جیل۔ سیاست کی نرسری یا محض فکری مغالطہ


پاکستان میں علی عباس جلالپوری پہلے اور شاید آخری دانشور اور ادیب ہیں جنہوں نے فکری مغالطے کی اصطلاح کو استعمال کیا یا روشناس کروا یا۔ ”عام فکری مغالطے“ شاہ جی کی مشہور زمانہ تصنیف ہے جسے ہر سیاسی و سماجی کارکن کو لازمی پڑھنا چاہیے یا کم از کم اس بارے سننا ضرور چاہیے۔ شاہ جی ایک بلند پایہ مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحب مطالعہ استاد، وسیع النظر فلسفی اور تاریخ دان بھی تھے اس لیے عین ممکن ہے کہ ان کے نزدیک فکری مغالطوں کی محض عام یا عامیانہ حیثیت ہی ہو مگر اس مضمون کا راقم نہ حافظ نہ مولوی اور نہ ہی قاری بلکہ ایک عام درجے کا سیاسی کارکن ہونے کا دعویٰ دار ہے اور سینکڑوں دریاں، ہزاروں کرسیاں اور لاکھوں پوسٹر لگانے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔

اس نسبت سے ہمارے نزدیک فکری مغالطوں کی حیثیت عام کی بجائے خاص اہمیت کی حامل ہے۔ یعنی فکر کے مغالطوں کی ترجیہی بنیادوں پر نشان دہی اور تصحیح کے بعد درست فکر کا عوامی پھیلاؤ ہی پاکستان کے گونا گوں سیاسی مسائل کا ممکنہ حل ہے۔ اس مضمون کی وساطت سے ہم تمام اہل نظر و فکر کو اس ضمن میں غور و فکر اور توجہ کی استدعا ہے۔ عوام کی درست نظریاتی و سیاسی تعلیم و تربیت نہ ہونے کے سبب پاکستان کے عوام عمران خان سے مایوس ہو کر اب ”لاوے“ جیسے کرداروں کو تیزی سے مرکز نگاہ بنا رہے ہیں۔

پاکستان کی حالیہ سیاسی صورتحال جس میں عمران خان یا تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے، اسمبلی سے استعفے، صوبائی اسمبلیوں کا انہدام، لانگ مارچ وغیرہ کی ناکام جدوجہد کے بعد تحریک انصاف کی قیادت خاصے غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ اب جیل بھرو تحریک کے ذریعے سے مطلوبہ سیاسی نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ پورے ملک میں تحریک انصاف کے کارکنان نے گرفتاریاں پیش کرنی شروع کر دیں۔ نتیجتاً چند درجن گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ لیکن چند دنوں بعد کے معمول سرزنش کے بعد ضمانت پر رہائیاں بھی ہو گئیں۔

اسلام آباد سے عمران خان کی گرفتاری، بعد ازاں خان صاحب کے قریبی ساتھیوں کی گرفتاریوں کے بعد ہنگاموں اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد پارٹی کارکنان کی سینکڑوں کی تعداد میں گرفتاریوں بعد جیل بھرو تحریک کی شاید تکمیل ہو جائے گی۔ آج کل تحریک انصاف کے ہمدرد کچھ اس طرح کا بیانیہ دے رہے ہیں کہ ”عمران خان گرفتاری اور سزا کے بعد ایک عالمی لیڈر کے طور پر ابھرے گا اور باقی گرفتار شدگان کے سیاسی درجات میں بھی اضافہ ہو جائے گا اور تحریک انصاف مستقبل قریب میں ایک بہت بڑی مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر حکومت بنائے گی۔ اسی ضمن میں شیخ رشید قومی میڈیا پر اکثر ببانگ دھل فرماتے رہے ہیں کہ ہتھکڑی ان کا زیور اور جیل ان کا سسرال ہے“ ۔

تحریک انصاف و حواری شاید مرتی نہ تو کیا کرتی کے مصداق اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ملک کے دیگر سیاسی حلقوں میں بھی اس طرح کی سوچ موجود ہے کہ گرفتاریاں، تھانے، چھترول، کچہریاں اور جیلوں کی یاترائیں سیاست کو تقویت اور سیاسی سوچوں کو جلا بخشتی ہیں۔

ہمارے ایک مرحوم دوست بھی اسی طرح کے نظریات کے ذریعے سے اپنی سیاست کو چمکانے پر یقین بلکہ یقین محکم رکھتے تھے۔ لہذا افتخار چوہدری والی وکلاء تحریک میں سوٹا اٹھا کر اگلی صفوں میں حالانکہ موصوف کا وکالت سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ چنانچہ آئے روز ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آج گرفتار اگلے دن رہائی یا دو دن کے بعد رہائی اور اخباروں میں خبریں وغیرہ۔ لاہور میں کوئی گرفتار ہو یا نہ ہو البتہ موصوف ضرور گرفتار ہو جاتے اس پر ہمیں شک گزرا کہ موصوف کہیں ”نورا“ قسم کی گرفتاریوں کا چکر تو نہیں چلا رہے۔

پاکستان میں پولیس کو کچھ دے دلا کر نورا گرفتاریوں کا کاروبار بھی عام ہے۔ ہمارے بڑے بوڑھے اکثر کہا کرتے تھے کہ فولاد اور ریاست سے مذاق بعض اوقات بھیانک شکل بھی اختیار کر سکتا ہے لہذا پرہیز ہی بہتر ہے۔ موصوف ایک دن معمول کے مطابق نورا گرفتاری پر تھے کہ دوران میں پرویز مشرف کی ایمرجنسی نافذ ہو گئی۔ جون کا مہینہ تھا اور تھانے میں ہڑبونگ کے بعد تمام سیاسی گرفتاران شد بغیر کسی تخصیص کے بذریعہ ڈنڈا ڈولی بیس یا پچیس دن کے لیے سیدھے بہاول پور جیل۔ آگے کا قصہ مزید مزاحیہ ہے لیکن معذرت کہ ہمارا مضمون سنجیدہ نوعیت کا ہے لہذا تھوڑے کو زیادہ سمجھیں۔ اس کے بعد البتہ موصوف نے سبق سیکھ کر کسی بہتر پنگے میں بھی ٹانگ نہیں اڑائی اور باقی رہی ان کی سیاست تو وہ پہلے سے بھی زیادہ دگرگوں ہو گئی۔

اس طرح کی سوچ رکھنے والے سیاسی کارکنان عام طور پر گاندھی جی کی جیل بھرو تحریک اور نیلسن منڈیلا کی قید و بند سے متاثر پائے گئے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ان کی مرادیں جیلوں کی مرہون منت ہو کر پوری ہوں گی۔ سیاست کے ادنیٰ طالب علم اور کارکن ہونے کے ناتے ہم اس طرح کی سوچ سے مکمل اختلاف رکھتے ہیں اور اسے فکری مغالطہ سمجھتے ہیں۔

ہندوستان کی تقسیم کے وقت کو دیکھیں تو ہمیں ایک طرف کانگریس کی لیڈرشپ اور دوسری طرف مسلم لیگ کی لیڈرشپ نظر آتی ہے۔ قائد اعظم سمیت مسلم لیگ کی تمام بڑی لیڈرشپ کا پوری زندگی کی سیاسی جدوجہد میں کسی گرفتاری یا قید بند کا ذکر نہیں ملتا۔ کانگریس کی لیڈرشپ میں خاص طور پر نہرو اور گاندھی جی کی گرفتاریوں اور قید و بند کی تاریخ البتہ موجود ہے۔ گاندھی جی اور پنڈت نہرو قید و بند سے پہلے جتنے قد کاٹھ کے لیڈر تھے رہائی کے بعد بھی اتنے ہی قد کے لیڈر رہے۔ عام خیال یہی کیا جاتا ہے کہ شاید ان دونوں کو لیڈر جیلوں نے بنایا یہ سراسر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی سیاسی سوچ، وژن اور مشن نے انہیں سیاسی لیڈر اور مہا آتما بنایا تھا۔

بالکل ماضی قریب کی بات ہے لینن، ٹراٹسکی، ماوزے تنگ، فیڈل کاسترو، جمال ناصر، ہوگو شاویز جنہیں پوری دنیا بلاشرکت غیرے اور بنا کسی شک و بحث کے بڑے قد کاٹھ کے عوامی سیاسی لیڈر تسلیم کرتی ہے۔ ان سب کی زندگیوں میں جہاں اور قدریں مشترک ہیں ان میں ایک مشترک یہ ہے کہ یہ تمام زندگی بھر گرفتاری اور قید و بند یا جیل و سزا کے معاملات سے کوسوں دور رہے۔

پاکستان میں پیپلز پارٹی کی مثال خاصی سبق آموز ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے خاندانی پس منظر اور ذاتی خوبیوں کی بنا پر بہت کم وقت میں عوام کے دلوں میں گھر کر گئے۔ صدر ایوب یا جنرل یحییٰ کے دور میں ایک آدھ مرتبہ گرفتار بھی ہوئے۔ پاکستان کے مقبول ترین وزیر اعظم بھی رہے لیکن جب معاملہ گرفتاری اور جیل پر پہنچا تو بھٹو پھر جیل سے کبھی رہائی نہ پا سکے۔ بھٹو صاحب کی دیکھا دیکھی لاتعداد جیالوں نے رضاکارانہ بنیادوں پر گرفتاریاں پیش کیں، مختلف سیاسی کیسوں کی بنا پر بھی بیشمار جیالے قید و بند کا شکار ہوئے یہ کل تعداد ہزاروں میں تھی۔ 1977 ء کی مارشل لائی لہر کو گزرے اب 46 سال ہونے کو ہیں مگر اپنے قائد اور ہزاروں جیالوں کی قربانیوں اور بعد میں محترمہ بینظیر کی شہادت کے باوجود بھی پیپلز پارٹی 1976۔ 77 ء والا سیاسی عروج دوبارہ کبھی حاصل نہ کر پائی۔

جناب آصف علی زرداری نے بھی زندگی کے 9 سال جیل میں گزارے۔ بعد صدر پاکستان بھی بنے یاد رہے کہ ان صدارت کی بنیاد ان کی طویل جیل نہ تھی بلکہ اس کے سیاسی عوامل کچھ اور تھے۔

آج عمران کی گرفتاری کو چار دن گزر چکے اور اتنے ہی دن سے پاکستان بھی تقریباً بند ہے۔ ہنگاموں اور جلاؤ گھیراؤ اور گرفتاریوں کا عمل اپنے عروج پر ہے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے 1977 ء کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کے قائدین اور کارکنان کی کچھ نظریاتی اساس اور سیاسی تدبر و تربیت بھی رکھتے تھے مگر جلاؤ گھیراؤ اور جیل بھرو پالیسی کے ذریعے پیپلز پارٹی کو کچھ بھی نہ مل سکا۔ اب تحریک انصاف کی باری ہے دیکھیں کہ تاریخ کیا فیصلہ صادر کرتی ہے۔ یاد رہے منطق کے اصول ازلی و ابدی نوعیت کی حیثیت رکھتے ہیں اور تحریک انصاف اتنی بڑی پارٹی نہیں کہ اس کے لیے منطق کے قوانین میں کوئی عارضی یا تھوڑی تھوڑی ردو بدل ہو سکے۔

جدید دور میں سیاسی کارکنان ہی معاشرہ کے استاد اور راہنماء ہیں۔ انہیں معاشرہ یا عوام کے لیے رول ماڈل ہونا چاہیے۔ رول ماڈل بننے کے لیے ضروری ہے کہ کارکن یا لیڈر کو کم از کم صاحب کردار، جملہ اخلاقیات، قوانین اور آئین کا پابند اور معاملہ فہم ہونا چاہیے۔

ٓآخر میں ہم وضاحت کرتے چلیں ہم نے یہ مضمون کسی خاص لیڈر یا سیاسی کارکنان کو مد نظر رکھ کر لکھا ہے اور نہ ہی انہیں گرفتاری اور قید و بند سے ڈرانا مقصود ہے۔ سیاسی زندگی میں یا عام کاروبار زندگی میں بھی گرفتاری والے معاملات آسکتے ہیں تو اس یہ مطلب نہیں کہ کارکن یا لیڈر کو جوتے چھوڑ کر اور دیواریں پھلانگ کر یا چکمہ دے کر رفو چکر ہو کر انڈر گراؤنڈ ہو جانا چاہیے بلکہ پھر اسے سینہ سپر ہو کر باوقار طریقے سے امام احمد بن حنبل اور منصور حلاج کی طرح فرد جرم کا دفاع کرنا چاہیے اور دوران ٹرائل چیخ چنکھاڑے یا آہو بکا سے قطعی پرہیز چاہیے۔ ہم پھر اعادہ اور زور دے رہے ہیں کہ آج دنیا امام احمد بن حنبل اور منصور حلاج کو ان کی گرفتاری اور سزاؤں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے نظریات، اعمال اور اصولی موقف پر ڈٹ کر دفاع کرنے کی وجہ سے عزت سے یاد کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments