دو خان: پشتون اتحاد کا مظہر


دونوں ہم عصر تھے، غیر متشدد، اور مظلوموں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اکٹھے جدوجہد کر رہے تھے۔ اپنی اس جدوجہد کی پاداش میں دونوں اجتماعی طور پر تقریباً نصف دہائی تک پابند سلاسل رہے۔ دونوں رہنما اجتماعی شعور اجاگر کرنے اور پشتون قوم کو گہری نیند سے بیدار کرنے کے اہم ستون تھے۔ ان دونوں نے مل کر ایک ایسے دور میں جب پشتون معاشرہ بنیاد پرستی کی بدترین لپیٹ میں تھا کے خلاف انتھک جدوجہد کی۔

ایک ایسے وقت میں جب قوم بغیر لیڈر کے، اپنے حقوق سے بے خبر اور بیگانگی کی حالت میں برطانوی استعمار اور ان کی بربریتوں کی زد میں تھی، خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان اور عبدالصمد خان اچکزئی نے اس ظلم کا مضبوطی سے مقابلہ کر رہے تھے۔ نہ ان پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم نے نہ ان کی آواز کو خاموش کیا اور نہ انہیں زمانے کے فرعونوں کے سامنے سچ کہنے سے مراعات کے لالچ نے روکا۔

دونوں نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں وقت کے حکمرانوں کی طرف سے مراعات کی پیشکشوں کو ٹھکرا دیا۔ ان کی ایمانداری اور قوم سے وابستگی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں نے کل ملا کر 50 سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ کیا ہم قوم کے لیے ایسی قربانی کی توقع کسی اور سے کر سکتے ہیں؟

اگرچہ دونوں کی سیاسی جماعتیں مختلف تھیں لیکن وہ ایک ہی کشتی میں ایک جیسے مقاصد کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد دونوں نے اپنی سیاسی جماعتوں کو نیپ میں ضم کر لیا۔ اختلافات ون یونٹ کی تحلیل کے بعد سامنے آئے جب عبدالصمد خان اچکزئی نے بلوچستان میں ایک علیحدہ پشتون صوبے یا موجودہ خیبر پختونخوا کے ساتھ بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں کو ضم کرنے کا مطالبہ کیا۔

نیپ سے علیحدگی کے بعد خان عبدالصمد خان اچکزئی نے اپنی پارٹی بنائی۔ اگرچہ وہ اے این پی کی قیادت کے ساتھ پالیسی معاملات پر تحفظات رکھتے تھے، لیکن احترام اور رواداری کے اصولوں کو تھامے رکھا۔ ان دنوں خان عبدالغفار خان اگرچہ بوڑھے ہوچکے تھے، اور انہوں نے سیاسی سرگرمیاں ترک کر کے سیاسی امور کی باگ ڈور اپنے بیٹے خان عبدالولی خان کو سونپ دی تھی جن کے بھی عبدالصمد خان اچکزئی کے ساتھ گرمجوشی سے تعلقات تھے۔

اس وقت ہم دونوں جماعتوں کے کارکنوں کی طرف سے ایک دوسرے کی قیادت کے خلاف ٹرولنگ، گالی گلوچ، بدتمیزی اور الزام تراشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ خان عبدالغفار خان اور عبدالصمد خان اچکزئی کی شخصیات بھی ان بریگیڈز سے محفوظ نہیں۔ یہ عظیم رہنما کی ذات، ان کی ساکھ اور قربانیاں چھوٹے چھوٹے سیاسی مفادات کے لیے بدنام کرنے کے لائق نہیں

سب سے بڑی ذمہ داری دونوں جماعتوں کی قیادت کے کندھوں پر ہے کہ وہ اپنے حامیوں کو اس بکواس پھیلانے سے روکیں۔ اس بے سروپا سوشل میڈیا کی لڑائی میں کوئی بھی فاتح نہیں۔ جبکہ اس میں ہارنے والے مجموعی طور پر پشتون ہی ہیں۔ خان عبدالغفار خان اور عبدالصمد خان اچکزئی دونوں نے اپنے سیاسی حریفوں سے بھی اپنے کردار، وقار، جہد مسلسل کی داد سمیٹی۔ بدقسمتی سے ان کے پیشرو قوم کے لیے اتنے ثمر آور اور کامیاب ثابت نہیں ہوئے جو میراث دونوں خان چھوڑ کر گئے تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments