ہم ساری دنیا سے منفرد مسلمان ہیں: ڈاکٹر پرویز ہود بھائی


سی پیک اور پاکستان کے قومی مفادات کی وجہ سے، پاکستان میں چینی تمام غیر ملکیوں میں سب سے زیادہ مراعات یافتہ اور محفوظ ہیں۔ متعدد سطحی پولیس اور خصوصی فوجی یونٹ ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اسی طرح خواہ وہ اسلام آباد میں ہوں، کراچی یا کہیں بلوچستان میں، انہیں مرکز نگاہ نہ بننے اور مقامی لوگوں سے کم سے کم رابطے رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

لیکن جیسا کہ اس ہفتے کے واقعات نے ظاہر کیا کہ یہ احتیاطیں بھی چینیوں کو جنونی اور متشدد مذہبی ہجوم سے محفوظ نہیں رکھ سکیں۔

داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا کام اس وقت روک دیا گیا جب ایک سپروائزر نے کارکنوں پر نماز کے طویل وقفے کرنے کا اعتراض کیا۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ مذہبی توہین تھی۔ اسے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایبٹ آباد کی حوالات منتقل کیا گیا۔ یہ شخص بجا طور پر سیالکوٹ کی فیکٹری کے اس سری لنکن مینیجر پریانتھا کمارا سے زیادہ خوش قسمت رہا جسے ایسے ہی توہین مذہب کے الزام کے بعد تشدد کر کے ہلاک کیا گیا اور وہاں ملازمین نے اس کی لاش کو جلا دیا۔

سوائے افغانستان کے دوسرے مسلم اکثریتی ممالک میں قرون وسطیٰ کی طرز کی یہ دہشت ناپید ہے۔ اور نہ ہی کسی اور جگہ توہین مذہب قومی فکر یا مشغلہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ مخصوص کوہ پیماؤں کے علاوہ، کون صحیح الدماغ شخص ایسے ملک میں چھٹیاں گزارنا چاہے گا جہاں کی آبادی معمولی اشتعال سے شعلے بھڑکانے کے لیے تیار ہو؟

باقی ممالک تمام قومیتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کو لبھانے اور ان کا استقبال کرنے کو بے تاب رہتے ہیں۔ مراکش اور مصر کے بازار امریکی، یورپیئن، روسی اور اسرائیلی شہریوں کے ساتھ بارونق رہتے ہیں، جبکہ انڈونیشیا اور ملائیشیا آسٹریلیا کے باشندوں کے پسندیدہ مقامات ہیں۔ باوجود اس کے کہ بظاہر متحدہ عرب امارات میں شرعی قوانین لاگو ہیں لیکن ان کے نرم سماجی رویے ہر جگہ سے لوگوں کو دبئی کے عجائبات سے لطف اندوز ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔

پاکستان مختلف ہے۔ شاذ و نادر ہی کوئی غیر ملکی گورا، چینی یا افریقی شخص سڑکوں یا بازاروں میں نظر آتا ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں میں غیر ملکی طلباء کا داخلہ صفر کے قریب ہے۔ پاکستان کے بڑے ہوائی اڈے، جو کثیر لاگت سے تعمیر کیے گئے ہیں، آمدورفت میں کمی کی وجہ سے اقتصادی طور پر غیر مستحکم ہیں۔ یہاں روزانہ معدودے چند بین الاقوامی پروازیں ہوتی ہیں جن میں بھی زیادہ تر مسافر پاکستانی مزدور یا تارکین وطن ہوتے ہیں۔

اس ہفتے کے شروع میں سویڈن کی طرف سے اپنا سفارت خانہ غیر معینہ مدت کے لئے بند کرنے کے اعلان سے پاکستان کے بارے میں ”غیر محفوظ ملک“ کے عام تاثر میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یہاں قریب ہی ڈنمارک کا سفارت خانہ ہے جس پر 2008 میں کار بم حملہ کیا گیا تھا۔ دو دیگر یورپی سفارت خانوں کے بارے میں بھی شنید ہے کہ انہوں نے بھی خاموشی سے انہیں بند یا محدود کر دیا ہے۔ عام اوقات میں بھی اسلام آباد میں موجود سفارت کار زیادہ تر ریڈ زون کے اندر ہی رہتے ہیں اور شمالی علاقہ جات کی طرف چھٹیوں کے لیے کم ہی جاتے ہیں۔

ہم دوسرے معاملات میں بھی منفرد ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ یادیں دھندلی پڑ جائیں، یاد کیجئے کہ اسامہ بن لادن کو نہ صرف پاکستان میں پناہ ملی بلکہ وہ بے حد مقبول بھی تھے۔ 2006 کے پی ای ڈبلیو کے گلوبل سروے کے مطابق بن لادن کو عالمی رہنما کے طور پر دیکھنے والے پاکستانیوں کی تعداد 2003 میں 45 فیصد سے بڑھ کر 2005 میں 51 فیصد ہو گئی۔ اس کے برعکس اسی طرح کے یکساں سوالنامے سے مراکش، ترکی اور لبنان میں اس کی مقبولیت میں بیس فیصد کمی دیکھی گئی۔

کیا چیز پاکستان کو دوسرے مسلمان ممالک سے اتنا منفرد اور مختلف بناتی ہے؟ اس مقصد کے لیے میں تین جائزے پیش کروں گا۔

سب سے پہلے پاکستان کے مدارالمہاموں نے طویل عرصے سے یہ فرض کر رکھا ہے کہ صرف مذہب ہی پاکستان کے مختلف خطوں کو ایک ساتھ جوڑ سکتا ہے۔ اس لیے اس ”گوند“ کی زیادہ سے زیادہ مقدار کو ہر جگہ خاص طور پر تعلیم میں شامل کر دینا چاہیے۔ اگرچہ 1971 کے ٹوٹنے سے یہ ثابت ہوا چکا کہ یہ گوند مضبوط نہیں تھی۔ لیکن انہوں نے بالکل برعکس نتیجہ اخذ کیا۔ بحوالہ جنرل ضیاءالحق (1981) کہ ”یہودیت اسرائیل سے نکل گئی تو یہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گا۔ پاکستان سے مذہب کو نکال کر سیکولر ریاست بنا دو ، یہ منہدم ہو جائے گا۔“

کسی اور جگہ ایسی گھبراہٹ نظر نہیں آتی۔ ترکی؟ مصر؟ ایران؟ انڈونیشیا؟ مراکش؟ تاریخی طور پر متشکل قومی ریاستیں ہونے کے ناتے، وہ اسلام سے آسودہ ہیں اور انہیں اپنے وجود کی فکر نہیں ہے۔ ان کے قومی بیانیے ٹوٹ پھوٹ اور تباہی کے الوہی منظرناموں سے پاک ہیں۔

دوسرا، 1980 کی دہائی میں پاکستان کے جرنیل اور علما کشمیر جہاد کے ذریعے علامتی طور پر جڑ گئے۔ ان کے نام نہاد ملا ملٹری اتحاد (MMA) نے ایسے مدرسے بنائے جو جہاد کی فیکٹریاں بن گئے۔ یہ بالآخر قابو سے باہر ہو گئے۔ 2007 کی لال مسجد کی بغاوت نے اسلام آباد کو ایک جنگی علاقے میں تبدیل کر دیا، جس میں سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ جب ریاست نے اپنی پرورش کی گئی قوتوں کا مقابلہ کیا تو وہ کتنی کمزور ہو چکی تھی۔

یہ کمزوری آج بھی واضح ہے۔ یہاں تک کہ بھاری پولیس والے اسلام آباد میں بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ تین میں سے دو مساجد اور مدرسے قبضہ شدہ زمین پر بنائے گئے ہیں۔ شہری حکام اس لاقانونیت کے سامنے بے بس ہیں اور عجلت میں تعمیر کیے گئے ڈھانچے گرانے سے قاصر ہیں۔ اسلام آباد کی تمام مساجد کے لیے ایک ہی وقت میں نماز ادا کرنے کی حکومتی کوششیں بھی ناکام ہو گئیں۔ مدرسہ اصلاحات پانی میں ڈوب چکی ہیں۔ اس کے بجائے، اب جب کہ واحد قومی نصاب نافذ ہو رہا ہے، باقاعدہ سکولوں کو مدرسوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

اس بے بسی کا موازنہ سعودی عرب، مصر، ایران یا کسی اور جگہ سے کریں۔ یہ ریاستیں سختی سے نگرانی کرتی ہیں کہ مسجدیں کہاں تعمیر کی جا سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ ڈیزائن اور فن تعمیر بھی۔ لازمی جمالیاتی دیدہ زیبی مخصوص ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جمعہ کے خطبات کے دوران کیا کہا جا سکتا ہے اور کیا نہیں کہا جا سکتا ہے اس کی صراحت کی جاتی ہے۔ یہ نفرت انگیز تقریر کو محدود کرتا ہے۔ لہذا، کوئی سفاک ہجوم نہیں ہے اور کوئی مشال خان یا پریانتھا کمارا نہیں ہیں۔

تیسرا، ایک مذہبی ریاست (خاص طور پر ضیاءالحق کے نظام مصطفیٰ یا عمران خان کی ریاست مدینہ) کا خالص خیال پاکستان میں بہت زیادہ زندہ ہے۔ یہ سمجھنا آسان ہے کہ شعلہ بیان مقررین اس طرح کے نعروں کا فائدہ مندانہ استعمال کیوں کر سکتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جو گہرے غیر مساوی، بدعنوان اور بہت بڑے طبقاتی عدم توازن سے دوچار ہے، لوگ ایک بے داغ ماضی کے لیے ترستے ہیں جب سب کچھ بہترین تھا۔

واضح رہے کہ سعودی عرب، مصر، مراکش، یا ترکی جیسے مطلق العنان اور آمرانہ ممالک کے رہنما ماضی کے تصورات کے فریب میں زندہ نہیں۔ اس کے برعکس شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی سخت گیر مملکت کو ایک کھلے معاشرے میں تبدیل کرنے کا عزم کیا ہے جو شہریوں کو با اختیار بنائے اور سرمایہ کاروں کو راغب کرے۔ اگرچہ رجب اردگان 1924 میں اتاترک کی طرف سے ختم کر دی گئی خلافت کی بحالی کے لیے کچھ درد رکھتے ہیں لیکن ان کے حامیوں میں سے بھی صرف 8 فیصد یہ چاہتے ہیں۔

استحکام اور خوشحالی کے لیے پاکستان کو اپنی خوش فہمیاں چھوڑ کر ایک نارمل ملک بننا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مختلف خیالات اور نظریات رکھنے والے لوگوں کو کسی نظریاتی حکم کے ذریعے نہیں بلکہ مشترکہ ضروریات اور باہمی انحصار کے ذریعے اتفاق رائے سے اکٹھا ہونا چاہیے۔ ریاستی اداروں کے ذریعے پروان چڑھائی گئی مذہبی انتہا پسندی اور ہمارے سکولوں میں دی گئی زہریلی تعلیم ہمیں کہیں بھی پذیرائی حاصل کرنے نہیں دے رہی۔ اس کے بجائے، ہم ایک جنگلی، بے قابو آبادی پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارے دوست بھی اب ہم سے ڈرتے ہیں۔

(Original article was published in Daily Dawn on April 22, 2023)
https://www.dawn.com/news/1748962


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments