آ جا تینوں اکھیاں اڈیک دیاں
جناب محترم پرانے وزیر اعظم صاحب! السلام علیکم۔ امید ہے آپ لندن کی ٹھنڈی ٹھار فضاؤں میں خیریت سے ہوں گے۔ آج آپ کو اس لیے یاد کیا کہ رمضان کے پہلے سے سنتے آ رہے ہیں کہ قائد عوام آیا ہی چاہتے ہیں مگر آپ نے نہ آنا تھا اور نہ آئے۔ یہاں تک کہ چھوٹے میاں کی حکومت میں عوام آٹے کی لائنوں میں لگ لگ کے موت کے گھاٹ اتر گئے اور تو اور آپ ہی کی پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ مفت آٹے کی تقسیم میں اکیس ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔
میاں صاحب! آئیے اور آ کے ثابت کیجیے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ آپ کے اپنے سگے بھائی وزیر اعظم ہیں۔ آپ کیوں گھبرا رہے ہیں۔ آئیے عوام راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں۔ عوام برسوں اپنے آپ کو حکمرانوں کے آگے بے بس محسوس کرتے رہے لیکن اب ان کی آنکھیں کھل چکی ہیں۔ میاں صاحب! آج ٹیکنالوجی کے انقلاب نے ذہنوں کی آبیاری کی ہے۔ اب یہ منحصر ہے لینے والے پر کہ وہ اس کو منفی رنگ میں لیتا ہے یا مثبت۔ میاں صاحب! آپ نے اپنی عوام کے ساتھ انتہائی بے وفائی کا ثبوت دیا اور عمرہ کر کے سعودی عرب سے ہی واپس چلے گئے۔
لوگ تو ہاتھوں میں گلاب کے پھولوں کے ہار لیے کھڑے تھے کہ آپ آئیں تو آپ کا استقبال کیا جائے۔ آپ کے اپنے بھائی کی حکومت ہے۔ پی ڈی ایم کی سب جماعتیں آپ کے حق میں اب کس کا خوف ہے آپ کو؟ اب کیوں نہیں آنا چاہتے؟ او ہو! اچھا! خیال آیا کہ آپ کو یہاں وہ سیکیورٹی نہیں فراہم کی جائے گی جو آپ سعودی عرب میں نماز عید ادا کرنے کے لیے مانگتے رہیں۔ چچ چچ۔ میاں صاحب! آپ کو یاد تو ہو گا کہ جب آپ پہلی دفعہ وزیر اعلیٰ بنے تھے تو آپ نے 7 کلب روڈ پر اپنے لیے ایک نیا دفتر بنوایا تھا۔ یعنی آپ کے شہنشاہی مزاج نے عام لوگوں کے ساتھ بیٹھنا تک پسند نہ کیا۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب وزیر اعلیٰ اور عوام کے مابین فاصلہ قائم ہوا جبکہ آپ تو عوام کے خادم تھے۔ میاں صاحب! آپ کو اپنے مرحوم دوست ضیا شاہد صاحب تو خوب اچھی طرح یاد ہوں گے۔ جن دنوں میں ”خبریں میں“ کالم لکھا کرتی تھی اور ”کالم نگار“ میں بطور تجزیہ نگار بلائی جاتی تھی تو کئی بار ضیا شاہد صاحب نے آپ کی بے وفائیوں کا ذکر بڑے بھاری دل سے کیا خصوصاً جب ان کا اپنا جواں سال بیٹا عدنان شاہد روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے لاہور کے سرکاری ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا تو آپ فقط پیغامات بھجواتے رہے۔ محترم جناب میاں نواز شریف صاحب! آپ کو ہمیشہ ہی سے لیول پلیئنگ فیلڈ کی عادت رہی ہے۔ چھانگا مانگا میں عوامی نمائندوں کی خریدو فروخت کو کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ مگر اب آپ کو وہی موجیں دوبارہ چاہئیں۔ میاں صاحب! عوام پوچھتے ہیں کہ ”قرض اتارو، ملک سنوارو“ کی مہم کیا ہوئی؟
اس میں ہمارے خواب تو خاک میں مل گئے مگر پیسے آپ کی جیبوں میں چلے گئے۔ پاکستانی عوام ہر معاملے میں دھوکے کھانے کے باوجود خندہ پیشانی سے ملک کی بہتری کے لیے کام کرنے کو خود اعتمادی سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ میاں صاحب! وقت کے پہیے کے نیچے سبھی کو آنا ہوتا ہے۔ پچھلے چالیس پچاس سالوں سے نون لیگ اور پیپلز پارٹی مل کر باریاں لیتے رہے۔ خدارا اب تو اپنا لوٹ ہوا پیسہ بھیج دیجیئے نہیں تو پاکستان تشریف لائیے۔ جاوید لطیف صاحب فرماتے ہیں کہ نواز شریف کے بغیر الیکشن نہیں ہو سکتے تو حضور والا آپ کو آنے کے لیے کون سی گارنٹی چاہیے۔
کیا آپ کو الیکشنز میں پہلے سے طے شدہ کامیابی چاہیے۔ پیارے میاں نواز شریف صاحب! آپ نے ہمسایہ ملک جو آستینوں میں سانپ چھپائے بیٹھے ہیں سے ہمیشہ محبت کی پینگیں بڑھائیں۔ آپ کی نواسی کی شادی پر 129 لوگ مودی سمیت بغیر ویزہ کے اچانک پاکستان آ گئے نجانے ان میں سے کتنے واپس گئے اور کتنے یہیں رہ گئے۔ اور یہاں رہ جانے والے کون سے منصوبوں پر کام کرتے رہے۔ مودی جو سدا سے مسلمانوں کا جانی دشمن ہے، اس کے ساتھ پگڑیاں بدل کر بھائی بھائی ہونے کے وعدے وعید کیے گئے۔
سجن جندال تو یوں بھی انڈیا میں لوہے کا بڑا سیٹھ مانا جاتا ہے وہ بھی بغیر ویزے کے آپ کے ساتھ مری چلا گیا۔ جناب میاں صاحب آپ نے امرتسر کے جاتی امرا میں سڑکیں بنوائیں، بجلی لگوائی تو کیا وہ پیسہ یہاں کہ ٹیکس دہندہ کا نہیں تھا۔ میاں صاحب! سنا ہے کہ آپ کو مکہ مدینہ میں نماز عید ادا کرنے کی سعادت اس لیے نصیب نہ ہوئی کہ آپ نے جو سیکورٹی مانگی تھی وہ نہ ملی۔ ملک اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک طرف کھائی ہے تو دوسری طرف کنواں۔
عوام کے دل و دماغ طاقت کے نئے ایوانوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس ملک میں اب سفید پوش اور خط غربت سے نیچے لوگوں میں اب کوئی خاص فرق نہیں رہا مگر آپ تو ٹھہرے ایک بزنس مین۔ آپ تو محض اپنی ہی نسلوں کے کاروبار اور باہر کے بینکوں میں رکھے ہوئے ڈالرز کو بچائیں گے۔ محترم میاں صاحب! میں یہ فرمائش کرنے میں خود کو حق بجانب سمجھتی ہوں کہ آپ جیسے تجربہ کار سیاستدان کو اس مشکل گھڑی میں ملک کے ستائے ہوئے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
ملک میں اس وقت انتشار کا موسم ہے۔ کبھی عدلیہ تو کبھی اسٹیبلشمنٹ کو موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے تو کیوں صاف و شفاف الیکشنز نہیں کروائے جا رہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اگر ہم ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں آئین، پارلیمان اور عدلیہ کے ساتھ کھلواڑ بند کیا جائے۔ کیونکہ اب لوگ ملک کی سیاسی تاریخ پڑھنا شروع ہو گئے ہیں عوام باشعور بنتے جا رہے ہیں اور ووٹ کی عزت کو پہچان چکے ہیں۔ لہذا ان کو ووٹ کی عزت دی جائے۔ والسلام خوددار عوام کی میری آواز سے ملی ایک آواز۔
- امریکہ کی جانب پہلی اڑان! - 28/03/2024
- سرکاری خدمات کے محکمے - 10/03/2024
- سرکاری خدمات کے محکمے - 09/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).