کلف سے خالی محبت


دنیا کی چکا چوند میں گر مجھے کچھ بھایا تو بس اس نامور مردانہ برانڈ کے کھڑکھڑاتے کرتا شلوار جو میں زمزمہ کے ایک بنگلے سے دو تلوار تک جاتے ہوئے راستے میں دیکھا کرتا تھا۔ بڑے بڑے شیشوں کے پیچھے ڈمیوں پر چڑھے وہ کلف لگے کاٹن کے سوٹ آئے دن بدلتے رہتے تھے اور ہر نیا چڑھنے والا لباس پہلے سے زیادہ میری آرزو بنتا جاتا تھا۔ یہ آرزو پچھلے چھ سال سے میرے دل میں پل رہی تھی مگر نہ جانے کیوں ناصرہ نہیں چاہتی تھی کہ میری یہ آرزو پوری ہو۔

حالانکہ اب تو ہم غربت کے اس دور سے بھی گزر آئے تھے جس میں آرزوئیں صرف اور صرف حسرت بنی رہتی ہیں۔ اب تو میں سات آٹھ ہزار کا ایک کھڑکھڑاتا ہوا کرتا شلوار خرید کر پہن سکتا تھا۔ میرے بیٹے پہنتے تھے عید بقرعید پر اور ناصرہ انہیں دیکھ دیکھ کر واری صدقے جاتی تھی پر جب کبھی میں کہہ دیتا کہ میرے لیے بھی ایسا کاٹن کا سوٹ بنا دو تو وہ ہنس کر کہتی۔

آئے ہائے! تم سے کہاں پہنا جائے گا یہ اکڑا ہوا کرتا۔

میں بس حیرت سے اس کا منہ دیکھتا رہ جاتا۔ وہ میرے کپڑے خود سیا کرتی تھی نا جانے یہ اس کی محبت تھی یا بچت۔ میں نے کبھی اس سے پوچھا نہیں پر دل کہتا تھا دوسری بات زیادہ درست ہے۔ یاد نہیں پڑتا تھا کہ کبھی اماں نے بھی مجھے کلف لگا کرتا پہنایا ہو لیکن اماں سے مجھے گلہ نہیں تھا اماں نے مجھے ایسے گھر میں جنم دیا تھا جہاں کمانے والا ایک اور کھانے والے دس تھے۔ ابا کی وہ واحد کمائی صرف ضروریات زندگی پر خرچ ہوتی تھی جلد ہی وہ بھی کم پڑنے لگی تو مجھے بارہ سال کی عمر میں استاد اکمل کے اڈوں پر بٹھا دیا گیا ان اڈوں پر سلمہ ستارہ کورہ دبکہ موتی اور طرح طرح کے نگینے میرے دوست بن گئے اور میں بہت کم وقت میں زردوزی کا ماہر کاریگر بن گیا میری کمائی سے گھر کے حالات بھی کچھ سنبھل گئے مگر میری کمائی کے ساتھ ساتھ میری زندگی کے معاملات بھی اماں نے ہمیشہ اپنے ہاتھ میں ہی رکھے میرا کھانا پینا پہننا اوڑھنا وہی کرتی رہیں دن رات کی محنت نے کبھی مجھے سر اٹھا کر دنیا دیکھنے کا موقع ہی نہ دیا سچ کہوں تو میں ایک سادہ منش انسان تھا دنیا کے جھمیلوں سے زیادہ اڈوں پر بیٹھنا مجھے اچھا لگتا تھا۔

شادی کے بعد اماں نے میری کمائی اور معاملات زندگی ناصرہ کے حوالے کر دیے مجھے اس بات کا کبھی ملال نہیں ہوا میں تو ناصرہ کو پا لینے پر ہی حیران تھا ناصرہ دسویں پاس تھی رنگ روپ میں بھی اچھی تھی سب سے بڑھ کر گھرداری میں طاق اور سلیقہ شعار تھی ہر معاملے میں مجھ سے بہتر ہونے کے باوجود میرے ساتھ وفادار تھی اسی لیے میں زندگی بھر اس کے آگے کبھی سر نہیں اٹھا سکا غربت کے دنوں میں کمال جوڑ توڑ اور چھوٹی چھوٹی بچت کر کے گھر چلاتی رہی اس کی سب سے بڑی خوبی اس کی سلائی تھی۔

اکمل استاد کے گزر جانے کے بعد میں نے اپنا اڈہ ڈال لیا مگر ایک اڈے کی کمائی میں اوپر تلے کے پانچ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گزارا کیسے ہوتا تب ناصرہ نے سلائی مشین سنبھال لی وہ محلے والوں کے ہی نہیں مجھ سمیت پورے گھر کے کپڑے خود سیتی تھی اس کے ہاتھ میں صفائی بہت تھی کسی کو پتہ نہ چلتا کہ کپڑا درزی نے سیا ہے یا ناصرہ نے مگر میرے دل کو تو پتہ تھا۔

جب میرے دونوں بیٹے کچھ بڑے ہوئے تو میں نے بیٹھک میں ان کے لیے بھی اڈے ڈال دیے اور اپنا ہنر ان میں منتقل کرنے لگا آہستہ آہستہ خوشحالی آنے لگی حالات بدلنے لگے لیکن میری زندگی کے معاملات ناصرہ کے کنٹرول میں ہی رہے وہ میرے کپڑے خود ہی سیتی رہی نجانے کیوں وہ چاہتی تھی کہ میں اس کی پسند کا منظر ہی بنا رہوں شاید یہ اس کی مجھ سے شدید محبت تھی یا شاید وہ میرے دل کو دکھی کردینے والی دنیا سے بچانا چاہتی تھی۔ چھ سال قبل ایک مشہور ڈیزائنر میڈم نے میرا اچھا کام دیکھ کر مجھے اپنے ساتھ کام کرنے کی پیش کش کی۔

میں نے اڈے بیٹوں کے حوالے کیے اور خود زمزمہ کے ایک بنگلے میں ڈیزائنر میڈم کے ساتھ کام کرنے لگا۔ غریبوں کے محلے سے نکل کر پوش علاقے میں کام کرنے سے زندگی میں کافی کچھ بدل گیا پرانا مکان نیا ہو گیا بچوں کے رشتے اچھے گھروں میں ہونے لگے۔ بڑے لوگوں کی تعیشات سے بھری زندگی دیکھ کر بھی میرے اندر کا سادہ منش انسان سادہ ہی رہا لیکن بس نجانے کیسے اس مشہور برانڈ کے کلف زدہ سوٹ میرے دل کو بھا گئے تھے میں ہر روز آتے جاتے شیشوں کے پار سجے نئے نئے انداز سے سلے خوبصورت رنگوں والے لباس دیکھا کرتا تھا ناصرہ کی جوڑ توڑ اب بچوں کی شادیوں کے لیے تھی مجھے اس پر اعتراض بھی نا تھا بس میری ایک آرزو پوری ہونے دیتی مگر میں جب اسے کہتا کہ مجھے ایک کاٹن کا کرتا شلوار اس برانڈ کا لینا ہے تو خوب ہنستے ہوئے کہتی

آئی چھوڑو بھی، یہ برانڈ والے تو نرا چونا لگاتے ہیں لوگوں کو۔ دیکھنا پپو کی شادی پر میں تمھارے لیے سب سے اچھا واشنگ وئیر کا سوٹ بناؤں گی۔

میرے طبقے کے لاکھوں لوگوں کی طرح وہ بھی واش این وئیر کو واشنگ وئیر ہی بولتی تھی۔ پھر وہی ہوا پپو کی شادی کے دن قریب آئے تو وہ میرے لئے بسکٹی رنگ کا نرم ملائم سوٹ لے آئی لیکن میرے دل میں تو برانڈڈ کلف لگا کرتا بس گیا تھا۔ عید پر ڈیزائنر میڈم نے بونس دیا تو میں نے وہ پیسے ناصرہ کو نہیں دیے۔ شادی سے کچھ دن پہلے میں نے ناپ دے کر برانڈ سے پستئی رنگ کا کھڑکھڑاتا کرتا شلوار سلوا لیا۔ شادی کی افراتفری میں ناصرہ کو پتا نہیں چلا ورنہ تو خوب ہنگامہ کرتی۔

شادی والے دن میری خوشی دہری تھی میں دل ہی دل میں سوچ کر خوش تھا کہ آج لگوں گا نہ میں بیٹے کا باپ جب کاٹن کے کلف لگے سوٹ میں سینکڑوں لوگ مجھے مبارکباد دیں گے۔ شام گہری ہوئی تو میں نے چپکے سے اپنا سوٹ نکالا اور کمرہ بند کر کے تیار ہونے لگا ایک عجیب سی سرخوشی میرے وجود پر طاری تھی احساس تفاخر میں مجھے کچھ بھی عجیب نہیں لگ رہا تھا۔ بس سوچ سوچ کر مسکراتا رہا کہ آج دولہا کا باپ سب سے الگ ہی نظر آئے گا۔

یہی سوچتا ہوا میں کمرے سے باہر نکلا تو سامنے سے آتی دو عورتیں مجھے دیکھ کر ٹھٹھک گئیں اور منہ نیچے کر کے ہنستی ہوئی چلی گئیں پہلی بار ان کی ہنسی پر میرا دل کھٹکا اس کے بعد وہاں سے گزرنے والی ہر آنکھ مجھے خود پر ہنستی محسوس ہوئی۔ میں جلدی سے پپو کے کمرے میں چلا گیا وہاں جہیز کا سامان سج چکا تھا میں بڑے سے سنگھار میز کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ آئینے میں جو تھا کیا وہ میں ہی تھا۔ ہاں، شاید ساڑھے چار فٹ قد والا وہ شخص میں ہی تھا پچکے گال پتلا دبلا منحنی سا وجود اکڑے ہوئے کرتا شلوار میں کسی اور ہی سیارے کی مخلوق دکھائی دے رہا تھا یک دم میرا دل تاسف سے بھر گیا ہزاروں روپے خرچ کر کے دیرینہ آرزو پوری ہوئی بھی تو میری اپنی ہی نگاہ کھا گئی۔ کاش زندگی میں ایک بار ناصرہ میری خواہش پوری کر دیتی تو آج مجھے اچانک یہ تلخ حقیقت نہ جھیلنی پڑتی۔

سب کی نظروں سے بچتا ہوا میں اپنے کمرے میں آ گیا اور ناصرہ کا سیا ہوا بسکٹی رنگ کا سوٹ پہن لیا جس کی بٹن پٹی اور جیب پر اس نے گولڈن کڑھائی کروائی تھی۔ آج مجھے یقین ہو گیا تھا کہ وہ واقعی مجھ سے محبت کرتی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments