں۔ کسی صحتمند عادت جیسے واک، جیم اور سوئمنگ کی طرف راغب کریں۔ بس اسے اکیلا نہ چھوڑیں کہیں بعد میں آپ کو ایسی پشیمانی کا سامنا نہ کرنا پڑے جسے واپس نہ کیا جا سکے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments