عمرکوٹ کے پلی برادران


سندھ کے اکثر جاگیرداروں، زمینداروں، سرداروں اور بھوتاروں کے شوق بہت عجیب و غریب ہوتے ہیں، ڈاکوؤں، چوروں، گنڈھی چھوڑوں اور ہر قسم کے اچکوں کی سرپرستی کرنا، گھوڑے، ریچھ، کتے اور مرغے پالنا، ان کو لڑانا، دوڑانا اور شکار وغیرہ بھی ان کے مشغلے رہے ہیں مگر سندھ کے شہر عمرکوٹ کے نواحی گاؤں عطا محمد پلی کے رہنے والے ایک بہت بڑے زمیندار عطا محمد پلی کے تینوں باذوق بیٹوں عبدالکریم، راج محمد اور ولی محمد المعروف ”وفا پلی“ کے شوق اور شغل ان سب سے وکھرے تھے۔

ان کے خاندان کو انگریز سرکار نے نارا ویلی کی سینکڑوں ایکڑ زرخیز زرعی زمینوں سے نوازا تھا جن کو سیراب کرنے کے لیے تھر کنال کے تین میل موری ریگولیٹر سے جو نہر نکالی گئی تھی وہ ”عطائی شاخ“ بھی ان کے والد کے نام سے منسوب ہے، ان کے والد عطا محمد عرف عطائی پلی کو ”خانصاحب“ کے خطاب سے بھی نوازا گیا تھا، عطا محمد نے بعد میں قائد اعظم کے حکم پر وہ خطاب انگریز سرکار کو واپس کر دیا تھا۔

بڑے بھائی عبدالکریم پلی کا شمار سندھی زباں کے بڑے شعراء میں ہوتا ہے، تخلص ”کریم“ کہتے تھے، شاعری کی ایک مقبول صنف ’کافی‘ کے چوٹی کے شعراء خلیفہ نبی بخش اور مخدوم محمد زماں طالب المولی ’کے بعد ادبی حلقوں میں مرتضی‘ شاہ ڈاڈاہی اور کریم پلی کافی کی صنف کے بہت بڑے شعراء جانے جاتے ہیں، کریم پلی کی لکھی ہوئی غزلیں بھی بہت اعلی ’پائے کی ہیں۔ ان کے شعری مجموعے کا نام ”چنڈ جھڑا پریں“ ہے جبکہ ان کی دوسری تصنیف کا نام ”ونجھارن وایوں“ ہے جو 1961ء میں شایع ہوئی تھی اس کتاب میں علاقے نارا ویلی اور تھر کے کافی کی صنف کے کچھ شعرا کے ساتھ ساتھ سندھ کے اس وقت حیات اور کئی ممات شعرا کے خاکے اور ان کی کہی ہوئی کافیاں بھی شامل کی گئی ہیں، اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ڈاکٹر اسد جمال پلی نے اپنی طرف سے کئی اضافوں کے ساتھ سندھی ادبی بورڈ جام شورو سے حال ہی میں شایع کروایا ہے۔

عبدالکریم پلی 1970ء کے عام انتخابات میں ضلع تھرپارکر کی عمرکوٹ اور چھاچھرو والی صوبائی اسمبلی کی نشست (پی ایس۔ 37 ) سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہو کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے بعد میں 1977ء کے انتخابات میں بھی اسی نشست سے پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر جیت گئے تھے۔

کریم پلی سے چھوٹے بھائی راج محمد بہت بڑے محقق جانے جاتے ہیں، انہوں نے تالپور دور کے ایک صوفی شاعر صوفی صدیق فقیر، جن کا شاعری میں تخلص ”صادق“ تھا اور اسی نسبت سے ”صادق فقیر“ کے نام سے مشہور ہیں، کی شاعری پہ ایک تحقیقی کتاب ”وڑھیا واگیا واپریا“ لکھی ہے جو صوفی صادق فقیر کی شاعری پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک مستند دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ راج محمد کے کئی تحقیقی مضامین اور مقالے سندھی ادبی بورڈ کے سہ ماہی جریدے ”مہران“ میں بھی شایع ہوئے ہیں۔

سب سے چھوٹے بھائی وفا پلی کو ”سندھی غزل کا بادشاہ“ جانا جاتا ہے۔ ان کے 2 شعری مجموعے شایع ہو چکے ہیں، ”ہزاریں درد ہکڑی دل“ اور ”لوں ء لوں ء منجھ لغار“ نامی یہ کتابیں شاعری میں دلچسپی رکھنے والوں میں بہت مقبول ہیں۔ دونوں شعراء بھائیوں کریم اور وفا کی شاعری میں اچھوئے احساسات بہت شائستہ اور عام فہم زباں میں ایسے بیاں کیے گئے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی شاعری کی مقبولیت میں اور اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ان دونوں بھائیوں کا کلام عابدہ پروین، استاد منظور علی خاں، سینگار علی سلیم، وحید علی، شادی فقیر، شفیع فقیر، صادق فقیر اور حمیرہ چنہ سمیت درجنوں گلوکاروں نے گایا ہے، نجی محفلوں، شادیوں کے علاوہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد اور کراچی اسٹیشنز کے سندھی موسیقی کے پروگراموں میں ان کا کلام ابھی تک بڑے اشتیاق سے سنا جاتا ہے، ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے اسٹیشن ڈائریکٹر علی اکبر ہنگورجو بتاتے ہیں کہ ”ہماری اسٹیشن کے ریکارڈ کے مطابق وفا پلی کی سینگار علی سلیم کی آواز میں گائی ہوئی ایک غزل

”کڈھن تنھنجی وارن سندی رات تھیندی،
کڈھن محب ملندیں، ملاقات تھیندی ”
(کب تیرے بالوں کی رات ہوگی،
کب محب ملو گے، ملاقات ہوگی)
بڑے عرصے تک سب سے زیادہ سنی جانے والی ایک سپر ہٹ غزل تھی!

ان کی گاؤں والی اوطاق پہ 1960ء سے 1990ء تک پوری تین دہائیاں مشاعرے، موسیقی کی محفلیں، ادبی نشستیں اور مچ کچہریاں اکثر و بیشتر ہوتی رہتی تھیں، کراچی، حیدرآباد، سکھر اور دیگر شہروں اور قصبوں سے آنے والے ادیبوں، شاعروں، موسیقاروں، گلوکاروں اور دیگر مہمانوں کو لانے اور چھوڑنے کے لیے ان کی گاڑیاں قریب کی ریلوے اسٹیشن دھورو نارو پر روزانہ کھڑی رہتیں۔

معروف ڈرامہ نویس اور نامور ادیب عبدالقادر جونیجو 1960 کی دہائی میں ان کے گاؤں کے اسکول میں بطور پرائمری ٹیچر مقرر ہوئے تو ان کی تقرری کی پلی برادران کو بہت خوشی ہوئی کیونکہ اس وقت سندھی ادبی بورڈ کے سہ ماہی ادبی و تحقیقی جریدے ”مہران“ میں پلی برادران کی شاعری اور دیگر مضامین کے ساتھ عبدالقادر جونیجو کی لکھی ہوئی کہانیاں بھی شایع ہو رہی تھیں اس ہم قلمی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو پہلے سے ہی جانتے تھے۔

پلی برادران کی تعلیمی خدمات بھی نمایاں ہیں، عمرکوٹ شہر میں گورنمنٹ کالج اور ضلع کے گاؤں گوٹھوں میں کئی اسکول ان کی کوششوں سے قائم ہوئے، ان کی سخاوت، مہمان نوازی، سادگی اور غریب پروری کے بھی بہت چرچے ہیں، عبدالقادر جونیجو کے لکھے ہوئے ایک ڈرامے میں ایک وڈیرے کو اپنے مزارعوں کے ساتھ رل مل کے وقت گزارتے اور کھاتے پیتے ہوئے دکھایا گیا تھا وہ ڈرامہ جب پاکستان ٹیلیوژن پر دیکھا گیا تو سندھی وڈیروں کے بارے میں ضعیف تاثر رکھنے والے کچھ دانشوروں نے اس کو حقیقت ماننے سے انکار کر دیا، قادر جونیجو ان دانشوروں کو اپنے ساتھ عمرکوٹ کے گاؤں عطا محمد پلی لے گئے اور وہاں وہ لوگ ڈرامے میں دکھائے گئے منظر پلی برادران کی صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بہت حیران ہوئے!

اس دور میں سندھی ادیبوں میں بھی دائیں اور بائیں بازو کی تفریق عروج پر تھی، ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو غلط ٹھہرانے کی تک و دو میں نہ صرف اخباروں اور جرائد میں مضامین لکھے جاتے تھے بلکہ کچھ کتابیں بھی لکھی گئیں اور ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملے کیے جاتے رہے مگر پلی برادران نے نظریات کی اس قلمی جنگ سے اپنے آپ کو کوسوں دور رکھا، یہی وجہ تھی وہ دونوں کیمپوں کے لیے قابل قبول رہے۔

دونوں بڑے بھائی کریم اور راج محمد سال 1991ء میں بالترتیب 55 اور 52 سال کی زندگی پا کر بمشکل ایک ماہ کے وقفے سے انتقال فرما گئے، چھوٹے بھائی وفا پلی دونوں بڑے بھائیوں کے انتقال کے صدمے سے بہت دل برداشتہ ہو گئے تھے، شاعری ہمیشہ کے لیے چھوٹ گئی تھی، اوطاق کی وہ رونقیں بھی ماند پڑ گئیں اور باقی زندگی کے 40 سال انہوں نے اپنے آپ کو ایک کمرے تک محدود کر دیا تھا، شاذ و نادر ہی کسی سے ملتے یا کسی تقریب میں شرکت کے لیے گھر سے باہر نکلتے تھے، سندھی غزل کے بادشاہ کے طور پہ مشہور وفا پلی 2019ء میں وفات پا گئے۔

اس وقت کریم پلی کے ایک پوتے حسن رسول بخش پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر اپنی آبائی یونین کونسل عطا محمد پلی کے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں، راج محمد اور وفا کے بیٹے حاجی اصغر، اکبر پلی، میکائیل اور اسماعیل اپنے روحانی پیشوا مخدوم شاہ محمود قریشی کے ساتھ پی ٹی آئی کی سیاست کرتے ہیں۔

مشہور ادیب، شاعر اور شاہ عبداللطیف بھٹائی پر بہت سارا تحقیقی کام کرنے والے ”لطیف ایوارڈ“ یافتہ ادیب معمور یوسفانی اور ان کے بیٹے ادیب و تاریخ دان ڈاکٹر اسد جمال، پلی برادران کے رشتے دار اور پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ تحقیق، پڑھائی، لکھائی اور چھپائی کے کام میں پوری زندگی ان کے معاون رہے ہیں، انہوں نے مل کر اپنے اسی گاؤں میں ”نوائے ادب اکیڈمی“ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جہاں سے پلی برادران کی مذکورہ تصانیف کے علاوہ اور بھی کئی کتابیں چھپوا کر آدھی صدی سے بہت بڑی ادبی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسد جمال بتاتے ہیں نوائے ادب اکیڈمی کے پاس تینوں پلی برادران کا بہت سارا مواد موجود ہے جو ترتیب دے کر کتابوں کی صورت میں جلد شایع کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments