عوامی غصے کو اجتماعی شعور میں بدلنا چاہیے


اداروں میں اصلاحات کے لئے سخت احتجاج کے ساتھ ساتھ اجتماعی شعور کی بھی ضرورت ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر سیاسی جماعت میں خاص کر پارلیمانی جماعتوں کے اندر ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی کے خلاف سخت نوعیت کی نفرتیں ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی قیادت ملٹری کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ فوج، عدلیہ، اور بیوروکریسی پر مشتمل ہوتی ہے جن میں ریٹائرڈ سرکاری افسران کی ایک تعداد ہوتی ہے۔ تاہم اس میں سب سے قابل اعتراض کردار عدلیہ کا ہی ہوتا ہے جو غیر جمہوری کاموں کو قانونی شکل دیتی ہے جبکہ ملٹری کے پاس طاقت ہوتی ہے تو وہ مملکت کے تمام امور کو اپنے بوٹوں کے ذریعہ ہانکتی ہے۔

جب بھی کسی ادارے اور خاص کر ملٹری کے خلاف لوگوں کا ردعمل آ رہا ہوتا ہے تو ہمارے دوستوں کو ملکی سالمیت کی فکر پڑ جاتی ہے۔ کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ عوام کو جمہوریت سے دور رکھنا، جمہوری اداروں کو ملیامیٹ کرنا، ملک کے دو لخت ہونے، عوام الناس کے قتل عام، سندھ میں 35 سالوں تک خون بہانے، بلوچستان میں گزشتہ 60 سالوں کے دوران وقفے وقفے سے ملٹری آپریشنز، سندھ میں بھی آپریشنز، پختون خواہ کو محرومیوں میں مبتلا کر کے ان پر دہشت گرد نازل کرنا، دولت کی لوٹ مار، قیمتی زمینوں پر قبضے، صنعتوں اور زراعت کی تباہی، سیاستدانوں کی کردار کشی کرنے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پیش پیش رہی ہے، کیا ہم ان الزامات کو نظر انداز کر سکتے ہیں کہ آزاد شہریوں اور مختلف سوچ رکھنے والے مرد و عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر کے برسوں کے لئے لاپتہ کر دینا، سڑکوں پر لاشوں کا ملنا، لاپتہ افراد کی اجتماعی قبریں ملنا، پولیس مقابلے، کم سن بچوں کی آبروریزی، مذہب کی جبری تبدیلی، ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ ادارے ہی ہیں جنہوں نے لوگوں کو طاقت کے استعمال، عدم برداشت، لوگوں میں مذہبی جنونیت اور فرقوں کی بنیاد پر نفرتوں کو معاشرے کے اہم جزو بنا کر رکھا ہے۔

لوگ کسی بھی سیاسی گروپ سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں اگر وہ فوجی تنصیبات، عمارتوں اور انصاف کے اداروں پر حملے کر رہے ہیں تو ان کے اس عمل کو ایک اجتماعی شعور کی شکل دینے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستانی عوام کی بد نصیبی کی وجہ یہ ادارے ہی رہے ہیں۔ ہم عوام کے منتخب اداروں کو بھی کسی حد تک عوام کی بے کسی کا ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں مگر یہ خود ہمارے ”اداروں“ کی طاقت اور ناانصافیوں کا شکار رہے ہیں۔ عوام الناس اپنے سیاسی شعور کی بنا پر جانتے ہیں کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اجازت کے بغیر کسی بھی ادارے کو آزادانہ فیصلے اور پالیسیاں بنانے کا اختیار نہیں۔

جب بھی منتخب ادارے حکومتی معاملات پر دسترس حاصل کرنے لگتی تھیں فوج اقتدار پر قبضہ کر کے بیٹھ جاتی تھیں گو کہ 2013 کی اسمبلی کے بعد ایسی کوششیں ناکام رہیں مگر یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ ملک مار شل لاؤں سے پاک ہو گیا ہو۔ فوج کو مارشل لا کے لئے عدلیہ نے ہمیشہ اکسایا اور حالات پیدا کیے پھر آگے بڑھ کر فوجی آمروں کو ان کی مرضی کے مطابق ہر وہ سہولت فراہم کرتی رہی جس کی آئین اور قانون اجازت نہیں دیتے۔

اس وقت بھی عدلیہ ایک جمہوریت دشمن شخص کی صرف اس لئے حمایت کر رہی کہ وہ منتخب اداروں کی حاکمیت کے خلاف ہے۔ عدلیہ کو عمران خان کی یہ ادا بھا گئی کہ وہ اپنی ہی اسمبلیاں توڑتا ہے، اپنے اراکین کو اسمبلیوں سے استعفے دینے پر مجبور کرتا ہے اور پھر انتخابات کرانے کے لئے خونی تحریک چلاتا ہے۔ عدلیہ خونی تحریک کا نوٹس لینے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

ہاں! ہم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کیے، زیادہ تنقید اس بات پر ہو رہی ہے کہ لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس حملہ کر کے تباہ کر دیا۔ کوئی یہ بتائے کہ جناح ہاؤس میں کسی جنرل کی رہائش کیوں تھی۔ لوگوں کو ایسی ہی ناانصافیوں پر غصہ آتا ہو گا جس کا انہیں موقع مل گیا۔ لیکن سیاسی تربیت نہ ہونے باعث مشتعل افراد نے جنرلوں سے غصے کے نتیجے میں توڑ پھوڑ کی۔ ویسے ہر سیاسی جماعت کے کارکنوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پر تشدد مظاہرے کیے ہیں لیکن ان کی قیادت نے ایسے احتجاج پر قابو پایا تھا۔

سب کو معلوم ہے کہ عمران خان اداروں کے خلاف پر تشدد اور خونی واقعات کو محض انتقام کے لئے استعمال کرے گا اور اس طرح عوام دشمن اداروں سے بہترین شرائط پر اپنے مطالبات منوا سکے گا۔ اور عوام کی جد و جہد کو جرائم میں تبدیل کرے گا۔

میرا یہ کہنا ہے کہ سیاسی کارکن عدم سیاسی تربیت کے باعث ظلم کے اداروں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ظلم کے خلاف لوگوں کے غصے کو اجتماعی شعور میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ ان واقعات کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی تحریک کو منظم کرنا چاہیے جس میں فوج و عدلیہ سمیت ظلم کے اداروں سے 75 سالوں کا حساب لیا جائے۔ نیز سیاست کو مکمل طور پر ان کی مداخلت سے پاک کیا جائے۔ علاوہ ازیں اس اجتماعی شعور پر مبنی تحریک کو سیاسی جماعتوں اور قائدین کی وابستگیاں سے بالا تر ہو کر فوج اور عدلیہ جیسے اداروں کو ملیامیٹ کر کے ان پر نئی عمارتیں تعمیر کی جا سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments