فرام واشک ٹو واشنگٹن


پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ قانون کی لائبریری کے وسیع و عریض ہال کے بیچوں بیچ بڑے بڑے میزوں کے گرد بید سے بٔنی ہوئی لکڑی کی کرسیاں سلیقے سے دھری تھیں جن پر اکا دکا طالبعلم مصروف مطالعہ تھے۔ البتہ میزوں پر جابجا الٹی سیدھی کتابیں پڑی ہوئی تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ پڑھنے والے بعد از مطالعہ انھیں اسی حال میں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ مجھے ”جرمیات“ کے موضوع پر ایک کتاب کی تلاش تھی جس کے لیے میں نے لائبریری انتظامیہ سے بھی مدد طلب کی تھی مگر وہ کتاب کسی صورت ہمیں نہیں مل رہی تھی۔

اسی تلاش بسیار میں میری نظر مطالعے میں مصروف ایک نوجوان پر پڑی تو مجھے وہ دیکھا دیکھا سا لگا، میں اسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا، ذرا سا ذہن پر زور دیا تو معلوم ہوا کہ یہ نوجوان ارشاد حمید بلوچ تھا۔ جب میں نے ارشاد حمید کو آواز دی تو وہ کھڑا ہو گیا اور بہت تپاک سے مجھے ملا۔ وہ مجھے اچانک سامنے دیکھ کر ذرا سا حیران بھی ہو رہا تھا۔ میں کتاب کی کھوج موخر کر کے اس کے ساتھ گپ شپ میں لگ گیا۔

تقریباً ایک سال قبل ارشاد حمید دیگر دس طلباء کے ساتھ پولیس کالج لاہور میں انٹرنشپ کے لیے آیا تھا۔ یہ طلباء لاء گریجویشن کی ڈگری کی تکمیل کی خاطر انٹرنشپ کے لیے پولیس کے ساتھ جوڑ دیے گئے تھے۔ پولیس کالج میں اس پروگرام کے کوآرڈینیٹر کے فرائض مجھے سونپ دیے گئے۔ پولیس افسران کو پڑھاتے پڑھاتے اچانک یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کے ساتھ سابقہ پڑ گیا تھا۔ میں پہلے پہل اسے مشکل کام تصور کر رہا تھا مگر دھیرے دھیرے مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ یہ تو نہایت مفید سرگرمی ہے، جس سے مجھے ذاتی طور پر بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔

یہ طلباء و طالبات کھل کر سوالات کرتے اور پولیس پر اعتراضات کی بارش کرتے لیکن جب انھیں مدلل انداز میں پولیس کے عملی اور حقیقی مسائل سے روشناس کرایا جاتا تو یہ نہایت تحمل سے سنتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے۔ انھی نوجوانوں میں درمیانے سے قد کا حامل دبلا پتلا سا ارشاد حمید بلوچ بھی تھا جسے روانی سے اردو بولنا نہیں آتی تھی، اس کی دقت اس وقت عیاں ہوتی تھی جب وہ الفاظ کو وقفے وقفے سے ادا کرتا ہوا جملہ مکمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

اس کے دیگر ساتھی اسے ہلکے پھلکے مذاق کا نشانہ بناتے رہتے تھے۔ وہ اکثر اسے ”واشک“ کے نام سے چھیڑتے تھے۔ میں نے ایک دن پوچھا کہ ارشاد میاں یہ واشک کیا ہے تو اس نے جواب دیا ”واشک صوبہ بلوچستان کا ایک دور افتادہ اور پسماندہ ترین ضلع ہے اور میرا تعلق اسی ضلع سے جس کی بناء پر یہ لوگ مجھے میرے ضلعے کا نام لے کر چھیڑتے ہیں مگر مجھے تو اس کی چنداں فکر نہیں ہے، مجھے اپنی دھرتی سے پیار اور اپنے بلوچ ہونے پہ فخر ہے“ ۔

نجانے کیوں مجھے ارشاد حمید بلوچ میں خاص کشش سی محسوس ہوتی تھی۔ وہ مجھے بہت سچا اور کھرا انسان معلوم ہوتا تھا، وہ بہت دل سے بولتا تھا، کسی لگی لپٹی سے کام نہیں لیتا تھا، اپنا مطمح نظر کھل کر بیان کرتا تھا، جو تھا جیسا تھا اس پر فخر کرتا تھا، اپنے آبائی علاقے کی پسماندگی کا حال بیان کرتے ہوئے اداس سا ہوجاتا تھا، غلط حکومتی پالیسیوں اور بلوچستان کو نظر انداز کرنے کے رویے پہ نوحہ کناں رہتا تھا۔ بات کرتے ہوئے اکثر اس کا چہرہ شدت جذبات سے سرخ ہوجاتا تھا، اس کے لفظ لفظ سے اداسی ٹپکتی تھی۔

اس کا یہ کرب مجھے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتا تھا اسی لیے میں ہر موضوع پر اس کی رائے کو خوش دلی سے سنتا تھا۔ چائے اور کھانے کے وقفوں میں بھی میں اس سے بلوچستان کے جغرافیائی، سیاسی اور تمدنی حالات پر بات چیت کرتا رہتا تھا جس کی وجہ سے بلوچستان کے بارے میں میری معلومات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ صوبہ بلوچستان جو اس پاک دھرتی کا ہی ایک حصہ ہے کے بارے میں ہماری معلومات اور دلچسپی کا اندازہ لگائیے کہ ہمیں ان کے اضلاع تک کے ناموں کے بارے میں علم نہیں اور حکومتی عدم توجہی کا یہ عالم ہے کہ ان دور افتادہ علاقوں میں رہنے والے پاکستانیوں کو بنیادی انسانی سہولیات تک فراہم نہیں کی جا رہیں۔

پاک ایران بارڈر پر بنیادی سہولیات سے محروم ایسے ہی ایک ضلع واشک میں پیدا ہونے والے ارشاد حمید نے ہوش سنبھالا تو طبیعت میں سنجیدگی اور علم سے محبت موجود تھی۔ وہ پڑھ لکھ کر زندگی کے میدان میں آگے بڑھنا چاہتا تھا مگر تعلیم کے حصول میں بے شمار دقتیں موجود تھیں کہ علاقہ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات سے یکسر محروم تھا۔ اسے سائنس پڑھنے کا شوق تھا مگر سکول کی حالت یہ تھی کہ سائنس پڑھانے والا کوئی استاد میسر تھا نہ مناسب ماحول۔ مگر ارشاد کے خواب بلند تھے اور عزم راسخ تھا، اس نے سوچ رکھا تھا کہ پسپائی اور پسماندگی کی دیواروں کو توڑ کر کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے۔ یوں اس نے میٹرک کا امتحان اپنے علاقائی سکول سے پاس کر لیا اور آگے بڑھنے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواب کو تکمیل کی طرف لے جانا شروع کر دیا۔

ارشاد آگے پڑھنا چاہتا تھا مگر پورے ڈسٹرکٹ واشک میں ایک بھی بوائز کالج نہ تھا۔ قریب ترین ڈگری کالج بھی پنجگور میں تھا جس میں ہاسٹل کی سہولت دستیاب نہ تھی۔ خیر اس نے پنجگور کالج میں داخلہ لیا، کتابیں خریدیں اور اپنے گھر کی راہ لی، ایک دن کالج میں کلاس نہیں لی، جو پڑھا اپنے طور پر پڑھا اور ایف ایس سی کا امتحان دے ڈالا۔ نتیجہ نکلا تو ارشاد حمید بلوچ نے اپنے ڈسٹرکٹ واشک میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی۔ اس کامیابی پر اس کے حوصلے آسمان کو چھونے لگے اور اسے اس کامیابی کی وجہ سے تین لاکھ روپے کی رقم سکالرشپ کی صورت میں مل گئی۔ تعلیمی مدارج کے یہ زینے طے کرتے کرتے وہ اپنے مستقبل کی سمت متعین کر چکا تھا، وہ وکیل بننے کا خواب دیکھ چکا تھا جس کی تعبیر کی تلاش اسے واشک سے اٹھا کر لاہور لے آئی جہاں اسے پنجاب یونیورسٹی کا انٹری ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد ایل ایل بی میں داخلہ مل گیا۔

شہر لاہور کا اپنا ہی ایک رنگ ہے، یہ باہر سے آنے والوں کا کشادہ دلی سے استقبال کرتا ہے پھر انھیں ان کی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کرتا ہے، کوئی اپنے تئیں ہمت چھوڑ دے تو علیحدہ بات ہے ورنہ یہ شہر فیاضی اور دریا دلی میں اپنی مثال آپ ہے۔ تاریخ شاہد ہے شہر لاہور سے جب بھی کسی اچھی یا بری تحریک نے جنم لیا وہ کامیابی کے مدارج طے کرتی چلی گئی۔ اس شہر خوش خصال میں جو جس نیت سے آیا اسے اس کی نیت، ہمت اور صلاحیتوں کے بقدر بہت کچھ عطا ہوا۔ یہ شہر آج بھی علم کی تلاش میں سرگرداں رہنے والوں میں علم، عمل کے متلاشیوں میں عمل، شہرت کی تلاش میں بھٹکنے والوں میں شہرت، حصول رزق کی خاطر قسمت آزمائی کرنے والوں میں رزق بڑی کشادہ دلی سے تقسیم کر رہا ہے۔

لاہور آ کر ارشاد حمید بلوچ کو ایک مکمل علمی ماحول میسر آ چکا تھا، سب سے بڑھ کر اس کا دل لائبریری میں لگتا تھا جہاں کتابوں کا ایک جہان اس کا منتظر ہوتا تھا۔ اس نے دن میں بارہ بارہ گھنٹے پڑھنا شروع کر دیا، یوں الفاظ و معانی پہ اس کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ ایک دن یوں ہوا کہ پڑھتے پڑھتے اس نے کتاب بند کی اور ایک انگریزی تحریر لکھنا شروع کر دی، لکھنے کے بعد اس نے تحریر کو اچھی طرح چھان پھٹک کر دیکھا اور پھر انگریزی روزنامہ ڈان کو ارسال کردی۔

یہ دیکھ کر اسے خوشگوار حیرت نے آ لیا جب ایک مستند انگریزی اخبار نے اس کی تحریر کو من و عن چھاپ دیا۔ یہاں سے ارشاد کی زندگی کو گویا ایک نیا رخ مل گیا، وہ سارا سارا دن مطالعے میں غرق رہتا اور پھر خوب عرق ریزی سے مضامین لکھ کر مختلف انگریزی اخبارات کو ارسال کر دیتا جو بلا تردد انھیں چھاپ دیا کرتے، اس طرح اس کے مضامین ڈان، ڈیلی ٹائمز کے علاوہ دیگر مؤقر اخبارات میں شائع ہونے لگے۔

ایک دن کسی ذریعے سے اس کی نظر امریکن سکالر شپس کی ایڈ پر پڑی جو لاء گریجویٹس کے لیے مخصوص تھے۔ واشک کے ارشاد حمید بلوچ کے دل کی نرم و گداز مٹی میں ایک اور خواب کی کونپل پھوٹ چکی تھی۔ اس نے اس سکالر شپ کے لیے اپلائی کیا تو کسی مرحلے پر بھی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اس کے لکھے آرٹیکلز اس کے راستے کی کشادگی کا سامان بنتے چلے گئے۔ ارشاد حمید اپنی بقیہ تعلیم مکمل کرنے کے لیے واشنگٹن پہنچا تو اس نے اپنی تصویر ”فرام واشک ٹو واشنگٹن“ لکھ کر پوسٹ کی۔

تصویر دیکھ کر میں نے آنکھیں موند لیں اور سوچ میں پڑ گیا کہ انسان کی عزم و ہمت بھی کیا عجیب شے ہے جو اسے ہر رکاوٹ سے بے نیاز کر ڈالتی ہے، پہاڑوں سے ٹکرانے اور سمندروں میں اترنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ ارشاد حمید بلوچ کی یہ کہانی ہر اس نوجوان کے لیے مشعل راہ ہے جو سہولیات اور مواقعوں کی کمیابی کا رونا رونے میں اپنا بہت سا وقت ضائع کر ڈالتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments