ماضی سازی کی منافع بخش صنعت


wusat ullah khan وسعت اللہ خان

کون مائی کا لال کہتا ہے ماضی نہیں بدلا جا سکتا۔ ترکیب نہایت آسان ہے۔ پہلے کوئی سا بھی سرخ، سبز، نیلا، زرد نظریاتی چوکھٹا بنائیے اور اس میں من پسند سنہرا ماضی آسانی سے فٹ کردیجئے۔ ماضی بدل دیا جائے تو پھر اسے تلوار، بھالا، نیزہ، بندوق بنا کے حال کو بھی باآسانی خانہ ساز مستقبل کی جانب ہنکایا جا سکتا ہے۔

اسرائیل کو ہی دیکھ لیجیے جہاں ماضی سازی کا کام ایک دن کے لیے نہیں رکا کیونکہ صیہونی نظریہ بھی خودساختہ یا منتخب تاریخی واقعات کی بنیاد پر کھڑا ہے۔

گزشتہ سوا سو برس سے آرڈر پر ماضی تیار کرنے والی لیبارٹری سے جو نسل تیار ہو کے نکلی وہ یہ جاننے یا ماننے کو تیار ہی نہیں کہ انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل بننے سے پہلے بھی یہاں کوئی قوم ہزاروں برس سے بسی ہوئی تھی جسے فلسطینی کہتے ہیں۔

صرف پچھتر برس میں تمام شہروں اور قصبوں کے قدیم نام عبرانی ناموں سے بدل دیے گئے۔ بیسیوں قصبات بلڈوز ہو گئے یا جدید شہروں میں ضم کر دیے گئے تاکہ جن ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو اسرائیل بنتے ہی بے دخل کر کے بے سرزمین کر دیا گیا ان کی نسلیں اگر کوئی قانونی دعویٰ کر بھی دیں تو انھیں اپنی املا کی ملکیت ثابت کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے۔

” زمینی حقائق“ بدلنے کا کام آج بھی زور و شور سے جاری ہے۔ کل انھی حقائق کی بنیاد پر نیا مورخ جو لکھے گا وہی مارکیٹ میں چلے گا۔ فلسطینی ترک عثمانی دور یا اس سے بھی پچھلے ادوار کے کھاتے، ملکیتی سندیں اور مخطوطے لے کے گھومتے رہیں۔ کوئی عدالت انھیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

خود ہم نے اگلی نسلوں کے لیے اپنے آپ کو ایک نظریاتی ریاست ثابت کرنے کے لیے کیا نہیں کیا۔ ایسی ریاست جو صرف مسلمان اکثریت کے لیے اس لیے بنائی گئی ہو تاکہ انگریز کے ساتھ ساتھ ہندو سامراج سے چھٹکارا مل سکے اور ہم اپنی مرضی کی زندگی اپنے نظریاتی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔

اس چوکھٹے میں نہ تو موہن جودڑو اور ٹیکسلا فٹ ہوتا ہے نہ ہندو مت یا بودھ مت۔ نہ ہی بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس، سر گنگا رام، جمشید نسروانجی یا دیوان ایس پی سنگھا جمتا ہے۔ تو پھر یوں کرتے ہیں کہ ہندوستان کی قدیم و جدید تاریخ کو گودام میں قفل بند کر کے نظریاتی روشنائی سے لکھے نصاب کے کان میں اذان دے کے اسے مشرف بہ اسلام کرتے ہیں۔

ہو گا کوئی پورس، چندر گپت موریا، اشوکا، بدھا یا گاندھی۔ ہمیں کیا لینا دینا۔ ہمارے لیے تو سات سو بارہ عیسوی سے پہلے کا ہندوستان ایک تاریک برصغیر ہے۔ ہماری تاریخ تو محمد بن قاسم سے شروع ہوتی ہے اور تمام ترک، افغان، ایرانی بادشاہوں سے ہوتی ہواتی مغل سلطنت کے گیت گاتی، ٹیپو سلطان کے سرنگا پٹنم سے گزر کے اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی میں منگل پانڈے اور جھانسی کی رانی کو ایک طرف کرتے ہوئے جنرل بخت خان اور بہادر شاہ ظفر کی انگلی تھامے، سر سید احمد خان کے دو قومی نظریے کے سائے میں تحریکِ خلافت کی چھاؤں سے گزر کے اقبال اور محمد علی جناح کی قیادت میں چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو راجدھانی کراچی میں بحفاظت اتر جاتی ہے۔

پھر یہی تاریخ کم و بیش تمام مقامی سیاستدانوں کو مطعون کرتی چوبیس برس بعد مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی ڈھائی سطری داستان ہندو سازش کے کاغذ میں لپیٹ کے عالم ِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت کا تاج پہن لیتی ہے۔

بچے یہ پڑھ پڑھ کے خوش ہوتے ہیں کہ پاکستان ایسا مثالی ملک ہے جہاں تمام مسلمان اپنی نسلی و لسانی و علاقائی شناخت ایک بڑی قومی شناخت میں بہ رضا و رغبت گم کر کے کشل منگل محفوظ زندگی گزار ہیں اور جو مسلمان نہیں بھی ہیں انھیں بھی کسی طرح کی کوئی مذہبی، سماجی و معاشی و امتیازی دقت نہیں۔ اگر کوئی اس نظریے سے ہٹ کے سوچتا یا بات کرتا ہے تو بکواس، افواہ اور دشمنوں کا پروپیگنڈا ہے۔

تاریخ کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کرنے کے مشن کے تحت جہاں جہاں بس چلا ہندو باغ مسلم باغ، رام باغ آرام باغ، کرشن نگر اسلام نگر، لائل پور فیصل آباد، کیمبل پور اٹک ہو گیا۔

سعودی عرب پتا سمان، چین یارِ جانی، افغانستان برادرِ یوسف، ترکی خوش خلق کزن اور ایران بھی بس کچھ نہ کچھ ہے۔ بھارت ازلی دشمن ہے ( یہاں ازل سے مراد غالباً انیس سو سینتالیس کے بعد کا زمانہ ہے ) ۔

یہ لیجیے پلاسٹک سرجری ہو گئی۔ چھاپے خانے سے نظریاتی سرپرستی میں پرنٹ ہونے والا نصاب جب دو تین پیڑھیوں کو گھول کے پلا دیا گیا تو خود کو اور سامنے والے کو دیکھنے کا نظریہ بھی بدل گیا۔ آج کا پاکستان اسی ”سرجریدہ“ ماضی کی ہی تو تصویر ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ اب صنعتِ ماضی سازی سرحد پار بھی تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ گزشتہ نو برس میں بالخصوص مسلمان ناموں والے شہروں اور قصبوں کے نام تیزی سے بدلے جا رہے ہیں۔ اگرچہ مسلمان بھارت کی آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔ تعداد اٹھارہ سے بیس کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے اسی فیصد کا ڈی این اے خالص ہندوستانی ہے مگر اب یہ سب حملہ آوروں کی اولادیں قرار پا رہے ہیں جن کا اصل ہندوستانی کلچر عرف ہندوتوا سے کوئی لینا دینا نہیں۔

سلطنتِ دہلی سے لے کے تغلق خاندان، لودھی اور پھر تین سو برس تک حکومت کرنے والے مغل بھی اپنی قبروں اور یادگاروں سمیت گھس بیٹھیوں اور غیر ملکیوں کی لائن میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ بھارت کا ہر وزیرِ اعظم دلی کے لال قلعے پر کھڑا ہو کے تقریر تو فرمائے گا اور غیرملکی مہمانوں کو فخریہ انداز میں تاج محل بھی دکھائے گا مگر آئندہ نہیں بتا پائے گا کہ یہ کب اور کس نے بنائے تھے۔

اگلی پیڑھی کے لیے نصابی سامان تیار ہو چکا ہے۔ اب نئے عقل چوس حقائق نظریاتی قیف گلے میں ٹھونس کے جنتا کے حلق سے اتارے جا رہے ہیں۔ مثلاً بقول مودی جی پہلی پلاسٹک سرجری تب ہوئی تھی جب گنیش جی کو کامیابی سے ہاتھی کا سر لگا دیا گیا تھا۔ یا سکندر اعظم کو سندھو کنارے نہیں گنگا کنارے شکستِ فاش ہوئی تھی۔

انسانی وسائل کی ترقی کے وزیر ستیہ پال سنگھ درست فرماتے ہیں کہ ڈارون کا نظریہ ارتقا بالکل غیر سائنسی ہے کیونکہ کسی نے بھی کھلی آنکھوں بندر کو انسان بنتے نہیں دیکھا۔ چنانچہ اسکولی نصاب سے ڈارون کا نظریہ خارج کر دیا گیا ہے۔

بھارت میں نصابی کتابوں کی تیاری نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ کی ذمے داری ہے۔ یہ کتابیں تمام تعلیمی بورڈز کروڑوں بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ اب اسکول میں مغل دور تک کی کسی مسلم سلطنت یا ان کی کامیابیوں کے بارے میں بچوں کو نہیں بتایا جاتا۔

حتی کہ راشٹریہ باپو گاندھی جی کی بھی نصابی ختنہ کر دی گئی ہے اور انٹرمیڈیٹ کے نصاب سے یہ جملے خارج کر دیے گئے ہیں کہ ”گاندھی جی اس بات کے قائل تھے کہ بھارت کو خالص ہندو ریاست بنانے کی کوشش اسے تباہ کر دے گی۔ یا یہ جملہ کہ“ ہندو مسلم ایکتا کے لیے گاندھی جی کی مستقل مزاجی نے انتہاپسندوں کو اتنا مشتعل کر دیا کہ ان کی جان لینے کی متعدد بار کوششیں ہوئیں ”۔

انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں شامل سیاسیات کے مضمون میں سے بھارتی آئین کے باب سے آئین کمیٹی کے واحد مسلم رکن مولانا ابوالکلام کا تذکرہ خارج کر دیا گیا ہے۔ دو ہزار دو کے مسلم کش گجرات فسادات کا تذکرہ نصاب سے مکمل خارج کر دیا گیا ہے۔

سرکردہ مورخ عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ نصاب میں تبدیلی آر ایس ایس کا پرانا خواب تھا جو اب تیزی سے پورا کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسی نسل کی تیاری ہے جو ماضی کی بابت بالکل اندھیرے میں ہو اور جسے آر ایس ایس اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کھلونا بنا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments