عمران خان کے لئے سبق


اگلے وقتوں میں جب کوئی دوست کسی خاتون کا غائبانہ تعارف یہ کہہ کے کرواتا تھا کہ ”دل کی بہت اچھی ہے“ تو موصوفہ سے ملاقات کی خواہش ماند پڑ جاتی تھی، کیوں کہ ”دل کی اچھی“ کم صورت خواتین کے لئے کوڈ ورڈ سمجھا جاتا تھا۔ اس عمر میں بلکہ کسی بھی عمر میں دل ظاہر میں اٹک جاتا ہے۔ شکن زلف عنبریں، حیرت چشم غزالاں اور شکر لبوں کی جادو نگری سے کوئی خوش بخت بچ کر نکلتا ہے تو ”دل کی اچھی“ تک پہنچ پاتا ہے۔ ویسے یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ حسین چہرے دلوں کے اچھے بھی سمجھے جاتے ہیں، اور یہ بھی سچ ہے کہ درحقیقت ایسا نہیں ہوتا۔

نقاد فرماتے ہیں کہ فرانز کافکا کا مختصر ناول ’میٹا مورفسس‘ بیگانگی اور شناخت کے مسائل سے بحث کرتا ہے، لیکن کالج کے دنوں میں جب پہلی مرتبہ یہ ناولٹ نظر سے گزرا تھا تو اولین خیال یہ آیا تھا کہ ہیئت کتنی اہم شے ہے، مواد سے کہیں زیادہ۔ ایک کاکروچ دل کا کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، آپ اس کی بے لوث محبت کا جواب گرم جوشی سے نہیں دے پائیں گے، بلکہ صاف لفظوں میں آپ کے دل میں اس غریب کے لئے صرف کراہت کا جذبہ ہی پیدا ہو گا، خواہ وہ انسانوں کی طرح سوچ سکتا ہو، محسوس کر سکتا ہو، آپ کی عزت کرتا ہو، آپ سے ہم دردی رکھتا ہو، آپ کا ہم خیال ہو۔

خیر، کاکروچوں کو پیٹھ کے بل پڑا رہنے دیتے ہیں اور انسانوں کی طرف مراجعت کرتے ہیں، بلکہ انسانوں کو بھی چھوڑیے سیاست دانوں کی بات کرتے ہیں۔ سیاست دانوں کی طرف ہمارے رویے میں ان کے حلیے اور شکل و صورت کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ہمارے تمام قومی راہ نما خوش شکل و وجیہہ رہے ہیں، قائد اعظم، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، بلاول بھٹو، مریم نواز، عمران خان، سب کے سب اپنی طرز کے خوش شکل اور پرکشش لوگ۔

ان کے حلیے، قدوقامت اور شکلیں اگر کچھ مختلف ہوتیں تو یہ اصحاب کیسے لگتے؟ اگر مریم نواز ہو بہ ہو فردوس عاشق اعوان جیسی نظر آتیں تو کیا ان کے حامیوں کی فہرست اتنی ہی طویل ہوتی؟ اگر بلاول بھٹو کا ہیئر سٹائل سائیں قائم علی شاہ جیسا ہوتا تو ان پر کتنا سجتا؟ اور اگر عمران خان کا چہرہ مولانا فضل الرحمٰن جیسی ریش ابیض سے سجا ہوتا تو ان پر کتنا جچتا؟ ہمارے خیال میں تو عمران خان قطعاً اچھے نہ لگتے، بالکل اسی طرح جیسے عمران خان کے منہ سے آئین کا لفظ اچھا نہیں لگتا۔

عمران جیسے ہی ’آئین‘ کہتے ہیں ہمیں لگتا ہے ان کے چہرے پر دفعتاً داڑھی اگ آئی ہے جس میں سرخ مہندی رچی ہوئی ہے، اور مونچھیں یک سر منڈی ہوئی ہیں۔ عمران خان کے منہ سے ہم نے بارہا اولین آئین شکن ایوب خان کی مدح سنی ہے، یعنی دوسرے لفظوں میں وہ محترمہ فاطمہ جناح کی توہین کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح نواز شریف کی مخالفت میں انہیں پرویز مشرف کی حمایت کرنا پڑتی ہے۔ جسٹس وقار سیٹھ نے مشرف کو سزا سنائی تو عمران خان اور ان کی حکومت برہنہ پا تپتے توے پر رقص کناں دیکھے گئے، جسٹس صاحب کو عمران خان گروہ نے فاتر العقل قرار دے دیا تھا۔

مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی قوتوں سے مریضانہ نفرت کرنے والے کو بہرحال آئین شکن آمروں کے حق میں زندہ باد کے فلک شگاف نعرے مارنے ہی پڑتے ہیں۔ اور پھر وہ منظر تو لوح دماغ پر کندہ ہو چکا ہے جب عمران خان نے اپنی حکومت جانے سے پہلے پے در پے پانچ مرتبہ آئین توڑا تھا۔ تو اب آپ ہی بتائیے عمران خان کے منہ سے ’آئین‘ کا لفظ ہمیں کیسا لگتا ہو گا؟ تین ڈی جی آئی ایس آئی اور دو آرمی چیفس کی درس گاہوں کا فارغ التحصیل جب ’آئین‘ کا لفظ بولتا ہے تو ہمارے دل پر کیا گزرتی ہو گی؟

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ عسکری قیادت اور عمران خان کے درمیان جاری جنگ خون ریز ہوتی جا رہی ہے، اور آخر کار عمران خان کی گرفتاری بھی ہو گئی، یعنی فریقین کی لڑائی ایک زینہ اور چڑھ گئی مگر آج بھی اس ملک میں کئی دہائیوں سے سویلین بالا دستی کی جد و جہد کرنے والے عناصر اس سارے تماشے کو سائیڈ لائن سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ عمران خان کو فاشسٹ سمجھتے ہیں جو اپنے ہر سیاسی مخالف کو پس دیوار زنداں دھکیل کر اذیتیں پہنچاتا اور خوش ہوتا تھا۔

نظریاتی طور پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ عناصر ڈرتے ہیں کہ اس لڑائی میں عمران خان کی جیت ایک نئے عفریت کو جنم دے سکتی ہے، جو کہنہ بلاؤں سے زیادہ خون آشام ہو سکتا ہے۔ شاید اب عمران خان کو خیال آتا ہو کہ سیاسی و جمہوری عناصر سے لڑائی میں انہیں نفرت کا اتنا زہر نہیں گھولنا چاہیے تھا، وہی سبق جو چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرنے والوں نے بڑے نقصان اٹھا کر سیکھا تھا، وہی چارٹر جسے عمران خان ’مک مکا‘ کہا کرتے ہیں۔

آج سمجھ آ جائے یا کل، عمران خان کے پاس راستہ ایک ہی ہے، ایک جست میں یہ قصہ تمام ہو سکتا ہے۔ خان صاحب، آپ کی ایک پیاری سی تصویر چاہیے، نواز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ چائے پیتے ہوئے، بس ایک تصویر، ورنہ جب جب آپ اینٹی اسٹیبلشمنٹ، جمہوریت اور آئین کا نعرہ لگائیں گے آپ کے چہرے پر دفعتاً داڑھی اگ آئے گی جس میں سرخ مہندی رچی ہو گی اور مونچھیں یک سر منڈی ہوں گی۔ یہ لڑائی پیپلز پارٹی نے اکیلے لڑی تھی اور ہار گئی تھی، یہ لڑائی مسلم لیگ نون نے اکیلے لڑی تھی اور ہار گئی تھی، یہ لڑائی اگر پی ٹی آئی اکیلے لڑے گی تو سو فی صد ہار جائے گی۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments