سٹیم سیل (Stem cells) کی ٹیکنالوجی


دنیا میں جہاں دوسری کئی ایجادات ہو رہی ہیں وہیں پر اب سائنسدان سٹیم سیل کی افادیت پر کام کرتے ہوئے اسے انسانی جسم کو فائدہ پہچانے میں جتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ سٹیم سیلز (Stem cells) ایک خاص قسم کے خلیے ہوتے ہیں جنھیں انسانی ہڈی کے گودے سے تیار کیا جاتا ہے۔ انسانی ہڈی کے گودے میں خون کے تین قسم کے خلیے پائے جاتے ہیں۔ سرخ خلیے، سفید خلیے اور پلیٹلیٹس۔ سرخ خلیے خون میں آکسیجن کو انسانی بدن کے مختلف حصوں میں پہچانے کا کام کرتے ہیں جب کہ سفید خلیوں کا کام مدافعتی نظام کو برقرار رکھنا ہے اور بیماری کی صورت میں جراثیم کا قلع قمع کرنے کا کام کرتے ہیں۔ جب کہ پلیٹلیٹس چوٹ کی صورت ایک تو مرمت کا کام کرتے ہیں اور دوسرا جلد کے اوپر ایک جھلی بنا کر خون کو بہنے سے روکنے کا کام بھی کرتے ہیں۔

سٹیم سیلز کو کئی طرح کے نئے خلیوں کی پیداوار میں بوقت ضرورت استعمال اور انہیں انسانی جسم کی مرمت کے کام کے لئے بھی استعمال جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سٹیم خلیوں میں یہ کمال ہے کہ انہیں کسی بھی جگہ استعمال میں لائے جانے کی وجہ سے ان کی افادیت بڑھ گئی ہے۔

جن امراض میں ان خلیوں کی افادیت قابل ذکر ہے۔ ان میں دماغی و ریڑھ کی ہڈی کی چوٹیں، ذیابیطس کی پہلی قسم، رعشہ کی بیماری، سکلیروسیس کی بیماری، بھولنے کی بیماری، امراض قلب، فالج، جسم کا جل جانا، کینسر اور جوڑوں کا درد وغیرہ شامل ہیں۔ جسم سے وقتی طور خون کو جدا کر کے اور اس سے سٹیم سیلز نکال کر خون کو دوبارہ جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے ۔ لیکن اس عمل سے قبل مریض کے خون میں سٹیم سیلز کی مقدار بڑھانے کے لئے چار دن قبل خون میں خلیوں کو بڑھانے والی مقوی ادویات دی جاتی ہیں تاکہ اس کے جسم میں سٹیم سیلز کی مقدار میں اضافہ ہو۔

انسانی جسم کے لئے سٹیم سیلز اہم کیوں ہیں؟ یہ خلیے انسانی اعضاء، ٹشوز اور خون کی افزائش و مرمت کے لئے انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق کئی قسم کے سٹیم سیلز ہوتے ہیں لیکن ان میں تین اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلے ایبمریونک یا نوزائیدہ سٹیم سیلز، دوسرے نمر پر ایڈلٹ یا بالغ سٹیم سیلز اور تیسرے نمبر پر نان ایمبرئیونک یا سو میٹک سٹیم سیلز کہلاتے ہیں۔ یہ نئے سٹیم سیلز مریض کے جسم میں جن خلیوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کی مقدار بڑھاتے ہیں۔ ان نئے خلیوں میں دو طرح کی خاصیت پائی جاتی ہے۔ پہلی خاصیت یہ تواتر کے ساتھ تقسیم ہوتے رہتے ہیں اور دوسری خاصیت یہ تبدیلی کے اثر سے گزرتے ہوئے ان خلیوں کا روپ دھار لیتے ہیں جن کے لئے مریض کے جسم کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔

کیا سٹیم سیلز کو قدرتی طور پیدا کیا جاسکتا ہے؟ قدرتی طور پر بھی ان کی افزائش ممکن ہے۔ مثلاً متواتر روزے رکھنا اور اپنی روزمرہ کی کیلوریز کی مقدار کا کم استعمال سٹیم سیلز کی افزائش ممکن بناتی ہے۔ اس کے علاوہ ٹرائی گلائسرائیڈز کی کمی، شوگر کی مقدار کا کم استعمال، الکوحل سے چھٹکارا اور سٹیم سیلز کی مقدار بڑھانے والی قدرتی ادویات وغیرہ شامل ہیں۔

سٹیم سیلز اور گودے کے ٹرانسپلانٹ کے کیا نقصانات ہیں؟ اس عمل میں گلے اور منہ کا درد، قے کا آنا، انفیکشن، خون کا جاری ہونا، آنتوں اور پھیپھڑوں کے مسائل، مریض کے جسم کا ان نئے سٹیم سیلز کو قبول نہ کرنا یا سٹیم سیلز کے عمل کا ناکامی سے دوچار ہو جانا بھی ممکنات میں شامل ہے۔ یہ سٹیم سیلز گودے میں پائے جاتے ہیں جہاں ان کی تقسیم در تقسیم کا عمل جاری رہتا ہے۔ اپنی عمر بلوغت کو پہنچنے پر یہ گودے کو خیرباد کہتے ہوئے جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔

اگر انہیں انسانی جسم میں بذریعہ ٹیکے داخل کیا جائے تو ان سے درد کا احتمال نہیں رہتا ماسوائے ریڑھ کی ہڈی کے جہاں بیہوشی کے عالم میں انہیں داخل کیا جاتا ہے۔ یہ خلیے انسانی جسم میں ایک سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اور اس دوران مریض کو دوبارہ علاج کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس طرح کے علاج سے مریض کو آپریشن کرانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔

جوڑوں کے درد کے مریضوں میں اس طریقہ علاج سے افاقہ کی رپورٹس ملیں ہیں۔ ایک مریض کو تقریباً ایک ماہ کے عرصے کے بعد ان سٹیم سیلز کی افادیت کا علم ہونے لگتا ہے جب کہ یہ اپنا کام شروع کرتے ہیں۔ لیکن اس عمل کا دورانیہ چھ ماہ تک ہو سکتا ہے۔ یورپی ممالک سپین، سویڈن، فن لینڈ، بیلجیم، یونان، برطانیہ، ڈنمارک اور ہالینڈ میں سٹیم سیل سے علاج کی اجازت ہے جبکہ جرمنی، اٹلی، آسٹریا اور پرتگال میں ان خلیوں کے ذریعے علاج غیر قانونی ہے۔

ان خلیوں سے علاج کے نقصانات پر تحقیق کے مطابق یہ ایک بے ضرر عمل ہے جس کے نقصانات، فائدے و خطرات سے کم ہیں۔ لیکن اس عمل یا طریقہ علاج کے اخلاقی پہلو کو ہرگز نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے بنی نوع انسان کی قدرتی شناخت تبدیل کرنے کا عمل کہیں شروع ہو نہ جائے جو سنگین مضمرات کا حامل ہو گا۔ اس لیے جو کلنک مغربی ممالک میں اپنی سروسز مہیا کرتی ہیں وہ سب قانونی دائرے کے اندر رہتے ہوئے عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اور ان معاشروں میں قانون توڑنے کے مضمرات انتہائی سنگین ہوتے ہیں۔ جب کہ ترقی پذیر ممالک جہاں قانون کی عملداری مغربی معاشروں کے طور منظم نہیں ہوتی تو کہیں یہ عمل انتہائی سنگین نتائج کا حامل نہ بن جائے جس سے بنی نوع انسان کی شناخت متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments